• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے یہ پہلی بار دیکھا کہ فوج کے ایک سابق ترجمان نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے ہی آرمی چیف کے خلاف جو کچھ کہا ہے اس سے کئی شکوک و شبہات پیدا ہوسکتے ہیں۔ میجر جنرل (ر) اطہر عباس کا تعلق ایک پڑھے لکھے خاندان سے ہے اور اُنہوں نے فوج میں طویل عرصے تک ملازمت کی ہے، اِس لئے وہ اُس کے مزاج سے یقیناً اچھی طرح واقف ہوں گے اور اُس کی نزاکتوں اور حساسیت کا بھی گہرا ادراک رکھتے ہوں گے۔ فوجی ترجمان کی حیثیت سے اُن کے سینے میں بہت سارے راز بھی دفن ہوں گے جن کا افشا وسیع تر قومی مفاد پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ پیر کی شام اُنہوںنے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کے ذریعے انکشاف کیا کہ عسکری قیادت نے 2010ء میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور2011ء میں اِس کی تیاریاں بھی مکمل ہو گئی تھیں ، مگر آخری وقت پر آرمی چیف جنرل کیانی کے تذبذب اور ہچکچاہٹ کے باعث یہ آپریشن تعطل کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان کو بہت نقصان پہنچا کیونکہ اُس وقت دہشت گرد بڑی کمزور پوزیشن میں تھے اور اُن کا قلع قمع نسبتاً آسان تھا۔ یہ انٹرویو عین اُس وقت دیا گیا جب شمالی وزیرستان میں فضائی حملوں کے بعد ہماری فوج زمینی آپریشن میں گھر گھر تلاشی کا عمل شروع کر چکی ہے اور ماہرین کی طرف سے اِس امر کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ دو چار ہفتوں ہی میں فوجی کارروائی مکمل ہو جائے گی اور فاٹا سے دہشت گردی کا مکمل صفایا اب قریب آ پہنچا ہے۔
میں اِس رات اِس ’’انکشاف‘‘ کے باعث سو نہیں سکا اور سوچتا رہا کہ میجر جنرل (ر) اطہر عباس نے زبان کھولنے کے لئے اِس وقت کا انتخاب کیوں کیا ہے۔ کیا اُن کا مقصد فوج کے مورال میں اضافہ کرنا اور آپریشن کی کامیابی کو یقینی بنانا تھا؟ اِس عجیب و غریب انکشاف کیا اِس سے فوج کو تقویت حاصل ہو گی، میں رات بھر سر کھپاتا رہا۔ میںفقط اتنا ہی سمجھ پایا کہ سابق فوجی ترجمان نے کسی وقتی جذبے کے تحت حساس معاملات کو طشت ازبام کرنے کی انتہائی خراب روایت قائم کی ہے۔ اُن کا انٹرویو غور سے پڑھتے ہوئے یہ تکلیف دہ احساس ہوا کہ موصوف سخت ذہنی دبائو کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایک سانس میں اُنہوں نے کہا کہ فوج کی اعلیٰ قیادت نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا اور اُس کے مطابق تیاریاں بھی کر لی گئیں ، مگر دوسرے سانس میں یہ بھی انکشاف کیا کہ بعد میں آرمی چیف گومگو کا شکار ہو گئے اور منصوبے پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ فوج میں فیصلہ کن حیثیت آرمی چیف کو حاصل ہوتی ہے اور کور کمانڈروں کے اجلاس اُنہی کی صدارت میں ہوتے ہیں اور تمام پہلوؤں کا نہایت گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی بڑا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے حافظے میں وہ تین سال پوری طرح محفوظ ہیں جن میں پاکستان پر ایک سے زائد قیامت ِصغریٰ ٹوٹی تھیں اور آرمی چیف جنرل کیانی نے بڑے تدبر اور بڑی بردباری سے چیلنجوں کا مقابلہ کیا اور اپنے وطن کو علاقائی اور عالمی دشمنوں کے نرغے سے نکالا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید جناب اطہر عباس نے اپنے فوجی سربراہ سے اِس بات کا بدلہ لیا ہے کہ اُن کو تھری اسٹار جنرل کی پروموشن سے محروم رکھا گیا۔ اُنہیں اب تک احساس ہو جانا چاہیے کہ سنجیدہ حلقوں میں اُن کے انکشاف کے بارے میں شدید ردعمل پایا جاتاہے۔
