• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی نظریئے پر ایمان رکھنا بری بات نہیں لیکن اپنے نظریئے کے خلاف زندگی گزرنا ایک مکروہ عمل ہے مگر کیا کیا جائے کہ آج کے دور میں چیزیں، جذبے ، سوچیں اتنی گڈمڈ الٹ پلٹ اور اتھل پتھل ہوگئی ہیں کہ اصل اور نقل میں امتیاز کرنا مشکل تر ہوگیا ہے، سیاست ہو یا ادب، سماجیات ہو یا صحافت، آرٹ ہو یا ثقافت کہ جسے سب حالتوں کی حالت کہنا چاہئے بے یارومددگار اور مخدوش الصفات ہو کر رہ گئے ہیں۔ اب تو بس یوں ہے کہ طاقت جہاں سے ملے اور جیسے ملے ہر قیمت پر اسے حاصل کرو اور جس وقت جس نعرے میں فائدہ ہو اس کے ہمنوا بن جائو اور حقیقتاً جو لوگ نیکی ، سچائی کے قائل ہوں ان کا منہ کالا کرتے چلے جائو اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھتے جائو کہ کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے۔ اقبال نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ ’’کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور‘‘۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ یہاں ہر کرگس اپنے آپ کو شاہین ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ جذبے کا مظاہرہ اور شوق کا ثبوت سب سے مشکل کام ہے۔
یہ جو اہل نقدونظر فرماتے ہیں کہ تعلیم کا بنیادی مقصد ہوتا ہے معاشرے کے مسائل کا حل تلاش کرنا اور یہ کام خصوصیت سے سماجی علوم کے ذریعے ہوپاتا ہے کہ جو سیاسی سماجی اور ثقافتی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں اور پھر ذہنی طور پر معاشرے کو باشعور بناتے ہیں تاکہ ان مسائل کو سمجھا جاسکے اور ان پر قابو پایا جاسکے۔ پاکستان میں اس وقت ’’علوم‘‘ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جن سماجی مسائل سے دوچار ہے ان کی نشاندہی تک نہیں ہو پارہی اور کسی مسئلے کا حل اسی وقت ممکن ہے کہ جب اس کو پوری طرح سے سمجھا جائے۔ تو آئیے بڑے لوگوں کی بڑی بڑی باتوں سے ہم ان مسائل کی نشاندہی کی کوشش کریں اور اپنے ہم وطنوں کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر نگاہ ڈالیں۔
کسی نے پوچھا ’’بارش کا فائدہ کیا ہے؟‘‘ جواب دیا ’’میرا کھیت سیراب ہوتا ہے‘‘۔ اس نے پھر پوچھا ’’بارش کا کیا نقصان ہے؟‘‘ جواب دیا۔ میرے بھائی کا کھیت سیراب ہوتا ہے‘‘۔ جوتے بیچنے والی دو کمپنیوں نے اپنے اپنے سیلزمین ایک گائوں میں بھیجے کہ بھئی دیکھ کر آئو کہ وہاں جوتے بیچنے کے کیا مواقع ہیں۔ کتنی کھپت ہے؟ جب دونوں سیلزمین وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ گائوں والے جوتے استعمال ہی نہیں کرتے سب ننگے پیر ہی رہتے ہیں۔ ایک سیلزمین نے اپنی کمپنی کو تار دیا کہ یہاں تو جوتے پہننے کا رواج ہی نہیں ہے لہٰذا جوتے بیچنے کے مواقع نہیں ہیں۔ دوسرے سیلزمین نے ایکسپریس تار بھیجا ’’جوتے بیچنے کے زبردست مواقع ہیں کیونکہ یہاں کسی کے پاس بھی جوتا نہیں ہے‘‘۔
جرمن سائنس دان البرٹ آئن اسٹائن لکھتا ہے ’’یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں کہ جدید نظام تعلیم نے ابھی تک جوان ذہنوں کے مقدس تجسس اور تحقیق کے جذبے کا پوری طرح گلا نہیں گھونٹا۔ یہ سوچنا بہت ہی غضب ناک غلطی ہے کہ نظارے کے لطف اور تلاش کے شوق کو سخت قوانین اور بھاری جرمانوں اور سزائوں کے ذریعے ترقی دی جاسکتی ہے۔ تعلیم تو حیرت اور تجسس کے خلا میں ایک مسلسل اور پرلطف شوقیہ پرداز کا نام ہے‘‘۔
’’مشکل یہ ہے کہ سیانے کافی سیانے نہیں اور احمق کافی احمق نہیں ورنہ علم کے پھیلنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی‘‘۔
’’علم حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنی جہالت کو قابو میں رکھو‘‘۔
’’مصلحت علم کی سب سے بڑی دشمن ہے اکثر علم کی راہ میں آن کھڑی ہوتی ہے‘‘۔
’’اس سے زیادہ احمق کون ہوگا جو اپنے علم کو اپنی ضرورت کے لئے کافی سمجھتا ہے‘‘۔
’’ہر کسی کو علم کی راہ پر چلنے دو صرف یہ خیال رکھو کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے اوپر جارہا ہے ۔ پیچھے یا نیچے کی طرف نہیں آرہا‘‘
’’جن لوگوں کے پاس ایمان کے علاوہ کچھ نہیں ہے ان کے ایمان کو چھیڑنا بہت خطرناک ہوتا ہے‘‘۔
’’المیہ لاعلمی نہیں…لاعلمی سے سمجھوتہ ہے‘‘۔
’’علم کی منڈیریں جہالت کی چار دیواری سے بہرحال بلند ہیں‘‘۔
’’مذہبی رواداری کی تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس دروازے سے بھی جنت میں جانا چاہے اسے جانے دیں‘‘۔
’’جو شخص جاہل ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ عالم ہے اس کا سیاسی مستقبل بہت درخشاں ہے‘‘۔
’’ہر انسان ایک کتاب ہے بشرطیکہ آپ کو اس کی زبان آتی ہو‘‘۔
’’علم حاصل کرنا ہے تو نظریات کے بجائے واقعات کا جائزہ لیں‘‘۔
’’انسان واحد جانور ہے جو روتا اور ہنستا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ کیا ہورہا ہے اور کیا ہونا چاہئے‘‘۔
اب آخر میں ایک احمقانہ سوال کا عارفانہ جواب سنیئے۔
ایک احمق نے ایک عارف سے پوچھا ’’اگر تم جنگل میں جارہے ہو اور تمہارے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ بھی نہ ہو اور اچانک سامنے سے شیر آجائے تو تم کیا کروگے؟‘‘
عارف نے جواب دیا۔
’’میں نے کیا کرنا ہے، جو کچھ کرنا ہے شیر نے کرنا ہے‘‘۔
سو دوستو! ملک عزیز کے تعلیمی، ثقافتی، ادبی، سیاسی اور سماجی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب جو کچھ کرنا ہے وہ شیر نے کرنا ہے۔
تازہ ترین