• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی وزیرخارجہ جان کیری کا چینی اخبار سے انٹرویو میں یہ فقرہ ’’عراق جنگ امریکہ کی غلطی تھی‘‘اس صدی کا لطیفہ ہے ؎
کی مرے قتل کے بعد، اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
لاکھوں عراقی جان سے گئے، ایک مستحکم، مضبوط اور خوشحال ریاست کے عوام کو بدامنی، غربت اور لاقانونیت نے گھیر لیااور اس کا اقتداراعلیٰ مذاق بن کر رہ گیا۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ امریکہ کی غلطی تھی ؎
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔
غلطی عراق پرحملہ نہیں افغانستان میں فوجی مداخلت تھی جسے جارج ڈبلیو بش نے مقدس صلیبی جنگ کا نام دیا مگر پھر مکرگئے کیونکہ حاشیہ نشینوں نے سمجھایا کہ صلیبی جنگوںکا ایک کردا ر سلطان صلاح الدین ایوبی بھی تھا جس کے نام سے یورپ کی مائیں اب بھی اپنے سرکش بچوں کو ڈراتی ہیں۔پھر اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا اور یہ پروپیگنڈا ہواکہ دہشت گرد تمام کے تمام مسلمان ہوتے ہیں اور ا ن مسلم ممالک میں پائے جاتے ہیں جہاں کسی نہ کسی طرح سیاسی استحکام ہے، پیشہ ور اور طاقتور فوج اور معدنی وسائل۔
عراق پرحملے کا مقصدان کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش تھی جو امریکہ نےعراق ایران جنگ میں صدام حسین کو دیئے تاکہ انقلاب ایران کی سرکوبی کرسکے۔ امریکہ نے چار درجن ممالک کی حمایت اورشرکت کافائدہ اٹھاتے ہوئے صدام حسین کی حکمرانی کا تیاپانچہ کیا، ہتھیارتو خیر کیا ملتے اسرائیل کو سستے داموں تیل اور میٹھاپانی وافر مقدار میں ملنے لگا اور عسکریت پسندی کی وباپورے عالم عرب میں پھیل گئی۔
افغانستان اورعراق پر امریکی حملے کے بعد دنیا میں دہشت گردی ختم ہوئی یا اس کا دائرہ کار مزید پھیلا؟ یہ سوال کسی انصاف پسندامریکی سے کیاجائے تو جواب ملتاہے کہ پہلے صرف سوڈان اور افغانستان دردِ سر تھے اب یمن، لیبیا، شام،عراق اورپاکستان دردِ سر نہیں دردِ جگر ہیں۔ مصر بھی بالآخر اس راستے پر گامزن ہوگا۔ عراق میں اکثریتی شیعہ حکومت کے قیام سے ایران تو رام ہوا یا نہیں مگرابوبکر البغدادی کی صورت میں ایک نیا اُسامہ بن لادن ضرور منظرعام پر آ گیا جس نے اسلامک سٹیٹ آف عراق و شام اور خلافت اسلامی کے قیام کا اعلان کرکے امریکہ و یورپ کے علاوہ پورے خطے کو چونکا دیا ہے۔
عراقی شہر تکریت سے اٹھنے والی اس آندھی نے بغداد میں گماشتہ امریکی حکومت اور نومنتخب پارلیمینٹ کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ امریکہ و یورپ کے علاوہ ایران، ترکی، لبنان، شام میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں اور بغداد کی طرف پیش قدمی نے عراقی فوج میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ یہ ابوبکرالبغدادی کا خوف ہے کہ نومنتخب عراقی پارلیمینٹ کے 100ارکان پہلے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اور یوں سپیکر و وزیراعظم کا انتخاب عمل میں نہیں آسکا۔ امریکہ نےاپنے سفارت خانے کی حفاظت کے لئے 200مزیدکمانڈوز بغداد بھیجنے کا حکم دیا ہے اور عراقی ہیت مقتدرہ نے انتباہ کیاہے کہ اگرامریکہ و یورپ نے فوج نہ بھیجی توہم ایران سے فوجی مداخلت کی درخواست کرنے پر مجبور ہوںگے۔
