• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ کے ایک بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹور سے خریدے جانے والے ایک پینٹ کی جیب سے خاتون برطانوی خریدار وس انسکا کو پینٹ تیار کرنے والے کاریگر کا ایک تحریری نوٹ ملا جس میں اس نے مدد کی درخواست کی تھی۔ یہ نوٹ چینی زبان میں تحریر تھا۔ برطانوی خریدار کو اس تحریری نوٹ پر انگریزی میں تین بار SOS لکھا نظر آیا جس کا مطلب مدد کیلئے پکارنا ہے جس کے بعد خاتون خریدار نے مذکورہ تحریری نوٹ فیس بک پر پوسٹ کیااور کچھ ہی دیر بعد پوسٹ پر انگریزی میں کئے جانے والے ترجمہ نے خاتون کو حیران کردیا جس میں لکھا تھا۔ ’’آج کے جدید دور میں بھی چین میں جیلوں کے قیدیوں سے غلاموں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے، اُن سے 15-15 گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور انہیں جانوروں سے بھی بدتر کھانا دیا جاتا ہے جس کے باعث ان کی حالت انتہائی ابتر ہے‘‘۔ اس سلسلے میں خاتون خریدار نے چین کے صوبے ہوبی چائنا کے ژیگنان جیل کے قیدی کے تحریری نوٹ کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذریعےاس اسٹور کی انتظامیہ سے رابطہ کیا جن کے مطابق پری مارک ETI کا ممبر ہے جس کے تحت اُن کی کمپنی اپنے سپلائرز کے عالمی ضابطہ اخلاق کو پرکھنے کیلئے خریداری سے قبل 9 مختلف انسپکشن کرتی ہے اور ان کی رپورٹوں میں اُنہیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے۔ واضح ہو کہ فرسٹ گلوبل سروے انڈیکس کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں تقریباً 30 ملین افراد غلاموں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں جن میں بھارت 14.7 ملین غلاموں کے ساتھ پہلے اور تھائی لینڈ 5 لاکھ غلاموں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ چین، پاکستان، نائیجریا، ایتھوپیا، روس، کانگو اور برما بالترتیب 10 سرفہرست ممالک میں شامل ہیں۔
برطانیہ کے اسی ڈپارٹمینٹل اسٹور کے ایک اور شوروم کی خریدار روبیکا گالاگر نے بھی کچھ روز قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ اُسے 10 پونڈ کے ایک ڈریس سے اسی قسم کا ایک تحریری نوٹ ملا تھا جس میں ایک بنگلہ دیشی ورکر نے بنگلہ دیش کی گارمنٹ فیکٹریوں میں ورکرز کے ساتھ ہونے والے جبری مشقت کے بارے میں لکھا تھا۔ یاد رہے کہ اس ڈپارٹمینٹل اسٹور کے لئے گارمنٹس مصنوعات تیار کرنے والی بنگلہ دیشی فیکٹری جو 8 منزلہ رانا پلازہ میں قائم تھی، میں گزشتہ سال آتشزدگی کے نتیجے میں 1129 مزدور جاں بحق ہو گئے تھے جن کے لواحقین کو اس اسٹور نے 12 ملین ڈالر بطور معاوضہ ادا کیا تھا لیکن حادثے کے بعد دنیا بھر میں بنگلہ دیش میں گارمنٹ ورکرز کے غیر محفوظ ماحول میں کام کرنے پر سوالیہ نشان اٹھایا گیا جس کے باعث اب بیشتر عالمی کمپنیاں بنگلہ دیش کی گارمنٹ فیکٹریوں کو اپنے آرڈرز دینے سے پہلے ان فیکٹریوں میں معیاری حفاظتی اقدامات کی یقین دہانی حاصل کرتی ہیں جن پر مختصر مدت میں بنگلہ دیشی فیکٹریوں کا عملدرآمد کرنا نہایت مشکل ہے۔
پاکستان میں بھی کراچی میں واقع گارمنٹ فیکٹری علی انٹرنیشنل میں اس طرح کی آتشزدگی کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں تقریباً 290 سے زائد ورکرز جاں بحق ہوئے تھے لیکن خوش قسمتی سے پاکستان میں بنگلہ دیش کے مقابلے میں گارمنٹ فیکٹریاں رہائشی عمارتوں کے بجائے صنعتی علاقوں میں قائم ہیں جہاں خاطر خواہ حفاظتی انتظامات موجود ہیں۔ بنگلہ دیش میں گارمنٹ کے لئے یارن اور فیبرک مقامی طور پر دستیاب نہیں اور انہیں یہ خام مال امپورٹ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود بنگلہ دیش نے بہت کم وقت میں اپنی گارمنٹس ایکسپورٹس میں حیرت انگیز اضافہ کیا ہے جس کی وجہ مزدوروں کی نہایت کم اجرت اور یورپی یونین، کینیڈا جیسی بڑی مارکیٹوں میں ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی اور امن و امان کی بہتر صورت حال ہے۔ بنگلہ دیش میں پہلی گارمنٹ فیکٹری 1975ء میں قائم کی گئی تھی اور آج بنگلہ دیش میں 5 ہزار سے زائد گارمنٹ فیکٹریاں قائم ہیں جہاں 40 لاکھ سے زائد ورکرز جن میں اکثریت خواتین کی ہے، کام کرتے ہیں اور اس طرح ان کا ٹیکسٹائل سیکٹر ملک کو 20 ارب ڈالر سالانہ کا خطیر زرمبادلہ فراہم کرتا ہے۔ بنگلہ دیش میں آج بھی گارمنٹ ورکرز کی کم از کم تنخواہ صرف 3800 روپے ماہانہ ہے جو دنیا میں سب سے کم ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں کم از کم اجرت 12 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ چین کے بعد بنگلہ دیش دنیا میں گارمنٹس مصنوعات ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور بنگلہ دیشی حکومت ٹیکسٹائل صنعت کو ’’مقدس گائے‘‘ کا درجہ دے چکی ہے، اس لئے وہ فیکٹریوں کے ارب پتی مالکان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریز کرتی ہے۔ بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی ترقی کے دیگر اسباب جاننے کے لئے میں نے کراچی میں متعین بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمشنر محمد راہول عالم سے ایک عشایئے پر گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں بجلی کا کوئی بحران نہیں، صرف نئی صنعتوں کے لئے گیس کنکشن کی پابندی ہے جبکہ پرانی صنعتوں کو بلاتعطل گیس فراہم کی جارہی ہے۔ بنگلہ دیش میں اس وقت گیس کا ٹیرف 2.08 ڈالر MMBTU ہے جبکہ پاکستان میں یہ ٹیرف 4.92 ڈالر MMBTU تھا جو بنگلہ دیش کے مقابلے میں 136% زیادہ ہے اور حالیہ بجٹ میں گیس کے نرخوں میں 150 روپے فی MMBTU گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (GIDC) عائد کرنے سے پاکستان میں گیس کی قیمت 6.42 ڈالر فی MMBTU ہو جائے گی جو بنگلہ دیش کے مقابلے میں تین گنا یعنی 355% زیادہ ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات ایکسپورٹ مارکیٹ میں غیر مقابلاتی ہو جائیں گی جس کا فائدہ بھارت اور بنگلہ دیش کو پہنچے گا۔ بنگلہ دیش میں 10% ووٹر بھارتی ہندو ہیں جو بنگلہ دیشی سیاست پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ دوران گفتگو معلوم ہوا کہ بنگلہ دیش کی 20 ارب ڈالر سے زائد کی گارمنٹس ایکسپورٹ مارکیٹ پر بھارتی بزنس مینوں کا کنٹرول ہے اور بنگلہ دیش میں زیادہ تر خریدار کمپنیاں بھارتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش کی بھارت سے امپورٹ 6 ارب ڈالر جبکہ بھارت کو ایکسپورٹ ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ بھارت نے بنگلہ دیش پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے بنگلہ دیش سے گارمنٹس کی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی ہے ، اس کے علاوہ بھارت نے بنگلہ دیش ریلوے کی بحالی کے لئے ایک ارب ڈالر کا قرضہ بھی دیا ہے۔ ایک دہائی قبل بھارت بنگلہ دیش سے گیس خریدنا چاہتا تھا لیکن بنگلہ دیشی حکومت نے ملک میں صنعتی سیکٹر کی طلب میں اضافے کے پیش نظر بھارت سے معاہدہ نہیں کیا۔ ڈپٹی ہائی کمشنر نے مجھے بتایا کہ بنگلہ دیشی حکومت نے فیصلہ کیا کہ قدرتی گیس پر پہلا حق صنعت کا ہے اور ملکی مفاد میں گھریلو و کمرشل صارفین کو لوڈ شیڈنگ برداشت کرنا ہوگی جبکہ قدرتی گیس کا سی این جی میں استعمال قومی اثاثے کا بے دردی سے ضیاع ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں حکومت نے گیس کی سپلائی میں صنعت کی ترجیح چوتھے نمبر پر رکھی ہے اور قدرتی گیس کے سی این جی میں استعمال پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جو میرے نزدیک ملکی مفاد میں نہیں ہے۔
پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران امن و امان کی مخدوش صورت حال اور توانائی بحران کی وجہ سے کچھ پاکستانی سرمایہ کار بنگلہ دیش منتقل ہوئے تھے لیکن بنگلہ دیش کی موجودہ سیاسی صورت حال کے باعث پاکستانی سرمایہ کاروں کے لئے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی جانب سے ویزے کے حصول میں اب کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں فیکٹریوں میں آگ لگنے کے واقعات نے سرمایہ کاری کرنے والوں کیلئے مشکلات بڑھا دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بنگلہ دیش کا ویزا حاصل کرنا برطانیہ اور امریکہ سے زیادہ مشکل بنا دیا گیا ہے۔ کراچی کے ہی ایک سرمایہ کار نے بتایا کہ انہوں نے چند سال قبل ایک ٹیکسٹائل یونٹ بنگلہ دیش میں لگایا تھا لیکن اب وہاں کے حالات کی وجہ سے وہ اسے ویتنام منتقل کرنے کا سوچ رہے ہیں کچھ سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش سرمایہ کاری کیلئے پرکشش ملک نہیں رہا وہاں سے کئی غیر ملکی سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔ پاکستان کے لئے یہ اچھا موقع ہے کہ اگر حکومت امن و امان کی صورت حال اور توانائی کے بحران پر قابو پالے تو بے یقینی کا شکار پاکستانی سرمایہ کار دوبارہ وطن واپس آسکتے ہیں کیونکہ اب یورپی یونین نے بنگلہ دیش کی طرح پاکستان کو بھی جی ایس پی پلس کی 10سال کے لئے ڈیوٹی فری سہولت دی ہے لیکن اس سہولت کے تحت پاکستان کو اُن تمام 27 بین الاقوامی معاہدوں جو انسانی حقوق، جبری مشقت اور چائلڈ لیبر وغیرہ سے متعلق ہیں، پر سختی سے عملدرآمد کرنا ہوگا نہیں تو مستقبل میں نظرثانی کے وقت پاکستان سے جی ایس پی پلس سہولت واپس لی جاسکتی ہے۔
تازہ ترین