• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم ارکانِ اسمبلی کی شکایات پر بھی توجہ دیں

تاریخ گواہ ہے کہ اگر کوئی اقتدار کو اپنی ہی جیسی مخلوق پر حکم چلانے کے لئے استعمال کرتا ہے تو یہ فعل قبیح ہے اور اقتدار کی بلندیاں جلد اس سے روٹھ جاتی ہیں ،لیکن اگر کوئی صاحب اقتدار اپنے اختیار کو قومی بحران میں صائب فیصلے صادر کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے تو یہ ایک فال نیک ہے اور ایسے ہی فیصلے اسے تاریخ میں امر کردیتے ہیں۔سرونسٹن چرچل کا یہ قول ہماری تاریخ کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ وطن عزیز میں ہونے والے ماضی کے تجربات اٹھا کر دیکھ لیں۔جس آمر نے بھی طاقت کے گھمنڈ میں آکر اپنوں کو روندنے کی کوشش کی وہ حکمران خود ہی قصہ پارینہ بن گیا۔ ایوب، یحییٰ، ضیاء اور مشرف کی مثالیں سب کے سامنے ہیں جبکہ اس کے برعکس عوامی مینڈیٹ کے ذریعے اقتدار میں آنے والی جمہوری حکومتوں کا گو کہ بار بار غیر جمہوری طریقے سے تختہ الٹا جاتا رہا مگر صد شکر کہ خواص و عوام سب متفق ہیں کہ ہمارا مستقبل جمہوریت سے ہی وابستہ ہے۔یہ روشن دلیل کسی استدلال کی محتاج نہیں کہ اکیسویں صدی اور 2014ء میں جمہوریت ہی کسی مہذب قوم کا دستور العمل ہو سکتی ہے۔ قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ بادشاہت، آمریت اور مطلق العنانیت نے ہمیشہ قوموں کی لٹیا ہی ڈبوئی ہے۔ہم نے بھی وطن عزیز میں سارے تجربات کرکے دیکھ لئے ہیں اس لئے اب الحمدللہ آئین و قانون کے حوالے سے عدلیہ ،آزاد میڈیا اور تمام صاحب فکر پاکستانی بیدار ہیں۔
عوام کی اکثریت نے 2013ء کے عام انتخابات میں ووٹ سے مسلم لیگ (ن) کو کامیاب کرایا،مگر اس کے باوجود صرف ایک سال کا مختصر عرصہ گزرنے کے ساتھ ہی یہ قیاس آرائیاں کیوں زور پکڑ رہی ہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت جلد رخصت ہوجائے گی،کیا واقعی۔ موجودہ حکمران عوامی اعتماد کھو چکے ہیں۔ چوہدری نثار کیا صرف اکلوتی مثال ہیں؟ یا دیگر پارٹی کے رہنما بھی اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا ہر پاکستانی متلاشی ہے۔میاں نوازشریف آج عوامی مینڈیٹ کی بنیاد پر وزیر اعظم پاکستان ہیں۔ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کو عوام نے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے مگر ایسی کیا وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے ہی ارکان اسمبلی آج ان سے سخت ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں 150سے زائد مسلم لیگ ن کے ارکان ہیں مگر ان میں سے کئی درجن ایسے ہیں جنہیں آج تک اپنے قائد سے ملاقات کرنے کا بھی موقع نہیں ملا۔یہ درست ہے کہ میاں نوازشریف کا حالیہ دور اقتدار ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں بلاشبہ بہترین ہے۔پورے ملک میں اربوں روپے کی لاگت سے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز، ملکی معیشت کی بہتری کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے مگر اقتدار کی رعنائیوں کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ آپ اپنے ہمنواؤں کو بھول جائیں۔مسلم لیگ (ن) کے کئی درجن ارکان صوبائی و قومی اسمبلی سے گزشتہ چند دنوں میں ملاقاتیں رہیں، ہر رکن یہی گلہ کرتا نظر آیا ہے کہ پارٹی نے انہیں دیوار سے لگادیا ہے۔بعض ارکان کو تو یہاں تک کہتے سنا ہے کہ صرف اگلے چند روز مزید دیکھیں گے اگر شنوائی نہ ہوئی تو اسمبلی رکنیت سے ہی مستعفی ہونے کو ترجیح دیں گے۔ چوہدری نثار کی پارٹی میں موجودگی یا غیر موجودگی برابر ہے۔غیر ذمہ داری آپ پر ختم ہے۔مگر حکومت ان حالات میں کسی بھی صورت اس دھچکے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
