• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر، مٹے جاتے ہیں گِر گِر کر
حضورِ شمع پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
محبت میں اک ایسا وقت بھی دِل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں، طغیانی نہیں جاتی
(جگر مراد آبادی)
آج کل الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر ڈاکٹر طاہر القادری اور اُن کے ساتھ چلنے والی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اپنی پریس کانفرنسوں کی بدولت چھائے ہوئے ہیں اُن کی باتیں سن سن کر اور اُن کی پریس کانفرنسیں دیکھ دیکھ کر اب میں نے بھی اُن کی طرح باتیں کرنی شروع کردی ہیں کچھ بعید نہیں کہ تھوڑے دنوں بعد میں شیخ مجیب الرحمن کی طرح تمام سرکاری ملازمین کے لئے احکامات بھی جاری کرنے شروع کردوں۔ آپ کو یاد ہوگا (جو ہماری عمر کے لوگ ہیں) کہ 1970میں شیخ مجیب کے حکم سے بینک صرف دو گھنٹے کے لئے کھلتے تھے۔ اسی طرح مشرقی پاکستان کے تمام سرکاری ملازمین علاوہ فوج کے اپنے فرائض کی بجا آوری میں شیخ صاحب کے احکامات کے منتظر رہتے تھے اور پھر آہستہ آہستہ شیخ صاحب بنگلہ بُندھو بن گئے اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور پھر فیض صاحب نے ڈھاکہ سے واپسی پر لکھا
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مدارتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
مولانا کے سرکاری ملازمین کے لئے دیئے جانے والے احکامات کو سن کر مجھے گزرے ہوئے لمحوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ شیخ مجیب کی بات لوگ مانتے تھے مگر یہاں ابھی حالات ایسے نہیں کیونکہ میاں شہباز شریف بھی آنکھیں کھول کر تمام مناظر دیکھ رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کا ری ایکشن کیا ہے مگر مولانا کا ایکشن تو بھرپور ہے مولانا نے چند ہفتوں کی مہلت دی ہے۔ یہ چند ہفتے بھی گزر جائیں گے بقول غالبؔ
دِل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں!
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
دَیر نہیں، حَرم نہیں، دَر نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیرہمیں اُٹھائے کیوں!
مجھے جس بات کی فکر ہے وہ یہ ہے کہ اب بھی کئی معصوم لوگ مولانا کی باتوں کو سچ سمجھ رہے ہوں گے اور ان کے دل میں پختہ یقین ہوگا کہ چند ہفتوں کے بعد انقلاب آجائے گا اور میاں صاحبان اپنے گھر کو روانہ ہوجائیں گے۔ پچھلی سردیوں کے موسم میں مولانا نے اسلام آباد میں اسی طرح رونق لگائی تھی اور اپنے جوش خطابت سے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ حکومت 24گھنٹوں کی مہمان ہے اور انقلاب آنے والا ہے۔ اُس وقت مولانا اسلام آباد کی شہ رگ پر بیٹھے ہوئے تھے جہاں پارلیمینٹ ہائوس، وزیراعظم ہائوس، ایوان صدر اور تمام مرکزی دفاتر مولانا کے دھرنے کی جگہ پر واقع تھے۔ مولانا کا گرم کنٹینر وہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا اور عام آدمی کو یقین ہوگیا تھا کہ بس اب صبح انقلاب تھوڑی ہی دور ہے۔ اس کے بعد مولانا نے پاکستان پیپلزپارٹی کے پانچ وزرا کو اپنے گرم کنٹینر میں بلایا اور سارا انقلاب ملتوی ہوگیا۔ لوگ مایوس ہوکر اپنے گھروں کو اپنے خرچے پر روانہ ہوگئے۔ اب نہیں معلوم کے مولانا کے پاس کیا پروگرام ہے۔ چوہدری برادران کی موجودگی سے معاملہ کچھ سنجیدہ لگتا ہے کیونکہ چوہدری برادران کہنہ مشق سیاست دان ہیں اور اقتدارمیں آنے کے اُن کے سابقہ تجربے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اُن کے ہاں غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ اِس سے پہلے بھی اقتدار حاصل کرچکے ہیں اور اس مرتبہ ان کی مولانا طاہر القادری صاحب کے ساتھ شمولیت مولانا کے مشن کو کچھ سنجیدہ بنادیتی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور اے این پی نے اپنے آپ کو اس کشمکش سے دور رکھا ہے بلکہ انہوں نے تو میاں صاحب کے حق میں بیان دیئے ہیں اور جمہوریت اور جمہوری عمل کو تیز کرنے کی باتیں کی ہیں، 6جولائی کو کراچی میں متحدہ کا بھی تاریخی جلسہ ہونے والا ہے۔ گویا رمضان کے مہینے میں خاصی سیاسی چہل پہل ہے جو کہ عموماً صرف افطار پارٹیوں تک محدود رہتی ہے مگر اس سال بات افطار پارٹیوں سے کچھ آگے نکل گئی ہے۔ لوگ بیروزگاری مہنگائی، کرپشن، لوڈشیڈنگ، اقربا پروری اور میرٹ کے قتل سے اُکتائے ہوئے ہیں اور پانچ سال انتظار کرنے کے موڈ میں بالکل نہیں ہیں کیونکہ اگر اسی طرح حالات رہے تو بہت لوگ پانچ سال تک شاید زندہ بھی نہ رہیں۔ حکمرانوں کو اس بات کا بالکل احساس نہیں۔ انہیں سب ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے کیونکہ ان کو خوشامدیوں نے گھیرا ہوا ہے۔ جو کبھی نہتے عوام پر گولیاں چلواتے ہیں اور کبھی جوڈیشل انکوائری کے مشورے دیتے ہیں۔ پنجاب میں ہونے والی موسلادھار بارشوں نے لوگوں کے غم و غصہ کو کچھ ٹھنڈا ضرور کیا ہے مگر یہ بارشیں کتنے دن چلیں گی۔ پھر وہی لوگ ہوں گے۔ وہی بیروزگاری، وہی لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے، مولانا قادری اگرچہ لوگوں کی محرومیوں کو اُجاگر کرکے تھوڑی دیر کے لئے اُنہیں اپنے مجمع میں شامل کرلیں گے مگر بات پھر وہی ہے کہ مولانا کے پاس سوائے تقریر کے اور کچھ بھی نہیں۔ حکومت بدلنے کے لئے تقریر کے علاوہ بھی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ فی الحال سامنے نظر نہیں آرہیں۔ اگر کوئی خفیہ ایجنڈا ہے تو اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ ان حالات میں کچھ بھی ممکن ہے۔ حکومت بدلے گی یا نہیں۔ یہ تو کوئی طوطا ہی فال نکال کر بتاسکتا ہے لیکن اس غیریقینی صورتحال کا اثر کاروبار اور اسٹاک مارکیٹ پر بہت برا پڑ رہا ہے۔ لوگ تذبذب کا شکار ہیں اور ایسی غیریقینی صورتحال میں مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ مولانا دو ہفتوں کی بات کررہے ہیں جبکہ عمران خان نے 14اگست کی تاریخ دے رکھی ہے۔ گویا ابھی تک تاریخوں پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ دو ہفتوں کے بعد تو عید کی آمد ہوگی۔ لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اپنے بچوں اور گھر والوں کے لئے عید کے نئے کپڑے اور جوتے خرید رہے ہوں گے۔
سفید پوش آدمی کے لئے یہ بہت ہی مشکل وقت ہوتا ہے۔ انسان اپنی خواہشات کو تو مار لیتا ہے مگر چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی معصوم خواہشوں کو کس طرح رد کرسکتا ہے۔ آپ یقین کریں میں کبھی کبھی ایسی صورتحال کا تصور کرکے لرز جاتا ہوں۔ یہ بڑا ہی مشکل وقت ہوتا ہے اور باپ کو جو کہ گھر کا سربراہ ہوتا ہے اُسے بڑےکڑےمالی فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ یہ صرف ہمارے معاشرے ہی میں نہیں ہے۔ باہر ممالک میں بھی کرسمس کے موقع پر سفید پوش لوگ ایسی ہی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہاں بھی کرسمس پر تحائف لئے اور دیئے جاتے ہیں اور ایسے موقعوں کے لئے بڑے دلچسپ قصے مشہور ہیں۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس دو سال کے لئے پاس ہوگیا ہے اس میں سینیٹ نے متفقہ طور پر چند ترامیم کی ہیں۔ درحقیقت ہم لوگ اس وقت حالت جنگ میں ہیں اور اس طرح کے سخت قانون کی جنگی بنیادوں پر اشد ضرورت تھی اب اس کے نافذ ہونے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے کام میں کافی سہولت ہوجائے گی اور امید ہے کہ ان کی کارکردگی بھی بڑھے گی۔ قانون کوئی بھی غلط نہیں ہوتا۔ ہر قانون غور و خوض کے بعد قانون ساز لوگ بناتے ہیں۔ خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں اس کا غلط استعمال شروع ہوجاتا ہے اور وہ قانون حکمران اپنے مخالفین کو کچلنے کے لئے استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس موقع پر عدالتیں بھی اپنا کام شروع کردیتی ہیں اور قانون کے تحت ہونے والی زیادتیوں کا قلع قمع کرتی ہیں اور اس طرح وہ قانون بے اثر ہوجاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون کا منصفانہ استعمال کیا جائے اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ اگر اس قانون کا غیرمنصفانہ بے دریغ استعمال ہوا تو وکلا اور عدالتیں حرکت میں آجائیں گی اور دوسرے قوانین کی طرح یہ قانون بھی اپنی موت خود مر جائے گا۔ آخر میں مرزا غالب کے حسب حال اشعار قارئین کی نذر ہیں۔
نکتہ چیں ہے، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے
غیر پھرتا ہے لئے یوں ترے خط کو کہ، اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے، تو چھپائے نہ بنے
تازہ ترین