• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا ملک ایک ایساہے، جہاں کے لوگ کبھی بھی علم وہنر والوں کی قدر نہیں کرتے، ایک بڑی طویل فہرست ہے کہ کیسے کیسے ہیرے ہم نے مٹی میں رول دیئے، فن کمال کے عروج پر ایسی ایسی شخصیات اور ہستیاں رہی ہیں، اگر ان کے ناموں کی فہرست مرتب کی جائے توایک کیا کئی کالم درکار ہوںدفتر کے دفتر بھر جائیں مگر وہ نام ختم نہ ہوں۔
پہلے کہا کرتے تھے کہ ہم قبرپرست ہیں یعنی مرنے والے کی بعد میں قدرکرتے ہیں، اب تو بے شمار مرکر بھی قدر نہیں پاتے، زندگی بھر بے قدروں میں رہتے ہیں۔
یہ دکھ بھری بات کچھ یوں لکھ رہا ہوں کہ چند روز ہوئے میو سکول آف آرٹ اب نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری کے پاس بیٹھا آرٹ کے حوالے سے گپ شپ لگا رہا تھا، دنیا جہاں کے موضوعات پر بات ہورہی تھی۔
باتوں باتوںمیں یہ ذکرہوا کہ نارویجن کرنسی پر ناروےکے مشہور مصور EDWERD MUNCHکی اور فرانس کی کرنسی پر ان کے مشہور پینٹر EUGENE DELACOIXL PAULCEZANNE اور معروف آرکیٹیکچر GUSTAVE EIFFEL کی تصاویر ہیں۔ ایک وہ قوم ہیں ایک ہم ہیں جو اپنے فنکارکی قدر نہیں کرتے، یہ ناروے یا فرانس کی بات نہیں دنیا کے کئی ممالک کی کرنسی میں وہاں کے مصوروں، ماہرین تعمیرات اور قومی خدمت کا کام کرنے والوں کی تصاویر ہیں، کاش ہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی ان کا جائز مقام دے پاتے، ہماری کرنسی پر ہمارے عظیم قائد اوربانی پاکستان حضرت قائد اعظمؒ کی تصویر ہے، لیکن دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ہم افکار قائد بھول گئے ہیں، ہم قائد کی تعلیمات کو بھول گئے۔ ہم نے قائد کے بنائے ہوئے آشیانے کا آج کیا حال کردیا اور صرف تقریروں پر زور ہے۔
بقول علامہ غلام بھیک نیرنگ
عمل کا وقت ہے بس مشغلہ تقریر کا چھوڑو
سو اب موقع نہیں ہے بحث واستدلال کا باقی
نصیب دشمناں! مٹ ہی نہ جائے قوم کی ہستی
کمر باندھو کہ ہے کچھ وقت اب بھی کام کا باقی
کاش ہمارے سیاست دان اب بھی اس کو سمجھ لیں اور ملک وقوم کو بچا لیں بات کہاں سے کہاں چلی گئی اصل موضوع کی طرف آتا ہوں، ہم نے شعروفن سے وابستہ لوگوں کی ناصرف قدر نہیں کی بلکہ آج ہم ان کے نام بھی بھولتے جا رہے ہیں۔
عبدالرحمان چغتائی، شاکرعلی ،استاد اللہ بخش، صادقین، گل جی،مسز احمد، اے ایس ناگی(جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ایک تو وہ مسلم لیگ کے تحریک پاکستان کے دنوں میں پہلے آفیشل مصور تھے، دوسرے قائداعظمؒ نے ان کے سامنے بیٹھ کر اپنا پورٹریٹ بنوایا، قائداعظمؒ روزانہ دس سے بیس منٹ کاانہیں وقت دیتے تھے اور قائد اعظمؒ نے انہیںصرف ایک ہفتے کا وقت دیا تھا، یہ پورٹریٹ 1947ء سے 1980ء تک قائد اعظم کی سرکاری تصویر کے طور پر ہر سرکاری عمارت اور ہر سفارت خانے میں لگی رہی،بعد میں جنرل ضیاء الحق نے قائد اعظمؒ کی سوٹ اور ٹائی والی تصویر کو ختم کر کے جناح کیپ اور اچکن والی تصویر لازمی کردی، حالانکہ قائداعظمؒ نے جو پورٹریٹ خود بنوا کر منظور کیا تھا اس کی قدر منزلت کیا ہوگی!دوسری طرف اگر ضیاء الحق نے جناح کیپ اور اچکن والی تصویر کو سرکاری قرار دیا تھا تو پھر آپ یہ لباس سرکاری تقریبات میں بھی لازمی کر دیں، ہم آج تک یہ طے نہیں کر سکتے کہ ہمارا قومی لباس کیا ہے؟ آج بھی ملک کے دو بڑے کلبوں میں جہاں پر بیورو کریٹس اورسیاستدانوں کی فوج ظفر موج سرشام اور صبح کو بھی آ جاتی ہے وہاں فارمل ڈریس کو ترجیحی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے دعوتی کارڈوں پر صرف اور صرف یہ لکھا ہوا ہے فارمل ڈریس ان فارمل ڈریس ہم نے کبھی شلوارقمیض اچکن اور جناح کیپ کا لفظ نہیں پڑھا،تمام سفارت خانوں کی تقریبات میں بھی فارمل ڈریس ہوتا ہے جبکہ بھارتی وزیراعظم اپنے لباس میں ہوتا ہے۔ یہ بحث طویل ہو جائیگی، واپس اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ ہمارے ہاں سعید اختر، شاہنواز زیدی، مرتضیٰ جعفری، استاد بشیر احمد اور نیر علی دادا، راحت نوید جیسے کئی نامور ہستیاں موجود ہیں ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے، یہ اپنی ذات میں ادارے ہیں، ان سے سیکھنا چاہئے، استاد بشیر احمد نے پوری دنیا میں منی ایچر کو متعارف کرایا، ان کے ہزاروں سٹوڈنٹس آج پوری دنیا میں ہیں۔ 42سال انہوں نے میو سکول آف آرٹ(این سی اے) میں پڑھایا۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