حکومت اس وقت بلاشبہ نازک حالات سے گزر رہی ہے۔وزیر اعظم کے اردگرد زیرک اور دانا لوگوں کی کمی نہیں ہے مگر یہ بات ان کے گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ ارکان اسمبلی کسی بھی سیاسی جماعت کی حقیقی قوت ہوا کرتے ہیں۔ آپ اگر اپنی حکومت کو بحرانوں سے بچانے میں سنجیدہ ہیں تو پارٹی کے ارکان اسمبلی پر توجہ مرکوز کریں۔ طاہر القادری یا عمران خان کے لانگ مارچ کی دھمکیوں کا سدباب صرف منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لے کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ آپ کے طرز حکمرانی سے یہ طالب علم ذاتی طور پر اتفاق کرتا ہے کہ ارکان اسمبلی کی سفارشوں کے بجائے افسران کی تعیناتیوں میں میرٹ کو فوقیت دی جائے۔یہ ایک اچھا اقدام ہے مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنی جماعت کے رہنماؤں اور ان کے سنجیدہ مسائل سے بھی غافل ہوجائیں۔آپ کے اردگرد جو چند افراد سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتے ہیں انہیں آپ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔آپ تو خود 12اکتوبر99ء کو عملی مشاہدہ بھی کرچکے ہیں۔یہ لوگ آپ سے صرف اس وقت تک جڑے ہوئے ہیں جب تک آپ ایوان وزیراعظم کے باسی ہیں۔ارکان اسمبلی کے ناجائز کاموں کی طرف بے شک کان نہ دھریں مگر اپنی جماعت سے مخلص لوگوں کو اپنے سے جدا نہ کریں۔
میں کئی ماہ تک مسلسل لکھتا رہا کہ بلدیاتی انتخابات وقت کی اہم ضرورت ہیں،اس سے اختیارات بٹ جاتے ہیں ۔اوپر سے نیچے تک افراد کی بڑی تعداد جو اختیارات و طاقت کے اس کھیل میں جڑی ہوتی ہے۔ کسی بھی غیر جمہوری عمل کی نہ صرف مخالفت کرتی ہے بلکہ فوری ردعمل کا بھی اظہار کرتی ہے مگر اس وقت کے وزیر قانون نے اس عاجز کی رائے پر کان نہ دھرے اور معاملے کو ایسا لٹکایا کہ آج تک لٹکا ہوا ہے۔ بے شک بلدیاتی انتخابات میں حکمراں جماعت پنجاب سے ہار ہی کیوں نہ جاتی جو بظاہر ممکن نظر نہیں آتا مگر آج عمران خان کی دھاندلی کی پکار کم از کم ماند پڑ چکی ہوتی۔عام انتخابات کے بعد بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے پاس بہترین موقع ہوتا کہ وہ دھاندلی کے حوالے سے تمام قیاس آرائیوں کو دفن کردیتے۔
اے حکمرانو! آپ حضرت علیؓ کے حکمرانی کے حوالے سے رہنما اصول کیوں بھول جاتے ہیں جب آپ نے مالک اشتر کو گورنر مصر مقرر کرتے ہوئے تلقین فرمائی۔آپ نے کہا یاد رکھو اچھے الفاظ میں اسی کا ذکر کیا جاتا ہے جو لوگوں کے ساتھ اچھا کرتا ہے لہٰذا تمہارا سب سے قیمتی خزانہ تمہارے اچھے اعمال ہوں گے۔ ایسی خواہشات کو قابو میں رکھنا اور ان چیزوں سے دور رہنا جن سے منع فرمایا گیا ہے۔اپنے لوگوں کے لئے دل میں رحمدلی اور محبت پیدا کرو۔ لوگوں سے وحشیانہ سلوک کے مرتکب مت ہونا۔ یاد رکھو کہ لوگوں میں کمزوریاں ہیں وہ غلطیاں کرسکتے ہیں،انہیں معاف کرنا جیسے اللہ تمہیں معاف کرتا ہے۔
حکمران اقتدار میں آتے ہی یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر آمریت کا راستہ بند کرنا ہے تو اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے میں ہی عافیت ہے۔اگر ایک وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اختیارات کا مالک ہو گا تو میرے نزدیک یہ آمریت کی جدید شکل ہی ہو گی۔ میاں نوازشریف جو جمہوریت اور جمہوری اقدار کے بڑے داعی ہیں اگر وہ اس ملک میں آمریت کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند کرنا چاہتے اور جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی نمائندوں کو بھرپور اہمیت دیں۔ہر ماہ اپنی پارٹی کے اہم رہنماؤں سمیت ارکان اسمبلی کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کریں۔جس میں ارکان کو پروٹوکول کی رکاوٹوں کا سامنا نہ ہو۔ عمرانی مسائل اور ان کا تقابل ظاہر کرتا ہے کہ کسی بھی شہری آبادی کو درپیش مسائل سے صرف مقامی حکومتیں ہی عہدہ برا ہوسکتی ہیں اس لئے مقامی حکومتوں کے قیام کو ترجیح دیں۔باقی رہی جمہوریت کی بات تو آج پاکستان کا ہر شہری اس بات پر متفق ہے کہ وطن عزیز کی بہتری و سلامتی جمہوریت سے ہی وابستہ ہے اور اب 1999ء نہیں بلکہ 2014ء ہے۔خدا نہ کرے کہ جمہوریت پر پھر شب خون مارنے کی کوشش ہو لیکن اگر ایسا ہوا تو اس بار مزاحمت آپ یا آپ کی جماعت نہیں بلکہ پاکستان کے 18کروڑ سے زائد غیور عوام کریں گے۔
تازہ ترین