پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کا ’’انقلاب‘‘ اب کچھ دن کے لئے ٹھنڈا ہو گیا ہے اور اب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 14 اگست کو ’’سونامی مارچ‘‘ کا اعلان کردیا ہے ۔ اس وقت جب پاکستان میں جمہوریت جڑیں پکڑ رہی ہے، طوفان اور زلزلوں کی سیاست سمجھ سے بالاتر ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری انقلاب لانے کی دو کوششیں کر چکے ہیں،ایک کوشش پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں کی گئی اور حالیہ دوسری کوشش انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت میں کی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے تو اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، یہ انقلاب کا قصور ہے کہ وہ آ کر نہیں دے رہا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ڈاکٹر طاہر القادری نے تین دن تک اسلام آباد میں دھرنا دیا اور حکومت نے نہ صرف اس دھرنے کو تحفظ دیا بلکہ ہر طرح کی سہولتیں بھی بہم پہنچائیں۔ سیاست میں جو صبر اور تدبر درکار ہے وہ آصف علی زرداری سے زیادہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ سخت سردی کی وجہ سے دھرنے میں شریک لوگ جب آہستہ آہستہ کھسکنے لگے تو ڈاکٹر طاہر القادری نے یہ اعلانات شروع کردیئے کہ وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ۔ بعض لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کی خواہش تھی کہ دھرنا مزید کئی دن تک جاری رہے۔ انہوں نے دھرنے کے شرکاء کو کھانے پینے کی اشیاء بھی فراہم کرنے کی ہدایت کر دی تھیں ۔ یہ تو اچھا ہوا کہ بیچ میں کچھ لوگ پڑ گئے اور ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنے پر آسائش سیلون سے نکلنے کا موقع مل گیا ۔اگر لوگ بیچ میں نہ پڑتے تو انقلاب کی دوسری کوشش شاید نہ ہوتی۔ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کی سیاست میں بنیادی فرق یہ ہے کہ آصف علی زرداری صبر کرتے ہیں اور میاں محمد نواز شریف اس طرح کے صبر کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری لاہور ایئرپورٹ پر طیارے سے باہر نہیں آنا چاہتے تھے تو انہیں وہاں بیٹھے رہنے دیا جاتا۔ سات آٹھ گھنٹے وہ مزید طیارے میں بیٹھے رہتے تو کون سا انقلاب آ جانا تھا۔ ان کے دھرنے کا وقت جتنا زیادہ ہو گا، ان کے انقلاب کی اگلی کوشش کا مرحلہ بھی اتنی تاخیر سے آئے گا۔ اپنی آخری کوشش سے پہلے ڈاکٹر طاہر القادری نے یہ بیان دیا تھا کہ وہ ہر حال میں پاکستان میں انقلاب برپا کر کے رہیں گے اور اگرکوئی ان کا ارادہ بدل سکتا ہے تو وہ پاکستان کی فوج ہے یعنی انہوں نے یہ عندیہ دے دیا تھا کہ ان کے انقلاب کا رخ ایک ٹیلیفون کال سے موڑا جا سکتا ہے۔ شاید یہ ٹیلیفون کال نہیں ہوئی ہو گی ، اس وجہ سے ان کا ارادہ تبدیل نہیں ہوا۔ طیارے سے نکلنے کے لئے بھی انہوں نے شرط عائد کی تھی کہ وہ فوج سے مذاکرات کریں گے لیکن ان کی یہ خواہش بھی پوری نہیں ہوئی اور بالآخر ڈاکٹر طاہر القادری نے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے کہنے پر اپنا انقلاب ملتوی کردیا کیونکہ ڈاکٹر طاہر القادری کے مطابق چوہدری محمد سرور اچھے آدمی ہیں۔ اب لگتا ہے کہ اس اچھے آدمی کی وجہ سے دوبارہ کافی عرصے تک انقلاب کا طوفان برپا کرنے کی کوشش نہیں ہو گی۔
