• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
dr
گزشتہ دو ہفتوں سے آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ جاری ہے اور ہماری مسلح افواج پورے عزم سے دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فوج اپنے مطلوبہ اہداف و مقاصد کے حصول کے قریب تر ہے۔ یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ سیاسی اور عسکری قیادت آخری وقت تک معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پالیسی پر کار بند رہیں۔ وزیر اعظم نے برسراقتدار آنے کے فوری بعد مذاکرات کا ڈول ڈالا تاہم انتہا پسندوں کی جانب سے سول اور عسکری اداروں اور عوام الناس کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کے باوجود سیاسی اور عسکری قیادت نے صبرو تحمل سے مذاکراتی پالیسی کو اولین ترجیح بنائے رکھا۔ بالآخر طاقت کا استعمال ناگزیر ہو گیا اور اس فوجی آپریشن کی نوبت آگئی جس سے گریز کیا جا رہا تھا۔
گزشتہ ایک عشرے میں دہشت گردی کا یہ عفریت کم و بیش پچاس ہزار افراد کو نگل چکا ہے۔ان میں قریباً 5ہزار شہداء کا تعلق فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے۔ مزید براں ملکی معیشت کو قریباً 103 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اب جبکہ قومی سطح پر یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ دہشت گردی کو طاقت کے زور سے کچل دینا ہے تو قومی یکجہتی بھی ناگزیر ہو چکی ہے۔ ہمیں یہ جنگ بہر صورت جیتنی ہے اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن ہمارے پاس نہیں۔اس وقت بالخصوص سیاسی قیادت کو اتفاق رائے اور اتحاد و یگانگت کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس طرح کی جنگیں صرف فوج نہیں لڑتی بلکہ پوری قوم کو لڑنا ہوتی ہیں۔
یہ فیصلہ کن مرحلہ امتحان کی گھڑی ہے۔ فوج اپنی تمام تر توانائیاں اس جنگ میں صرف کر رہی ہے ۔ فوجی جوان اور افسران پوری جرأت کے ساتھ قوم کے کل کے لئے اپنا آج قربان کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں فوج کو نفسیاتی سہارے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا مورال بلند رہے۔ دوسری جانب تقریباً چھ لاکھ افراد شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ان کی عارضی آباد کاری اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی بے حد اہم اور توجہ طلب معاملہ ہے۔ وفاقی اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو اس مسئلے سے عہدہ برآ ہونے کے لئے مالی وسائل بھی فراہم کرنے ہیں اور انتظامی صلاحیتیں بھی بروئے کار لانی ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس صورت حال میں سیاسی قیادت پوری طرح متحد ہوتی اور تمام تر ذاتی اور سیاسی اختلافات بھلا کر اپنی فوج کی پشت پر کھڑی ہوتی اور آئی ڈی پیز کی مدد کے لئے حکومت کیساتھ مل کر مشترکہ لائحہ عمل مرتب کیا جاتا۔
تاہم صورت حال اس کے بر عکس ہے ۔ کچھ سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف محاذ کھولے بیٹھی ہیں۔ جلسے جلوس، احتجاج اور حکومت پر تنقید اپوزیشن جماعتوں کا حق سہی مگر قومی بحرانوں اور امتحانوں کے دوران ترجیحات بدل جایا کرتی ہیں ۔ یہ جنگ جیتنے کے لئے فوج کو جس قدر یکسوئی درکار ہے وہ سیاسی قیادت کی یکجہتی کی متقاضی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو انتشار سے گریز کی راہ اپنانی چاہئے ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی خاطر نہیں بلکہ اپنی فوج ، چھ لاکھ آئی ڈی پیز، اپنی ریاست کے استحکام اور دہشت گردوں کے خلاف اس جنگ میں فتح مندی کے لئے۔ مگر ہم محاذ آرائی پر تلے بیٹھے ہیں ۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے عمران خان کو اپنے ہمراہ آئی ڈی پیز کے کیمپوں کا دورہ کرنے کی دعوت دی مگر عمران خان کی جانب سے اسے مسترد کر دیا گیا۔ ان کا گمان تھا کہ یہ دعوت ان کا جلسہ بہاولپور منسوخ کرانے کی سازش تھی حالانکہ بہاولپور کا جلسہ وزیر اعظم کے دورہ بنوں کے اختتام کے قریباً آٹھ نو گھنٹوں بعد شروع ہونا تھا اور اس کے ملتوی ہونے کا کوئی احتمال نہ تھا۔ اگر چھ لاکھ افراد کا حوصلہ بڑھانے اور دنیا بھر کو سیاسی اور فوجی قیادت کی یکجہتی کا تاثر دینے کی خاطر عمران خان ایک سیاسی اجتماع ملتوی کر بھی دیتے تو یہ مہنگا سودا نہ تھا مگر عمران خان وزیر اعظم کے ساتھ دکھائی دے کر حکومت کے ساتھ صلح جوئی کا کوئی تاثر نہیں دینا چاہتے تھے۔ غالباً انہیں باور کروا دیا گیا ہے کہ ان کی سیاسی بقا اور آئندہ کامیابی کا انحصار محاذ آرائی کی سیاست میں پوشیدہ ہے۔
اب وہ چار حلقوں کے بجائے پورے انتخابی عمل کو مشکوک قرار دے چکے ہیں یعنی وہ نظام جس کے تحت ان کی جماعت خیبرپختونخوا میں حکومت کر رہی ہے اور پنجاب اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن سنبھالے بیٹھی ہے۔ وہ اپنے اہداف واضح کرنے میں بھی ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت کو پٹڑی سے نہیں اتارنا چاہتے مگر وہ 14 اگست کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کئے بیٹھے ہیں ۔ دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈا سے پاکستان آ چکے ہیں ۔اگرچہ ان کا انقلاب کا نعرہ ہوا میں تحلیل ہو چکا ہے مگر پھر بھی وہ مسلم لیگ ق اور عوامی مسلم لیگ جیسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کوئی نہ کوئی ہنگامہ برپا کئے رکھتے ہیں۔
اس وقت ہم اپنی قومی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں یہ محاذ آرائی کس کو فائدہ پہنچا رہی ہے؟ دنیا بھر میں ہمارے بارے میں کس قدر منفی تاثر جا رہا ہے۔ اب جبکہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ملک میں آ رہی ہے، انتشار کی یہ کیفیت اس سرمایہ کاری کو روکنے کے درپے ہے۔ سیاسی جماعتیں حکومت کو مشکل سے دوچار کرنا چاہتی ہیں تو پارلیمنٹ اور میڈیا کے ذریعے اس کی کمزوریوں اور خامیوں کی کڑی گرفت کریں، اسے کٹہرے میں کھڑا کر کے جوابدہی کریں مگر اپنے سیاسی اختلافات کی سزا ملک اور اٹھارہ کروڑ عوام کو نہ دیں۔
وفاقی حکومت کو بھی اس صورت حال میں دانشمندانہ طرز عمل اختیار کرنا چاہئے۔ جس طرح سانحہ ماڈل ٹائون میں پنجاب حکومت کی سبکی ہوئی اس نے مسلم لیگ ن کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔ اب حکومت کا فرض ہے کہ سیاسی درجہ حرارت معمول پر لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ سیاسی روابط میں تیزی لائے اور اپوزیشن کے جائز مطالبات تسلیم کرے۔ اس ساری صورت حال میں میڈیا کا کردار ایک بار پھر زیر بحث رہا۔ ماضی میں الیکٹرانک میڈیا شاندار کارکردگی کا حامل تھا۔ 2005ء کے زلزلے میں، وکلاء بحالی تحریک اور 2010ء کے سیلاب میں یہ عوام الناس کے تحرک کا باعث بنا مگر اس وقت شدت سے محسوس کیا گیاکہ وہ وقت جو آئی ڈی پیز اور افواج کے شہداء کا حق تھا وہ ڈاکٹر طاہر القادری کی نذر ہو گیا۔ تاحال چھ لاکھ آئی ڈی پیز کی امداد کے لئے خصوصی نشریات کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا۔
یہ امر واضح ہو جانا چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا یہ مرحلہ پوری قوم کی یکسوئی اور یکجہتی کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر سیاستدانوں نے امتحان کی اس گھڑی میں اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کا کھیل جاری رکھا تو ان کے حصے میں تو کچھ نہیں آئے گا لیکن ممکن ہے کہ ان دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہو جو پاکستانی قوم کو مسلح افواج کی پشت پر اور حکومت کے شانہ بشانہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ پاکستان کو اب سیاسی بلوغت کے اس مقام تک پہنچ جانا چاہئے جہاں عوام کے فیصلوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ تسلیم کر لیا جاتا ہے اور فتنہ و فساد کے بجائے مسلمہ جمہوری پارلیمانی روایات کے تحت مسائل کا حل نکالا جاتا ہے۔
تازہ ترین