• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نواز شریف جب بھی برسر اقتدار آتے ہیں ،مشیروں کے انتخاب سے رسوا ہو جاتے ہیں ۔اس بار ان کے سیاسی تدبر اور بصیرت کو دیکھتے ہوئے سب کو توقع تھی کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے لیکن کچن کیبنٹ کے ساتھ کام چلانے اور اپنے من پسند افراد کو نوازنے کی روش ہنوز برقرار ہے۔ سابقہ حکومت اہم عہدوں پر نااہل افراد کو تعینات کرنے کے باعث بدنام تھی اور عدالتی فیصلوں کی بے توقیری اس کا طرہ امتیاز تھا۔ جب مسلم لیگ (ن) برسراقتدار آئی تو مجھ سمیت بیشمار لوگوں کو خوش گمانی تھی کہ اب شفاف انداز میں میرٹ پر باصلاحیت افراد کا چنائو ہو گا۔ اس بات کا کریڈٹ خواجہ سعد رفیق کو دینا چاہئے کہ ریلوے میں انہوں نے اپنوں میں ریوڑیاں بانٹنے کا سلسلہ روک دیااور اس پالیسی کے نتائج بھی ریلوے کی بہتری کی صورت میں قوم کے سامنے ہیں مگر مجموعی طور پر میاں صاحب کی حکومت پیپلز پارٹی کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔میاں صاحب نے برسر اقتدار آتے ہی سب سے پہلی غلطی شجاعت عظیم کو ہوابازی کا مشیر بنا کر کی۔ کسی نے کہا کہ ان کی قابلیت کا میعار یہ ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم چلانے کے لئے چارٹرڈ طیارہ دیا تھا۔دور کی کوڑی لانے والوں نے یہ خبر دی کہ چونکہ وہ لبنانی وزیراعظم رفیق الحریری کے پائلٹ رہے اور حریری خاندان سے شریف خاندان کے تعلقات میں پُل کا کردار ادا کیا اس لئے انہیں نواز گیا۔شجاعت عظیم کے احسانات کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو،ایک ایسے فرد کو پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کی ذمہ داریاں سونپنا جو دہری شہریت کا حامل ہے اور جسے پاک فضائیہ سے کورٹ مارشل کر کے نکالا گیا،سنگین نوعیت کی غلطی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیا اور جب یہ معاملہ زیرسماعت تھا تو شجاعت عظیم مستعفی ہو کر بیرون ملک چلے گئے اور یوں یہ معاملہ ٹھپ ہو گیا۔ یہ سب عدالت کو چکمہ دینے کے لئے کیا گیا کیونکہ اس استعفے کے چھ ماہ بعد ہی جب افتخار چوہدری سبکدوش ہوئے تو وزیراعظم نے انہیں ایک بار پھر اپنا معاون خصوصی بنا لیا اور چند روز قبل اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں میاں نواز شریف، شجاعت عظیم کے ہمراہ پی آئی اے کے ایک طیارے کا معائنہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح اپنے ایک چہیتے پائلٹ کیپٹن ہمایوں جمیل کو نوازنے کے لئے پی آئی اے میں ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر کا عہدہ تخلیق کیا گیا۔ من پسند اور چہیتے افراد کو نوازنے کی ایک اور مثال چیئرمین او جی ڈی سی ایل زاہد مظفر ہیں۔ انہیں پہلے وزیر اعظم کا مشیر پیٹرولیم بنایا گیا اور پھر قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے او جی ڈی سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ان کی کوالیفکیشن یہ ہے کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اکنامکس میں بیچلر کیا ہے اور انہیں ایک تکنیکی نوعیت کا عہدہ سونپ دیا گیا۔جب پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر عاصم کو مشیر پیٹرولیم لگایا گیا تو میں نے لکھا شاید حکومت چاہتی ہے کہ وہ عوام کی ہڈیوں میں سے تیل نکال لیں۔اب زاہد مظفر کی تعیناتی کے اغراض و مقاصد بھی اسی طرح کے نظر آتے ہیں۔نان پروفیشنلزم کا یہ عالم ہے کہ او جی ڈی سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل11افرادمیں سے کسی ایک کا بھی تیل یا گیس کے شعبے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔عابد سعید کے پاس ایم اے اکنامکس کی ڈگری ہے، مسیح الاسلام نے ریاضی اور قانون کی تعلیم حاصل کی ہے،بابر یعقوب نے ایم اے انگلش کیا ہے اور باقی سب ڈائریکٹرز میں سے کوئی ایک بھی پیشے کے اعتبار سے انجینئر نہیں۔ زاہد مظفر کی قابلیت یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ اسحاق ڈار کے نہ صرف ’’ڈارلنگ‘‘ ہیں بلکہ دبئی میں ان کے پڑوسی بھی ہیں۔میرٹ پر کی جا رہی تعیناتیوں کی ایک اور تابناک مثال ایل ایم کے آر کمپنی یو ایس ایڈ کے شیل گیس منصوبے کے لئے شاہد احمد کی خدمات کا حاصل کیا جانا ہے۔انہیں چند برس قبل نیب نے بدعنوانی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا تھا اور اب انہیں یہ عہدہ اس لئے دیا گیا ہے کہ ان کی سفارش کینیڈین ہائی کمیشن سے کی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کینیڈین ہائی کمیشن کے ادنیٰ ملازم ظہیر الدین ان کے دوست ہیں۔
نگراں حکومت کے دور میں جب اہم عہدوں پر تعیناتیاں ہونے لگیں تو خواجہ آصف نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ عدالت عظمیٰ نے نگران حکومت کو اہم عہدوں پر تعیناتیاں کرنے سے روکتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ خود مختار، نیم خود مختار، ریگولیٹری اتھارٹیز ،حکومت کے زیر انتظام چلنے والی کارپوریشنز اور اس طرح کے دیگر اداروں میں تعیناتیوں کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے جو ہر پوسٹ سے متعلق باقاعدہ اشتہار دیکر قابل افراد کا میرٹ پر انتخاب کرے۔ جب مسلم لیگ (ن) برسراقتدار آئی تو یہی فیصلہ اسے اپنے گلے کا پھندہ محسوس ہونے لگا۔ایک بار پھر اعلیٰ عدلیہ کو چکمہ دینے اور اپنے چہیتوں کی کلیدی عہدوں پر تعیناتی کے لئے چور دروازہ کھولنے کے لئے 13جنوری 2014ء کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذریعے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا کہ وزیر اعظم کی منظوری سے نیپرا، پیمرا، اوگرا، پی ٹی اے، نادرا، پی ایم ڈی سی اور بیت المال سمیت 28 اداروں اور کارپوریشنز کو کمیشن کے ذریعے بھرتیوں کی شرط سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے اور ان اداروں میں براہ راست تعیناتیاں کی جا سکیں گی۔اللہ بھلا کرے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا جنہوں نے اپنوں میں ریوڑیوں کی طرح عہدے بانٹنے کی یہ کوشش ناکام بنا دی اور 21جون 2014ء کو دیئے گئے فیصلے میں وہ نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا ۔چیئرمین پیمرا رشید چوہدری اور چیئرمین نادرا طارق ملک جنہیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بحال کیا،حکومت نے ان عدالتی فیصلوں کی بے توقیری کرتے ہوئے طارق ملک کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا اور رشید چوہدری کو بے اختیار کر کے گھر بٹھا دیا۔اب صورت حال یہ ہے کہ چیئرمین پیمرا پرویز راٹھور عارضی بنیادوں پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی کے لئے عدالتی جنگ مسلسل جاری ہے،ایم ڈی پی ٹی وی جن کی تعیناتی غیر قانونی قرار دی گئی تھی ،انہیں ڈویژن بنچ کی جانب سے تب تک کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے جب تک ہائی کورٹ کا تحریری فیصلہ موصول نہیں ہو جاتا۔ بہت سے قومی ادارے اور کارپوریشنز بغیر کسی سربراہ کے کام کر رہے ہیں اور یہ عہدے خالی رکھنے کے پیچھے یہی سوچ کارفرما نظر آتی ہے کہ شجاعت عظیم اور زاہد مظفر جیسے نادیدہ صلاحیتیوں کے حامل چہیتوں کو نوازا جا سکے۔وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے ایڈیشنل سیکریٹری فواد حسن فواد جن کے کارناموں کی تفصیل ہمارے مُربی اور میاں صاحب کے خیر خواہ عطاء الحق قاسمی صاحب کئی کالموں میں بیان کر چکے ہیں،وہ اب بھی وزیر اعظم کے سب سے قابل اعتبار بیوروکریٹ ہیں۔ میاں نواز شریف کو یاد ہو گا کہ یہی وہ خوشامدی ٹولہ تھا جو انہیں دور اقتدار میں قائداعظم ثانی قرار دیتا تھا اور جب بُرا وقت آیا تو چُوری کھانے والے مجنوں ہی ان پر آمریت کی پھبتی کسنے میں سب سے آگے تھے۔ان کھوٹے سکّوں نے گزشتہ حکومت کی ساکھ خراب کی اور اگر موجودہ حکومت نے کھوٹے سکّوں پر انحصار کرنے کا سلسلہ ترک نہ کیا تو یہ کھوٹے سکّے ان کا مقدر بھی کھوٹا کر دیں گے۔
تازہ ترین