اب اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ سونامی جمہوریت کے جڑیں پکڑتے ہوئے درخت کو کتنا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اگرچہ ایک ہی کام کر رہے ہیں لیکن ان میں ’’ملّا‘‘ اور ’’مسٹر‘‘ کا فرق ہے یعنی انداز سیاست میں فرق ہے۔عمران خان نے خیبرپختونخوا میں حکومت لے لی۔ ڈاکٹر طاہر القادری اس طرح کی ’’بارگیننگ‘‘ کی صلاحیت سے شاید محروم ہیں ورنہ دونوں کو پہلے قومی اسمبلی کی ایک ایک سیٹ ہی ملی تھی۔ عمران خان اس لئے آگے نکل گئے کہ وہ ملّا نہیں مسٹر ہیں اور ان کا لینے کا طریقہ بھی بہت مختلف ہے لیکن دونوں ایک ہی مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ نہ ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلاب پاکستانی سماج کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بطن سے پیدا ہوا ہے اور نہ ہی عمران خان کا سونامی پاکستانی سماج کے زیر زمین ارتعاش کا نتیجہ ہے۔ یہ انقلاب اور سونامی دونوں مصنوعی ہیں ۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ دونوں سیاسی جماعتیں اور دونوں سیاسی رہنما پاکستان کے عوام کی جمہوریت اور تبدیلی کے لئے کی جانے والی جدوجہد کے دھارے میں نہ صرف شامل نہیں رہے ہیں بلکہ اس دھارے کے خلاف چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان کے سونامی کی حقیقت انسانیت کے عظیم خدمت گارعبدالستار ایدھی سے پوچھیں۔ پاکستانی قوم آج تک یہ بات نہیں بھول سکی ہے کہ عبدالستار ایدھی نے جان کے خوف سے ایک مرتبہ پاکستان چھوڑ دیا تھا اور جبری جلاوطنی اختیار کرلی تھی۔ جلا وطنی اختیار کرنے سے پہلے عبدالستار ایدھی نے پریس کانفرنس کی تھی اور بتایا تھا کہ کچھ لوگ ان کے پاس آئے تھے اور ان سے کہا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف ان لوگوں کا ساتھ دیا جائے اور اگر انہوں نے ساتھ نہیں دیا تو انہیں جان سے مار دیا جائے گا۔ عبدالستار ایدھی کی اس پریس کانفرنس پر پوری دنیا میں نہ صرف پاکستان کے بارے میں غلط تاثر پیدا ہوا تھا بلکہ دنیا کو یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کے خلاف کام کرنے والی قوتیں کس قدر بے رحم اور عقل سے عاری ہیں ۔ پاکستان سے باہر جاکر عبدالستار ایدھی نے بتایا تھا کہ وہ لوگ آج کا لانگ مارچ کرنے والوں کے نظریاتی ساتھی تھے لوگوں کو پرویز مشرف کے نام نہاد ریفرنڈم میں عمران خان کی تقریریں بھی یاد ہیں۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو چاہئے کہ وہ آصف علی زرداری کی طرح صبر کریں اور اس صورت حال سے نہ گھبرائیں ۔ احتجاج ، مظاہروں اور دھرنوں کی سیاست کی اپنی مخصوص قسم کی ’’بائیولوجی‘‘ ہوتی ہے صرف اسے سمجھنے کی ضرورت ہے یہ زیادہ دیر نہیں چل سکتی ہے ۔ سیاست میں صبر اور تحمل کا بہت اہم کردار ہے ۔ 14اگست کے سونامی کا راستہ نہ روکا جائے بلکہ اس سونامی میں شریک لوگوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں۔تحریر اسکوائر والا مصری انقلاب ہوا ہوگیا ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری جیسے پاکستان کے حالات سے بیگانے رہنما اگر اس بات کو نہیں سمجھ سکتے ہیں تو باقی لوگ تو سمجھنے والے ہیں،وہ انہیں سمجھا دیں گے۔