• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں پہلی بار مارشل لا 1958ء میں ایوب خان نے لگایا،ذوالفقار علی بھٹو اس کا حصہ تھے۔ جنرل اعظم مشرقی پاکستان کے ڈپٹی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تعینات ہوئے۔ وردی پوش جنرل نے عوامی راج کا رواج ڈالا ،صدی کے بدترین سیلاب میں وہ بنگالیوں کے ساتھ کھڑے تھے ۔ جس سے بنگالیوں کو گُڈ گورننس کا احساس ملا۔ دو سال قبل پاکستان کے ایک معروف صحافی بنگلہ دیش گئے، مختلف مکتب فکر کے لوگوں کے علاوہ عام آدمیوں سے بھی ملے ۔ موصوف نے اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا آج بھی بوڑھے بنگالی جنرل اعظم کانام احترام سے لیتے ہیں۔ نیکی اور برائی مشکل سے ہی بھلائی جا سکتی ہے ۔ جنرل اعظم کی اہلیت ان کی نااہلی بن گئی اور انہیں واپس بلا لیا گیا۔ غیر فوجی بنگالی منعم خان نئے گورنر تعینات ہوئے۔ موصوف مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد سے بہت متاثر تھے۔ انہوں نے خدمت کے بجائے حکمرانی کا شعار اپنایا۔ ملک امیر محمد کی طرحencounter اسپیشلسٹ پولیس افسران اور غنڈوں کے ذریعے عوام کو جھکانے کی پالیسی کو رواج دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی عوامی بغاوت میں وہ عوام کے ہتھے چڑھ گئے جنہوں نے اس کی لاش پر اپنے انتقام کا اظہار کیا۔ ملک امیر اپنے بیٹے کی گولی کانشانہ بنے ،میں پھر کہوں گا نیکی اور برائی بھلانے سے بھی نہیں بھولتی ۔ بہرحال ایوب دور میں معقول ترقی ہوئی۔ منگلا تربیلاڈیم بنے،صنعتیں پروان چڑھیں، فوجی چھائونیاں بنیں۔ کینو، آم کی درجنوں اقسام متعارف ہوئیں، زرعی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوا اور خوشحالی نے عام آدمی کے گھر پر بھی دستک دی۔ بڑے بڑے پلاٹس پر مشتمل گلبرگ جیسی آبادیاں اور اسلام آباد کا شہر بسانا اور کراچی سے دارالحکومت تبدیل کرنا،پلاٹس بطور رشوت بانٹنا منفی پالیسی تھی جس کا تسلسل آج بھی برقرار ہے۔وہ اپنوں اور غیروں کی سازشوں کا شکار بنے۔ جنرل یحییٰ خان نے انہیں فوجی قوت سے اقتدار سے الگ کر دیا۔ یہ بدترین دور تھا۔مانا اس دور میں قومی خزانے پر شب خون نہیں مارا گیا، قومی زمینوں پر قبضے نہیں ہوئے۔ غیر ممالک میں ناجائز اثاثے اکائونٹس کے تذکرے نہیں تھے مگر نااہلی سے ملک چلایا گیا۔ 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے جرنیلوں کے زور پر بطور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اقتدار سنبھالا۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا یہ راز اقتدار کی غلام گردشوں میں ہی دفن رہے گا۔
مارشل لا لگانے یا اٹھانے میں کسی آئین قانون کی ضرورت نہیں ہوتی۔ 1956ء کے آئین کی بحالی کے بجائے 1973ء کا آئین تخلیق کیا گیا جو dejuroہے یاdefactoبحث طلب بات ہے ۔بھٹو صاحب کی دلیل تھی 1956ء کا آئین مارشل لا نہیں روک سکا، میں جو آئین بنائوں گا اس کی موجودگی میں مارشل لا نہیں لگ سکے گا ۔بھٹو کے آئین کے خلاف دو بار مارشل لا نافذ ہوا۔آئین کے خالق نے 7ترامیم کے ذریعے وزیراعظم کو اختیارات کا منبع بنا دیا ۔بلوچستان اور سرحد کی صوبائی حکومتوں کو غیر آئینی طریقے سے ہٹا کر فوجی یلغار کر دی ۔نیشنل عوامی پارٹی جو تخلیق ِ آئین میں معاون تھی پر پابندی عائد کر دی۔ عبدالصمد اچکزئی ،ڈاکٹر نذیر احمد سمیت پچاس کے قریب سیاستدان قتل ہوئے جن میں احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان بھی شامل ہیں۔ ایف ایس ایف اور بیورو کریسی کے گٹھ جوڑ سے جمہوریت کے نام پر ڈکٹیٹرشپ چلائی ،پیپلز پارٹی کے باغیوں کیلئے دلائی کیمپ جیسے عقوبت خانے بنائے ۔میں پھر بھی کہوں گا بھٹو مقبول ترین لیڈر تھے پاکستان کو نیوکلیئر پاور بنانے کا سہرا سیاستدانوں میں صرف انہی کے سر پر ہے۔میں یہی کہوں گا، انقلاب کے نام پر وہ لوگوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب رہے مگر انقلاب لانے میں ناکام۔جنرل ضیاء الحق نے ان سے اقتدار چھین کر انہیں پھانسی پر لٹکا دیا اور پاکستانی قوم کو افغانستان کی جنگ کے خطرناک ہیولے میں جھونک دیا۔
