• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نکولس بیرنگٹن ایک غیر معمولی سفیر تھے۔ وہ جن ممالک میں بھی تعینات رہے وہاں غیرمعمولی وقت گزارا۔ ان کی دلچسپ سرگزشت " انوائے "(سفیر) قاری کو پاکستان، افغانستان، ایران اور مصر کے خوشگوار سفارتی سفر پر لے جاتی ہے جہاں انہوں نے اپنے 37 سالہ کیریئر کا ایک تہائی عرصہ گزارا۔چند ہی مغربی سفیروں کو وہ رسائی حاصل رہی ہوگی جو نکولس بیرنگٹن کو پاکستان میں حاصل تھی۔یہاں دو مرتبہ اپنی تعیناتی کے دوران 1960ء میں اور 1987ء سے 1994ء تک برطانوی ہائی کمشنر کی حیثیت سے انہوں نے وسیع حلقہ احباب بنایا۔ وہ 1994ء میں ریٹائر ہوگئے لیکن جو دوستیاں انہوں نے پاکستان میں بنائی تھیں وہ بڑے عرصے تک قائم رہیں۔
ان کی دوسری بار تعیناتی کے دوران میری ان سے ملاقات ایک صحافی کی حیثیت سے ہوئی، اگرچہ میں نے اپنے والدین سے ان کے متعلق بہت کچھ سن رکھا تھا جو ان کی پہلی تعیناتی سے انہیں اور ان کے ہائی کمشنر کو جانتے تھے۔ بیرنگٹن کہتے ہیں کہ سفیر کی حیثیت سے ان کی موثر کارکردگی دراصل کسی ملک کی سماجی و سیاسی حرکیات کو اچھی طرح سمجھنے کی ان کی صلاحیت اور لگن کی مرہون منت ہے جہاں وہ تعینات ہوتے ہیں۔انہوں نے اپنے شعبے میں آنے والے نوآموزوں کو جو مشورہ دیا اس پر تندہی سے خود بھی عمل کیا یعنی مقامی زبان سیکھو، ملک کی تاریخ وثقافت کو زیادہ سے زیادہ جذب کرو اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں دوست بناؤ۔لیکن دوسروں کے ساتھ یہ ان کا تعظیمی رویہ ہے جو انہیں ان کے ہم عصروں اور چند جانشینوں سے مختلف بناتا ہے۔ دوسروں کی ثقافت کے ساتھ کبھی سرپرستانہ یا گستاخانہ رویہ اختیار نہ کرو، وہ سمجھتے ہیں کہ سفارت کاری بنیادی طور پر دوسروں کے موقف کو سمجھنے کا نام ہے۔
کئی سال کے وقفے کے بعد جب 2003ء میں لندن میں میری ان سے ملاقات ہوئی،تو حیرت انگیز طور پر میں نے انہیں پاکستان کے حوالے سے بہت باخبر اور افغانستان میں تازہ حالات پر گفتگو کا شوقین پایا لیکن جب ہماری گفتگو کا رخ عراق کی طرف مڑا تو مجھے پتہ لگا کہ وہ اپنے ملک کی عراق پالیسی کو کتنا زیادہ محسوس کرتے ہیں۔انہوں نے عراق پر امریکی و برطانوی حملے کو تباہی قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے کتاب کے آخری باب میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔بیرنگٹن اپنے ملک کی بغیر سوچی سمجھی اور خطرناک عراق پالیسی کے خلاف آواز بن گئے،انہوں نے دی ٹائمز میں مراسلے لکھے، کانفرنسوں سے خطاب کئے اور 146 نکاتی پرچہ جاری کیا جس میں وضاحت کی گئی کہ عراق پر حملے نے کس طرح ہم سب کو اور زیادہ خطرے میں ڈال دیا۔انہوں نے دلائل دیئے کہ یہ اقدام نہ صرف غلط تھا بلکہ اس نے افغانستان سے توجہ بھی پھیر دی جہاں کام بدستور ادھورا ہے۔ عراق پرحملے اور قبضے کو اسلام پرحملے کے طور پر دیکھا گیا جس نے فرقہ وارانہ کشیدگیوں کو بھی جنم دیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ جب دوسروں کے نقطہ نظر کو اہمیت نہیں دی جاتی تو اکثر غلط فیصلے ہوتے ہیں اور اس وقت مغربی رہنما اس بات کو اچھی طرح نہیں سمجھتے۔ان کی تقریباً آدھی کتاب پاکستان پر ہے جس کے بارے میں بیرنگٹن کہتے ہیں کہ وہ 9 سال کی قریبی رفاقت کے بعد اسے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔وہ بہت پہلے ہی یہ بات جان گئے تھے کہ پاکستان میں سیاسی وفاداریوں کو سمجھنے کا ایک سرا خاندانی سلسلے اور رشتے داریاں ہیں۔