آرٹ لوگوں کے درمیان دشمنی ختم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے امن کی آشا ہو، یا مصور ہوں یہ وہ کاوشیں ہیں جوملکوں کے درمیان نفرتوں، دوریوں کو ختم کرنے کا باعث بنتی ہیں۔
آپ کو یہ پڑھ کر حیرت اور خوشی ہوگی کہ این سی اے نے خانہ فرہنگ ایران کے تعاون سے فارسی کی تدریس شروع کردی ہے۔ یعنی ایک آرٹ کے ادارے کےطلبا ء طالبات اب فارسی زبان بھی پڑھیں گے اور سٹوڈنٹس اس اقدام سے بہت خوش ہیں۔ اب ان کی اردو بھی اچھی ہو جائے گی۔
ایک طرف این سی اے والے ہیں جو اردو کے فروغ اور ترقی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اردو میں نیوز لیٹربھی جاری کیا ہے اور دوسری طرف ہماری حکومت پتہ نہیں کیوں انگریزی کے لئے تڑپتی جا رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کا واقعہ ہے جب امریکہ ’’بہادر‘‘ اور اس کے اتحادی ممالک کی فوجوں نے جنگ جیت لی۔ حالانکہ اگر امریکہ ایٹم بم نہ چلاتا تو یہ جنگ کبھی بھی نہیں جیت سکتا تھا۔ بہرحال تو امریکن جنرل میک آرتھر نے جاپان کے شہنشاہ ہیروہیٹو سے فاتح بن کر ایک سوال کیا کہ بولو تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے تو جاپان کے شہنشاہ ہیروہیٹو نے کہا کہ ہماری زبان، نظام تعلیم اور ثقافت کو چھوڑ کر جو چاہے تباہ کردو ۔ باقی چیزیں تو ہم پھر بنا لیں گے مگر ہماری زبان، نظام تعلیم اور ثقافت ختم ہوگئی تو ہم ختم ہو جائیں گے۔‘‘یہ وہ تاریخی فقرہ تھا جس نے جاپان کو بچا لیا۔ آج ٹیکنالوجی میں جاپان پوری دنیا پر حکمرانی کررہا ہے۔ جاپانی گاڑیوں اور الیکٹرونک کے سامان کی پوری دنیا خریدار ہے۔ جاپان، چین، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، ترکی، جرمنی اور دیگر ممالک نے صرف اور صرف اپنی زبان میں تعلیم و تربیت دے کر ترقی کی ہے۔ افسوس ہمارے ملک میں آنے والے ہر حاکم نے اردو زبان کی ترقی کے لئے کچھ نہ کیا۔ ہمارے پاس اپنی زبان کی ترقی کے حوالے سے کوئی وژن نہیں ۔
محترم ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم میں یونیسکو کی ایک تقریب میں اپنی ایک تقریر کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ اردو میں تقریر کرنا چاہتے تھے جبکہ وزارت خارجہ نے انہیں اردو میں تقریر کرنے سے منع کردیا۔ جبکہ بھارتی نمائندے نے ہندی میں تقریر کی اور وہ تقریر تمام شرکا کے سروں کے اوپر سے گزر گئی۔ مگر مجال ہے کہ کسی نے اعتراض کیا ہو۔
بات پھر کہیں سے کہیں چلی گئی ۔ بات ہورہی تھی پاکستان کے 140سالہ آرٹ کے قدیم ادارے میو سکول آف آرٹ (اب این سی اے) کی۔ اس ادارے کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لئے بڑے میاں صاحب نے اس کے ایک کانووکیشن میں وعدہ کیا تھا۔ آج اس بات کو بھی بیس برس ہونے کو آگئے مگر یہ وعدہ ایفاء نہیں ہوا، دوسری طرف راولپنڈی میں حکومت کا ایک ریسورسسنٹر ہے جسے فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی کے سپرد کیا گیا کہ وہ اس کو آرٹ کا ادارہ بنائے۔مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے۔ اب حکومت اس سنٹر کو کافی بار بنانا چاہتی ہے۔ ایک طرف ہمارے ملک میں سرکاری تعلیمی اداروں خصوصاً آرٹ کے تعلیمی اداروں کی شدید ترین کمی ہے اور دوسری طرف حکومت کافی بار بنا رہی ہے۔ حکومت کافی شاپ/ بار تو کہیں بھی بنا سکتی ہے اور اتنی قیمتی عمارت کو کافی شاپ میں تبدیل کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ حکومت اس ادارے کو کسی آرٹ کے ادارے کے حوالے کرے تاکہ اس قیمتی جگہ کا بہترین مصرف عمل میں لایا جا سکے۔ گزشتہ ہفتے ہم نے تھیلیسیمیا کے بل کے بارے میں بات کی تھی یہ بل دراصل شیخ علائو الدین مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے نے پیش کیا تھا ان کا فون ہمیں آیا تھا اور انہوں نے بتایا کہ وہ جلد ہی اس بل کو قانون کا درجہ دلا دیں گے۔
تازہ ترین