• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانوی وزیر اعظم نے ابتدا ئے رمضان میں مسلمانوں کے لئے استقبال رمضان کے حوالہ سے برطانوی نشری ادارہ پر اپنا پیغام دیا ’’اس مبارک ماہ کے حوالہ سے یہ وقت بہت اہم ہے یہ خاص وقت صدقہ و خیرات اور عبادات اور لوگوں کے بارے میں سوچنے کا ہے ‘‘ ان کا مزید کہنا تھا دنیا میں مسلمان سب سے زیادہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں دوسروں کی مدد کرتے ہیں اور غریبوں میں کسی فرق کے بغیر ان کی زندگی آسان بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ صرف برطانیہ میں مسلمان لاکھوں پونڈ جمع کرکے افراد اور تنظیموں کو ان کی ضرورت کی رقم مہیا کرتے ہیں اور یہ کردار اور کام قابل فخر ہے پھر عبادات میں روزہ افطاری اہم جز ہے۔ برطانوی حکومت بھی افطاری کا اہتمام کرتی ہے یہ سال پہلی جنگ عظیم کے سو سال مکمل ہونے پر ہندی مسلمانوں کے کردار پر فخر کر رہی ہے جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دیکر ہماری آزادی کو یقینی بنایا ۔ یہ وہ جذبہ ہے جس کی ہم سب کو آج بھی بہت ضرورت ہے برطانوی حکومت مسلمانوں کے اس کردار کو نظرانداز نہیں کر سکتی اور مسلمانوں کے لئے اس مبارک مہینہ پر نیک خواہشات کا پیغام دیتی ہے اور تمام مسلمانوں کو رمضان مبارک کہتے ہیں ۔
ادھر ہمارے ہاں بھی مبارک مہینہ پر صاحب اقتدار لوگوں نے رمضان مبارک تک اپنا پیغام رکھا اور عبادات پر زور دیا کوئی ایسی فکر انگیز بات نہ کی جو عوام کو حوصلہ اور فکر دیتی ہمارے ہاں بھی خیرات اور صدقہ پر زور ہے لوگ انفرادی حیثیت میں بہت زیادہ خیرات اور صدقہ کرتے ہیں مگر اس کا اثر سماج میں نظر نہیں آتا ۔ رمضان کے حوالہ سے پاکستانی سرکار دعوے بہت کرتی ہے لوگوں کی مدد کے لئے رمضان بازار ملک کے طول وعرض میں لگانے کا اعلان بہت ہی دلفریب ہے مگر قیمتوں پر حکومت کا اختیار نہیں ہر چیز کی قیمت میں اضافہ مسلسل ہو رہا ہے ۔اتنا بڑا زرعی ملک کا دعویٰ کرنے کے باوجود آٹے، دال، دودھ، سبزیاں جو بنیادی خوراک کا حصہ ہے ان کی قیمتوں میں فرق نمایاں ہے شہروں میں یہ فرق بہت ہی زیادہ ہے آٹے کی سرکاری قیمت 610روپے 20کلو کی ہے مگر یہ اس قیمت پر دستیاب نہیں اور اگر دستیاب ہے تو معیار کے مطابق کم درجہ کا ہے اس معاملہ پر سرکاری ہرکارے شوروغل بہت کرتے ہیں مگر لوگوں کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔
چاروں صوبوں کے صوبے دار حضرات رمضان میں قیمتوں کے کنٹرول کے دعوے کرتے تھکتے نہیں مگر ان کو اندازہ ہی نہیں مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اور اس ہی وجہ سے سماج میں عدم برداشت ہے دوسری طرف بجلی کی قیمتوں نے فتور ڈال رکھا ہے موسم کی شدت کا مقابلہ بے چارے عوام کس طرح کریں ان کو تو کوئی راستہ نظر نہیں آتا کار سرکار کے تمام لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ عوام کن مشکلات کا شکار ہیں ۔ نوکر شاہی نے حکمرانوں اور عوام کے درمیان بڑی خلیج حائل کر دی ہے جس کی وجہ سے عوام لیڈروںسے دور ہوتے جا رہے ہیں ان کا اعتماد اور اعتبار ختم ہوتا جا رہا ہے دوسری طرف جو لوگ عوام کی بات کرتے نظر آتے ہیں وہ سیاسی مہم جوئی میں اپنے مفادات کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں ۔آج کل ایک سرکاری اشتہار ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں بہت نمایاں ہے جس میں سرکار کا دعویٰ ہے ’’خدمت میں عظمت ‘‘ اب معلوم نہیں کہ حکومت کس طریقہ سے خدمت کا دعویٰ کر رہی ہے اگر حکومت کرنا خدمت ہے تو ایسی خدمت سے لوگ بالکل خوش نہیں ہیں ۔ نچلی عدالتوں اور تھانوں میں خدمت کا انداز اور معیار رشوت پر ہے اگر آپ صاحب رسوخ ہیں تو قانون اور عدل آپ کی مرضی کے مطابق کام کرے گا ۔ دوسری صورت میں رشوت اور سفارش سے کام گزارا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس بات کا اندازہ ہمارے اندھے اور بہرے نوکر شاہی کے سرخیلوں کو بھی ہے مگر ان کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے اگر عوام کو آسانی فراہم ہو گی تو ان کا عیش و آرام ختم ہو سکتا ہے اب تو عوام کی خدمت کے دعویٰ کی وجہ سے وہ اپنا الو سیدھا رکھتے ہیں ۔
اس وقت ہماری افواج اندرون ملک دہشت گردی کی جنگ میں مصروف ہے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی ہو رہی ہے تاکہ وہ لوگ اس جنگ سے محفوظ رہ سکیں تمام صوبے ان نقل مکانی کرنے والوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں صوبہ پختونخوا کی سرکار وسائل کے معاملہ میں بالغ نظر نہیں ان کو شدید انتظامی بدنظمی کا سامنا ہے ایک طرف فوج وہاں پر آپریشن عضب کر رہی ہے دوسری طرف ان لوگوں کے لئے خوراک اور رہائش کا انتظام بھی کر رہی ہے ایسے میں نوکر شاہی کا کردار فوج کے لئے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے ۔
مرکزی سرکار کے میر منشی حال ہی میں ایک عرب ملک کی یاترا سے واپس آ ئے ہیں ۔ ابھی تک ان کی طرف سے کوئی خبر نہیں آئی اندرون خانہ باتیں بزبان راوی کہ میر منشی نے رمضان کے حوالہ سے زکٰوۃ کی مد میں امداد کے لئے مشو رہ دیا تھا ۔ اس ملک کی سرکار اس وقت شام اور عراق کے معاملات میں گھری ہوئی ہے ان کے لئے کسی اور طرف توجہ دینا مشکل ہے پاکستان میں زکٰوۃ کا دفتر نقل مکانی کرنے والوں پر توجہ دے سکتا ہے مگر یہ کام کرے کون، زکٰوۃ کی رقم افسر شاہی کے اخراجات پر خرچ ہو سکتی ہے مگر مرکزی سوار کے اعصاب پر اپنے مسائل کا اتنا بوجھ ہے کہ وہ بہبود کے کاموں کو نظر انداز کر رہی ہے ۔ وزیروں کی اندرون خانہ چپقلش نواز شریف کے لئے مشکلا ت پیدا کر رہی ہے رمضان کے مقدس ماہ میں عبادات تو کیا کرنی تھی جوڑ توڑ کا بازار گرم ہے پنجاب کے وزیر اعلیٰ اس وقت ہر دم مصروف ہیں ان کا ایک قدم اسلام آباد میں ہے تو دوسرا صوبے کے مرکزی شہر میں لوگوں میں عجیب و غریب کہانیاں بیان ہو رہی ہیں۔ بھائیو رمضان میں صبر اور شکر کرو اور عبادات میں تو سیاست نہ کرو، مگر سرکار کو کیا دوش دیں اپنے مولانا قادری ہوں یا مولانا فضل الرحمٰن سب ہی کسی نہ کسی مار پر لگتے ہیں۔
تازہ ترین