اس چیز نے انہیں پاکستانی خاندانوں کے شجروں کے بارے میں ایک کتابچہ لکھنے پر اکسایا جو سینئر سیاسی شخصیات پرمرکوزہو۔ انہوں نے اسے پاکستان کے 100 خاندان کا عنوان دیا جس کی ذیلی سرخی ہے " رشتے داریاں نہ کہ دوستیاں "۔بعد ازاں اس کتابچے میں مزید خاندان بھی شامل کئے گئے۔لیکن اس کو شائع کرنے میں ان کی حوصلہ شکنی کی گئی جس کے نتیجے میں متن مسودے کی شکل میں باقی رہ گیا۔ وہ اسے مخصوص عرصے کے دوران تعلقات کی ایک دلچسپ جھلک قرار دیتے ہیں۔ بیرنگٹن اپنی سرگزشت میں پوچھتے ہیں کہ کیا یہ اب بھی قابل اشاعت ہے۔ جواب اثبات میں ہے جیسا کہ میں نے ان سے اکثر کہا ہے۔سفیر کی حیثیت سے بیرنگٹن کا دور پاکستان میں ڈرامائی واقعات سے بھرپور رہا۔ طیارہ تباہ ہونے کے واقعے میں جنرل ضیاء الحق کی موت، جمہوریت کی طرف انتقال اقتدار،بے نظیر بھٹو کا اقتدار سنبھالنا اور وزیر اعظم کی حیثیت سے نواز شریف کا پہلا دور حکومت۔ مذکورہ بالا اور دیگر واقعات کے حوالے سے ان کا بیان دلچسپ روایات اور معروف شخصیات کے بارے میں تاثرات سے بھرپور ہے جن سے ان کا تعلق رہا۔
وہ ایوب خان کا ذکر ستائشی انداز میں کرتے ہیں اور صاحب زادہ یعقوب خان کو ایک لیجنڈ قرار دیتے ہیں۔جنرل ضیاء الحق کے بارے میں لکھتے ہیں وہ عیار اور کرسی پر بیٹھ کر خوش تھا۔ ان کے ہیرو اختر حمید خان ہیں لیکن وہ مثبت انداز میں عمران خان کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے نوجوان کرکٹروں کو متاثر کیا۔
بے نظیر کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے بے نظیر کو غیر معمولی طور پر ان کے پیارے والد کے ساتھ برتے گئے سلوک کی تلخی سے محروم پایا جس کا بے نظیر نے براہ راست مشاہدہ کیا تھا اوراس خراب رویّے کی کڑواہٹ سے بھی جس کا ذاتی طور پر وہ خود بھی نشانہ بنی تھیں لیکن بیرنگٹن بے نظیر کے ساتھ ہونے والی ایک دوسری ملاقات کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جس میں بے نظیر نے ان سے تعلقات ختم کردیئے تھے جب بیرنگٹن نے ان کے وزراء پر بڑے پیمانے پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات کا تذکرہ کیا تھا۔اپنی دوسری مدت میں بھی بے نظیر کا رویہ ان کے ساتھ واضح سرد مہری پر مبنی تھا کیونکہ وہ انہیں نواز شریف کا بہت زیادہ حمایتی سمجھتی تھیں۔ دونوں کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بے نظیر کو گھلنے ملنے والا اور محتاط پایا جب کہ نواز شریف کم آمیز لیکن فوری فیصلہ کرنے والی شخصیت تھے لیکن نواز شریف بھی جلد دوسروں کی باتوں میں آجاتے۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے دونوں نے شیڈو کابینہ مقرر کرنے کے ان کے مشورے کو نظرانداز کیا، جو ان کے خیال میں شخصیات کے بجائے پالیسیوں کو زیادہ اجاگر کرتی۔جہاں تک معاملات کا تعلق ہے تو، اسلام آباد چھوڑنے سے قبل لکھے گئے الوداعی پیغام سے بیرنگٹن کا کشمیر پر موقف پتہ چلتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ کشمیر کے مسلمانوں اور دہلی میں اس حد تک بیگانگی ہے کہ مصالحت کا کوئی امکان نہیں اور صورت حال بدستور خطرناک ہے۔اس وجہ سے بین الاقوامی برادری بشمول ان کے ملک کو پاکستان بھارت اختلافات کو ختم کرانے کے لئے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
