• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افرو ایشائی ادیبوں کی کانفرنس ایک حیران کن قدم تھا۔ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ فیض صاحب کی رحلت اور سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد یہ انجمن ابھی قائم ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ کون سے ملک میں ہے اور اس کا نمائندہ پاکستان میں ہے تو کون ہے۔
یہ سب راز ایک دم فاش ہوئے جب اس کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیاگیا۔ کمال یہ تھا کہ سارا راز افشا بھی ہوا اور باقاعدہ کانفرنس بھی ہوئی۔ یہ سارے کام صرف ایک ہفتے میں مکمل ہوئے بظاہر یہ کام امداد آکاش کا لگتا تھا مگر اصل میں اس کانفرنس کے روح رواں راحت سعید تھے۔ کمال یہ بھی دیکھا اور سنا گیا کہ مصر میں ڈاکٹر ہادی اس افروایشیائی انجمن کے بین الاقوامی صدر ہیں اور اس ٹرم کے صدر جناب ڈاکٹر علی جاوید ہیں ہمیں اس سے کیا کہ یہ انجمن کیسے زندگی پاگئی ہمیں تو یہ خوشی ہے کہ پاکستان میں یہ کانفرنس نہ صرف شان وشوکت سے منعقد ہوئی بلکہ پاکستان کے مختلف کیا بلکہ دور دراز شہروں سے لوگ شامل ہوئے جو کہ نظریاتی طور پر ترقی پسند اور آگاہ تھے کہ شدت پسندی کی کہانی اب ختم ہونی چاہئے اور پاکستان کے ترقی پسند وجود کو مستحکم ہونا چاہئے وہ اس لئے کیا جائے کہ ہم نے شدت پسندی کا عروج گزشتہ تیس برس میں خوب دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ یہ لوگ ہمارے معصوم اور ان پڑھ لوگوں کو کیسے بے وقوف بناتے رہے ہیں۔
اب تو سیاست دان ہوں کہ افسران اندرخانہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ آخر ان شدت پسندوں سے نجات کیسے، کس طرح حاصل کی جائے آپ کے سامنے مصر کی مثال موجود ہے وہاں ان کو ختم کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جارہا۔ جہاں تک فاٹا کا مسئلہ ہے وہاں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو بعض قبائلی عمائدین اپنی وفاداریاں بدلتے رہے ہیں مارشل لا ہو یا جمہوریت ہر ایک کو تسلیم کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے جنرل ضیا کے مارشل لا کو بھی تسلیم کیا تھا ۔ البتہ زمینی اور ہوائی حملوں کے باعث خود فوج نے کہا ہے کہ معصوم اور بے گناہ لوگ اب اپنے گھروں کوچھوڑ کر باہر نکل جائیں ۔ یہ کوئی چھوٹی تعداد نہیں ہے یہ تقریباً پانچ لاکھ لوگ ہیں کہ جو گھر بار چھوڑ کر فی الوقت تو کے پی کے مختلف شہروں میں دم لینے کو ٹھہرے ہیں۔ اذیت کی بات یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے زبانی زبانی تو یہ کہہ دیا ہے کہ یہ گھروں سے نکلے ہوئے لوگ ہمارے علاقوں میں بھی آسکتے ہیں مگر اندرخانے سنا ہے ہدایات ہے کہ ان لوگوں کوداخل نہ ہونے دیا جائے ۔ ویسے تودبئی کی حکومت کے علاوہ پنجاب کی حکومت نے بھی سیکڑوں ٹرک مال بھیجا ہے مگر ایک بات قطعی ہے کہ جو لوگ ایک دفعہ اپنے گھروں سے نکل جاتے ہیں پھر وہ دوبارہ وہاں لوٹ کر نہیں آتے، تاریخ اس کی گواہ ہے۔ یہی بات کانفرنس میں افروایشیائی کانفرنس کے صدر نے بھی کی انہوں نے کہا کہ جو مصر کے لوگ لڑائی کے دوران نکلے یا پھر عراق کے لوگ بے گھر ہوئے یا شام کے باشندے ہجرت کرگئے وہ نئے مقامات پر اپنی پناہ گاہیں تلاش کرکے، وہیں آباد ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے ہجرت کرنے والوں کو ہرچند فوج اور دیگر ادارے مدد، تنبو، کھانا اور طبی امداد فراہم کررہے ہیں اسلام آباد میں فوزیہ من اللہ، فلک ناز اور طاہرہ عبداللہ بھی کوشاں ہیں کہ ذاتی سطح پر جس قدر خواتین وحضرات ان بے گھروں کی مدد کر سکیں، جلد از جلد کپڑے، برتن، سوکھا راشن، چولہے اور توے فراہم کریں کہ یہ خواتین سوکھے راشن کواپنی مرضی کے مطابق پکا سکیں اور بچوں کو کھلا سکیں۔ مجھے معلوم ہے اور اچھی طرح یاد ہے کہ گزشتہ زلزلے اور سیلاب میں ان آئی ڈی پیز نے یہی درخواست بھیجی تھی کہ ہم سے روز بریانیاں نہیں کھائی جاتی ہیں ہمیں اپنے انداز کی روٹی اور سالن بنانے کی سہولت مہیا کریں۔
افرو ایشیائی رائٹرز کانفرنس میں پہلی دفعہ فوجی اقدامات کی ستائش کی گئی کہ اس طرح شدت پسندوں کے خلاف صرف شمالی وزیر ستان ہی میں نہیں بلکہ سارے ملک میں شدت پسندوں کے اس جال کو توڑا جائے تاکہ پاکستان کو ایک پرامن اور خوشحال ملک بنایا جا سکے۔جس موضوع کی طرف ہمارے سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں کی توجہ مبذول کرانے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے بقول مصری دانشور ڈاکٹر ہادی کہ جس شعبے میں یا جس وزارت میں شدت پسندی کو بڑھتا ہوا محسوس کریں وہاں گھیراؤ کرکے، اس سے نجات حاصل کریں جیسا کہ مصر میں ہوا تھا وہاں ثقافت کا وزیر، ایسا ہی شدت پسند لگا دیا گیا تھا۔ تمام سنجیدہ دانشوروں نے اس دفتر کا محاصرہ ایک ماہ تک جاری رکھا اور اس وزیر کو دفتر میں داخل نہیں ہونے دیا ڈاکٹر ہادی نے کہا کہ پاکستانی دانشوروں کو بھی یہی حوصلہ اور اقدام کرنا پڑے گا ورنہ یہ جنونی قوتیں،عالم اسلام کو بدنام کرتی رہیں گی۔ کمال یہ تھا کہ ڈاکٹر ہادی کے ہر فقرے پر ادیبوں کے کسی بھی طبقے نے اختلاف نہیں کیا بلکہ تالیاں بجاتے رہے۔ کانفرنس میں بھی فیصلہ کیا گیا کہ لوٹس پرچہ جو افروایشین ادیبوں کی نمائندگی کرتا تھا جو فیض صاحب، یاسر عرفات اور معین بیسو کے انتقال کے بعد بند ہوگیا تھا اس کو دوبارہ زندہ کیا جائے اس کانفرنس میں خواتین کی معتدبہ تعداد شریک ہوئی۔ یہ سب لکھنے والیاں تھیں یقین ہے کہ افروایشین رائٹرز کی پاکستان شاخ لوٹس پاکستان سے نکالنے کیلئے جس طرح سرگرم عمل ہے یقیناً نوجوان خون اس ادارے کو مستحکم کرے گا اور یہی نوجوان خون موسم گرما کی چھٹیوں کے باعث ہمارے سارے آئی ڈی پیز کی نہ صرف مدد کرے گا بلکہ ڈاکٹر حضرات گزشتہ صعوبتوں کی طرح اس دفعہ بھی دنیا بھر سے جمع ہوں گے اور ہمارے وزیرستان کے خاندانوں کو محبت اور مسیحائی عطا کریں گے۔
تازہ ترین