ابوبکر البغدادی کی آئی ایس آئی ایس یا آئی ایس آئی ایل نے اسلامی خلافت کا جو نقشہ جاری کیا ہے اس میں عراق و شام، لبنان شامل ہیں اور ترکی اور ایران کے سنی کرد اکثریت والے علاقے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت ِ عثمانی کے خاتمے کے اعلان کو کالعدم قرار دیاگیا ہے جو فرانس اوربرطانیہ نے مشترکہ طور پر کیا۔ موجودہ قومی سرحدوں کو ختم کرکے عرب و عجم، کالے گورے کی تقسیم و تفریق کے بغیر ہر مسلمان کو خلافت کا شہری تسلیم کیا گیاہے اور مزارات و مقابر کے بارے میں مذہبی احکامات کی تعمیل کا عندیہ ظاہر کیاگیاہے جس نےایران اور کربلائےمعلی و نجف اشرف کے عقیدت مندوں کو پریشان کردیاہے۔ ابوبکر البغدادی نے القاعدہ اورایمن الظواہری سے وابستگی ختم کردی ہے اور صدام حسین دور کے فوجیوںکے علاوہ موجودہ عراقی فوج کے بھگوڑوں کوکھلے بازوئوں سے خوش آمدید کہا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور عراق پر حملے کے سبب پوراعالم عرب بلکہ عالم اسلام جنگی تھیٹر میں تبدیل ہوگیاہے اور شیعہ سنی تنازعات کو ہوادینے کانتیجہ ایک ایسی خلافت تحریک کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے جو بین الاقوامی سرحدوںکی مخالف اور نئےعالمی نظام ، نئی سرحدی تقسیم کی علمبردار ہے۔ عالمی رائے عامہ میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ کیاافغانستان سے رسواکن امریکی انخلا کے بعد کالی پگڑی اور کالے جھنڈے والے افغان طالبان بھی اس تحریک کا حصہ ہوںگے یا اپنی سرحدوں تک محدود رہیںگے؟ امریکہ، بحرین اور شام میں طالبان کی گروپوں کی آمد کو خوش آمدید کہہ کر اپنے پائوں پر کلہاڑی تو مار چکا ہے۔
خطے میں روز بروز پھیلتی جنگ جو آہستہ آہستہ شیعہ سنی تنازعے کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے بالآخر کیا رخ اختیار کرے گی؟ فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اگر اس جنگ میں افغان عنصر بھی شامل ہو گیا تو امریکہ کی بلا سے۔ کوئی جان کیری کندھے اچکاکر یہ کہہ دے گا کہ افغانستان پر حملہ امریکہ کی غلطی تھی مگراس خطے کے عوام کا کیا بنےگا جنہیں افغانستان اور عراق پر جنگ مسلط کرتے وقت کسی نے پوچھا نہ اب امریکہ کی پسپائی کے وقت کچھ بتایا جارہا ہے۔ ابوبکر البغدادی نے خلافت کا اعلان کرکے صرف امریکہ و یورپ کو سرخ رومال نہیں دکھایا بلکہ ترکی، ایران، شام اور لبنان کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک کی فوج کو بھی للکارا ہے جو اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہے۔ اسرائیل البتہ اس صورتحال سے خوش ہے کیونکہ جب تک شیعہ سنی، کرد، غیرکرداور خلافت کے علمبردار و مخالف ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اس کی سلامتی اور جغرافیائی سرحدوں کو کوئی خطرہ نہیں۔
رہے ہم پاکستانی تو حال مست، مال مست لوگوں کو اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے نہ فرصت۔ ہم میں سے کسی نے آج تک اس بات پر غور نہیں کیا کہ آپریشن ضرب ِ عضب کے بعد اسلام آباد، لاہور، کراچی میں کوئی ردعمل کیوں نہیں ہوا؟ کیا ہر جگہ طالبان کا خاتمہ ہو گیا؟ وہ کسی چھوٹی موٹی کارروائی کے قابل نہیں رہے؟ اور خوف سے توبہ تائب ہو گئے ہیں یا خاموشی کسی طوفان کا پیشہ خیمہ ہے۔ کابل پر امریکی قبضے کے بعد اسی طرح کی خاموشی افغانستان میں بھی دیکھنے کو ملی تھی اور تورابورا پر بمباری کے بعد بش نے فتح کا اعلان بھی کرڈالا تھا مگر بارہ سال سے یہ جنگ جاری ہے۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر دنیا کا نقشہ بدلا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو صلیبی جنگ کا نام دیںیا تیسری جنگ عظیم کا مگر یہ ہے خطرناک۔ کسی بڑی تبدیلی کے بغیر ختم ہو، یقین نہیں آتا مگر دنیا باامید قائم۔ فی الحال تو جان کیری کو لطیفے پر داد دیجئے ’’عراق جنگ امریکہ کی غلطی تھی‘‘ ؎
جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں
تم جھوٹ کہہ رہے تھے مجھے اعتبار تھا
تازہ ترین