جنرل کیانی فرشتہ نہیں تھے ، مگر اُن کے اندر بعض خوبیاں غیر معمولی درجے کی تھیں۔ اُنہوں نے جب فوج کی کمان سنبھالی ، تو سیاست میں لت پت رہنے کے باعث اُسے عوام کی نفرت کا سامنا تھا۔ اُن کے لئے سب سے اہم چیلنج اِس کے امیج کو بحال کرنے کے لئے اُسے کوچۂ سیاست سے باہر لانا تھا ، چنانچہ اُنہوں نے کمان سنبھالتے ہی تمام کورکمانڈروں کو یہ حکم دیا کہ فوج آنے والے انتخابات میں کسی طور پر مداخلت نہیں کرے گی حالانکہ صدر مشرف نے قاف لیگ اور اپنے مستقبل کے بڑے حسین خواب بُنے تھے اور اقتدار میں رہنے کے خفیہ منصوبے تیار کر رکھے تھے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ2008ء کے انتخابات بڑی حد تک آزادانہ تھے اور سیاسی جماعتوں کا پورا ادراک تھاکہ جمہوریت کی بنیادیں اُٹھانے میں جنرل کیانی نے اہم کردار ادا کیا ہے، چنانچہ عوام کے اندر فوج کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوا اور مالاکنڈ ڈویژن جس کے دو اضلاع میں طالبان نے اپنی رِٹ قائم کر لی تھی ، اُن کے خلاف سیاسی حمایت کے ساتھ فوجی قیادت نے انتہائی کامیاب آپریشن کیا۔ جنرل کیانی کی کمان ہی میں باجوڑ اور جنوبی وزیرستان کی ایجنسیوں میں دہشت گردوں کی عملداری ختم کی گئی۔ جنوبی وزیرستان میں ڈویژن کی کمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے ہاتھ میں تھی جو آج کل ڈی جی آئی ایس پی آر ہیں۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ امریکہ2010ء سے پاکستان پر شمالی وزیرستان میں اُن مسلح طاقتوں کے خلاف آپریشن کرنے کے لئے دباؤ ڈالتا آ رہا تھا جنہوں نے افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف جہاد کیا تھا اور اب وہ شمالی وزیرستان میں آباد تھے اور پاکستانی ریاست کے حلیف۔ پاکستان کی رائے عامہ امریکی عہدیداروں کی ’’ڈومور‘‘ کی گردان سے تنگ آ چکی تھی اور اپنی سیاسی اور عسکری قیادت سے امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے پر اصرار کر رہی تھی۔ دفاعی تجزیہ نگار یہی مشورہ دے رہے تھے کہ شمالی وزیرستان کا علاقہ بہت دشوار گزار اور جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے جہاں دہشت گردوں نے مضبوط قلعے بنا رکھے ہیں ، اِس لئے ہماری عسکری قیادت کوایک مضبوط گوریلا فورس کی تیاری کے علاوہ انٹیلی جنس کو بہت مؤثر بنانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اِسی دوران نیٹو فورسز نے ہماری چیک پوسٹ پر حملہ کر کے دو درجن سے زائد فوجی شہید کر دیے جس کے ردِعمل میں نیٹو سپلائی سات ماہ تک بند رہی۔ جنرل کیانی نے2012ء کے وسط میں ایڈیٹروں کو پانچ گھنٹے کی بریفنگ میں بتایا تھا کہ ہم پاکستان کے مفاد میں اُس وقت شمالی وزیرستان میں آپریشن کریں گے جب امن قائم کرنے کے تمام دوسرے ذرائع اور مذاکرات کے امکانات آزمائے جا چکے ہوں گے۔
اب شمالی وزیرستان میں آپریشن جاری ہے اور پانچ لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جو شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اِس وقت مرکزی اور تمام صوبائی حکومتوں اور قومی اداروں کو اُن کی خبرگیری اور بحالی میں ایک مثالی کردار ادا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ یہ وقت بیانات دینے کے بجائے تیز رفتار عملی اقدامات بروئے کار لانے اور قبائلی روایات کے احترام کو یقینی بنانے کا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک سروے کے مطابق آئی ڈی پیز اور فاٹا کی صورتِ حال بہتر بنانے کے لئے پچاس ارب روپے درکار ہیں۔ بچوں ، خواتین اور بوڑھوں کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ قومی قیادت کو اِس معاملے میں سرجوڑ کر بیٹھنا اور پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے سرطان سے محفوظ بنانے کے لئے سخت اور بڑے فیصلے کرنے کے علاوہ کندھے سے کندھا ملا کر چلنا اور اپنی فوج کے ساتھ کامل یکجہتی کا ثبوت دینا ہو گا۔ پاکستان کے چار ہزار سے زائد کھرب پتیوں اور مخیر حضرات پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ سات آٹھ لاکھ مہاجرین کے لئے آٹھ بستیاں تعمیر کریں جن میں زندگی کی تمام جدید سہولتیں موجود ہوں۔ کشادہ سڑکیں، اسکول ، کالج ، ہسپتال اور ٹریفک کا ایک اچھا نظام۔اِس طرح وہ قریۂ دل آباد ہو گا جس کی دیواریں گرنے کی آوازیں آ رہی ہیں اور دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے کہ فاٹا سے افغانستان جانے والے مہاجرین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے۔ کچھ سیانے لوگ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ طاقت کا استعمال طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے کیا جانا چاہیے کہ اِسی میں ہم سب کی سلامتی مضمر ہے۔
تازہ ترین