جنرل مشرف نے چوتھا مارشل لا نافذ کیا جو مکھی پہ مکھی ثابت ہوا کچھ بھی اچھا نہیں تھا ماسوائے سب اچھا کے۔ صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے چوتھی بار حکومت بنائی اور کرپشن کے نئے ریکارڈبنائے۔21,500میگا واٹ بجلی پیدا کرنیکے سورس محفوظ رکھنے کے باوجود قوم پر بدترین لوڈ شیدنگ مسلط کی جو موجودہ حکومت کے دور میں بھی جاری ہے۔ 2013ء کے الیکشن جن کی شفافیت پر جیتنے ہارنے والوں سب کے تحفظات ہیں کے نتیجے میں مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی، جس کی کارکردگی ،بھارت کی طرف جھکائو ،مقتدر آئینی اداروں سے ٹکرائو کی پالیسی سے مایوسی پھیل رہی ہے کیونکہ عوام مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بیروزگاری، بالواسطہ ٹیکسوں ،بلوں کے چنگل میں گرفتار ہیں۔ قانونی ،معاشی انصاف کوسوں دور ہے۔ پاکستان میں دو طرح کی حکومتیں آتی رہی ہیں فوجی اور سول۔ سول حکومتیں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا چرچا تو بہت کرتی ہیں مگر عوام کو ڈلیور نہیں کرتیں بلکہ ان پر لوٹ مار کا الزام زیادہ ہے۔ طرز حکومت دونوں کا ڈکٹیٹر شپ ہے۔ حکومت جو عوام کو ڈلیور نہیں کرتی اگر وہ ووٹوں سے بھی آئی ہو کو وہ سول حکومت تو ضرور کہلا سکتی ہے جمہوری نہیں۔
کالم کا سوال ہے کیا پاکستان میں مارشل لا لگ سکتا ہے ۔ایک رائے ہے، نہیں لگ سکتا کیونکہ مارشل لا کا وقت گزر چکا ہے ،لوگوں کے شعور میں اضافہ ہو چکا ہے ۔میڈیا بہت مضبوط ہے، عدلیہ اور بار رومز طاقتور ہیں، بین الاقوامی پریشر ہے۔یہ بھی ایک شائبہ ہے ۔عمیق نگاہوں سے دیکھا جائے تو ایسا کچھ بھی نہیں ۔عوامی شعور رُکا ہوا ہے جس کا ثبوت انہی لوگوں کا بار بار منتخب ہونا اور عوامی لیڈرشپ کا نہ پیدا ہونا ہے۔ جسٹس افتخار کے suo motoنوٹسز نے سپریم کورٹ کے امیج کو بڑھاوا دیا مگر جس قانون کی پشت پر سزا نہ ہو وہ پنچایتی فیصلہ تو ہو سکتا ہے قانون نہیں۔میڈیا کے پیچھے عوامی شعور اس کی طاقت ہوتا ہے۔ میڈیا کا کام کرپشن کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے تاکہ حکمران اس کا نوٹس لیں۔ اگر حکمران عوام کے ہم حال اور ہم خیال ہوں اور ڈنگ ٹپائو پالیسیوں کے بجائے حقیقی پلاننگ کی جائے۔ معاشی، سماجی، قانونی انصاف ہوتا ہوا نظر آئے ۔حکمران قومی خزانے پر بوجھ نہ ہوں۔ آئین کی پاسداری حقیقی ہو، آئینی ترامیم ذاتی خواہشات کی راہ میں قانونی رکاوٹیں دور کرنے کیلئے استعمال نہ ہوں۔ کیا بنیادی جمہوری اداروں کے الیکشن نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی نہیں۔ یاد رکھیں لفظ، بندوق کی طاقت کو نہیں روک سکتے ۔بندوق کی طاقت کو آئینی طاقت سے تبھی روکا جا سکتا ہے جب آئین کی پشت پر عوامی طاقت ہو ۔یہ تبھی ممکن ہے اگر آئین عوام کو ڈلیور کر رہا ہو۔جمہوریت کی توانائی کے لئے ضروری ہے سیاسی پارٹیوں میں کارکن طاقتور ہوں جو لیڈر سے سوال کریں احتساب کریں ۔کارکنوں کا سوال اور احتساب سے اجتناب جمہوریت سے دوری کا باعث ہے ۔مارشل لا ہمیشہ سول ڈکٹیٹرشپ کے خلاف آئے ہیں جمہوریت کے نہیں۔عوام کے حالات آج بھی1958ء والی مایوس کن سطح پر ہیں۔ اگر حالات کا تسلسل برقرار رہا تو مارشل لا کا تسلسل بھی برقرار رہے گا، کوئی مانے یا نہ مانے۔
تازہ ترین