جب 1989ء میں کشمیریوں کی بغاوت شروع ہوئی تب بیرنگٹن اسلام آباد میں تھے اور اس بات کے قائل ہوگئے کہ کشمیر ایک ایسا ٹائم بم ہے جو پھٹا نہیں ہے۔ ماضی کی راکھ کو کریدتے ہوئے اپنی سرگزشت میں بیرنگٹن لکھتے ہیں کہ وہ کشمیر سے ہاتھ جھاڑ کر پیچھے ہٹنے کے برطانوی سرکاری موقف سے شاید زیادہ سختی سے اختلاف کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کے اس دعوے کی کوئی حقیقت نہیں کہ کشمیر اس کا حصہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے سے محاذ آرائی کر رہی تھیں تو اقوام متحدہ کو کچھ زیادہ اقدامات کرنے چاہئیں تھے۔بیرنگٹن نے یہ بات مئی 1998ء میں دی ٹائمز کو لکھے گئے اپنے خط میں بھی دہرائی جس میں انہوں نے کہا کہ صورت حال اتنی سنگین ہے کہ اکیلے دونوں ممالک پر ہی نہیں چھوڑی جاسکتی۔ وہ اس موقف پر جمے رہے کہ مسئلے کا حل نکالنا کوئی ناممکن کام نہیں اور یہ کام اتنی وقعت رکھتا ہے کہ اس کے لئے کوششیں کی جائیں۔سیاچن پر بھی ان کے خیالات بالکل واضح ہیں۔ وہ دونوں وزرائے اعظم راجیو گاندھی اور بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا ذکر کرتے ہیں جس کے تحت دونوں ممالک کی مسلح افواج کو شملہ معاہدے کے وقت والی پوزیشنوں پر واپس لوٹنا تھا۔
پاکستانی جواز کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارتی کارروائی شملہ معاہدے کے ان اصولوں کی خلاف ورزی ہے کہ کوئی بھی فریق یکطرفہ طور پر لائن آف کنٹرول کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔وہ اعتراف کرتے ہیں کہ بھارت میں سیاسی و فوجی مخالفت کے سبب ہی بعد میں دہلی نے موجودہ پوزیشنوں کے باضابطہ اندراج پر اصرار کیا۔ اس سے معاہدہ بیکار ہوگیا اور سیاچن معاہدہ کئے بغیر بے نظیر نے راجیو کی دعوت پر بھارت کا دورہ کرنے سے انکار کردیا۔پاکستان میں بیرنگٹن کے وقت میں افغانستان ناگزیر طور پر درآیا جہاں ان کی مختلف مجاہدین کے رہنماؤں کے ساتھ اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ کس طرح مجاہدین منظم ہوئے۔ بیرنگٹن نے افغان مہاجرین کے لئے پاکستان کی وسعت قلبی کا بھی اعتراف کیا۔ بہت بعد میں حامد کرزئی کو دیکھ کر انہیں وہ بات یاد آگئی جو انہوں نے ایک بار افغانستان کے بارے میں کہی تھی۔اس ملک میں سلطنتوں کو شکست دینے کی بے پناہ صلاحیت ہے لیکن ادارے تعمیر کرنے کی ایک بھی نہیں۔بیرنگٹن اپنی کتاب میں افغانستان سے روسیوں کے انخلاء اور پھر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد امن کے ضائع کردہ موقع کا حوالہ دیتے ہیں۔اس کا تعلق ظاہر شاہ سے ہے جو شاید لوگوں کو متحد کرسکتا تھا۔لیکن امریکیوں نے،جو مبینہ طور پر بادشاہت کے نظریئے کے اصولی مخالف تھے، پاکستانیوں کو شاہ یا اس کے کسی بھی رشتے دار کو پاکستان آنے اور حمایت اکٹھی کرنے کی اجازت دینے سے روک دیا۔نائن الیون اور مغربی فوجی مداخلت کے بعد افغانستان میں صورت حال نے کس طرح جنم لیا، اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ مغرب معاشی ترقی اور ادارے تعمیر کرنے میں ناکام رہا، القاعدہ اور طالبان کے درمیان فرق نہیں کرسکا اور پھر عراق کے چکر میں افغانستان کو نظر انداز کر دیا اور تاریخ کے ان اسباق کو بھی نظر انداز کردیا کہ ہم ایک طویل اور صبر آزما جنگ نہیں جیت سکتے۔کتاب سے دو اقتباسات خاص طور پر سبق آموز ہیں۔ پہلا ایک سادہ سا مشاہدہ ہے جو سفارت کاری کے بارے میں بیرنگٹن کی اپنی سوچ کی وضاحت کرتا ہے۔ دوستیاں بین الاقوامی مسائل حل نہیں کرتیں لیکن وہ اچھے ابلاغ اور اعتماد کی بنیاد ضرور فراہم کرتی ہیں جو کہ پہلا ناگزیر قدم ہے اور دوسرا یہ کہ کشیدگی والے علاقوں میں تنازعات حل کرنے کے لئے سیاسی فعال پذیری اور رابطے سے گریز کرنے کے بجائے انہیں اہمیت دینی چاہئے۔
تازہ ترین