• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’زمین ہموار نہیں،موسم کا اعتبار نہیں۔ لوگ وفادار نہیں‘‘۔ یہ جملہ کسی دل جلے نے اسلام آباد کے بارے میں کہا تھا۔ میں ان تین جملوں میں سے پہلے دو سے تو سو فیصد اتفاق کرتا ہوں لیکن تیسرے جملے سے نہیں۔ اسلام آباد کی زمین واقعتاً ہموار نہیں ہے یہ پورا شہر اونچا نیچا ہے،کہیں کھائی تو کہیں پہاڑی…! موسم کا بھی اعتبار نہیں ہے۔ ابھی شدید بارش ہورہی ہے، تھوڑی دیر بعد سورج کی تپش ہوگی۔ ابھی تیز ہوائیں، آندھی اور طوفان ہیں تو ایک گھنٹے بعد حبس…! ’’لوگ یہاں کے وفادار نہیں‘‘، میں اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتا۔ ممکن ہے جس نے یہ جملہ کسا ہے، اسے بے وفا لوگ ملے ہوں۔ ہمیں تو جو بھی ملا، وفادار، عقیدت رکھنے والا اور مخلص ہی ملا۔ ہر جگہ محبتیں ہی محبتیں ملیں۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اُترتے ہی دنیا بدل گئی۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے ماں کی گود میں آگیا ہوں۔ کراچی ایئرپورٹ پر اُتریں تو دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، قتل و غارت گری، ماورائے عدالت قتل کا خوف، ہڑتال، بھتہ خوری، بوری بند لاشیں، اغوا برائے تاوان، لوٹ مار، بے اطمینانی، خوف اور انجانا خوف… جیسی پریشان کن باتیں دماغ کے نہاں خانوں پر گردش کرنے لگتی ہیں… مگر اسلام آباد میں داخل ہونے کے بعد ایک ’’شہرِ اماں‘‘ میں داخلے کا احساس ہوتا ہے۔ چین، امن، سکون، اطمینان، تحفظ، مسرت، اپنائیت اور سب سے بڑھ کر تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ ’’انسان کی کوئی قیمت ہے‘‘ اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ دیکھنے اور محسوس کرنے کے بعد ہم نے سوچا اور آرزو کی کہ اے کاش! پورا ملک ہی اسلام آباد جیسا ہوتا، پورا پاکستان ہی کینٹ ہوتا، دہشت گردوں کے لئے ریڈ زون ہوتا۔رات 12بجے ہم اسلام آباد ایئرپورٹ سے اسلام آباد کے پوش علاقے ایف ٹین کی طرف جارہے تھے۔ یلو کیب کا ڈرائیور اسلام آباد کی چوڑی، صاف ستھری اور ٹھنڈی سڑک پر گاڑی دوڑائے چلا جارہا تھا۔ کراچی کے عادی ہونے کی وجہ سے اس آدھی رات کو ہمیں یہی خوف لاحق تھا کہ ابھی کسی چورنگی پر پستول ہاتھ میں پکڑے کوئی کہے گا جو کچھ ہے، نکالو، مگر کچھ ہی دیر بعد تحفظ کا احساس ہونے لگا۔ راستے میں جگہ جگہ ناکے تو تھے لیکن کسی نے روکا اور نہ ہی تنگ کیا۔ کسی نے ’’چائے پانی‘‘ کے لئے کچھ مانگا نہ ہی ’’چھوٹے چھوٹے‘‘ بچوں کی دہائی دی۔گاڑی سے اُترے تو ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی۔ موسم انتہائی خوشگوار ہوگیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔ ویسے بھی اسلام آباد میں 6 ملین درخت ہیں۔ پھول بوٹے اور سبزے ہیں۔ ان درختوں اور پھول بوٹوں سے رات کا موسم مزید سہانا اور خوشگوار ہوجاتا ہے۔ میں نے پُرتکلف کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو مکمل خاموشی تھی۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی۔ اسلام آباد اطمینان اور سکون کی ٹھنڈی چادر اوڑھے گہری نیند سورہا تھا۔ میں صرف 3 دن کے لئے آیا تھا چنانچہ صبح ہوتے ہی برادرم جمال عبداللہ عثمان، مولانا شفیع چترالی اور میں… ہم تینوں پشاور کے لئے روانہ ہوگئے۔پشاور سے پہلے ہم جلوزئی کیمپ میں گئے۔ ہمارا خیال تھا کہ شمالی وزیرستان کے متاثرین یہاں بھی ہوں گے لیکن یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ حکومت ان سے بنوں میں ہی ’’نمٹ‘‘ رہی ہے۔ چنانچہ جلوزئی کیمپ میں قبائل سے آنے والے پرانے متاثرین کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ جلوزئی کیمپ 1990ء میں افغان مہاجرین کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ افغان مہاجرین ایک عرصے تک یہاں رہے۔ 2000ء کے بعد افغانوں کو واپس افغانستان بھجوادیا گیا۔ اس کے بعد یہ تقریباً خالی ہوگیا تھا لیکن نائن الیون کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ کیمپ ’’آباد‘‘ ہوگیا۔ اس وقت 6 ہزار سے زائد افراد جلوزئی کیمپ میں موجود ہیں۔ یہ باجوڑ اور دیگر شورش زدہ علاقوں سے آئے ہیں۔ یہاں ایسے متاثرین بھی ہیں جو پانچ پانچ سال سے یہاں آباد ہیں۔ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں قبائلی علاقوں میں مختلف مقامات پر جو آپریشن ہوئے تھے، ان کے متاثرین یہاں پر آ آ کر آباد ہوتے رہے۔ اس کے اکثر اخراجات ’’یونیسیف‘‘ برداشت کرتا ہے۔ یہاں پر جو کچھ ہم نے دیکھا، انٹرویو کئے، حالات کا جائز لیا… اس پر آئندہ کسی نشست میں تفصیلی بات ہو گی۔ جلوزئی کیمپ کے بعد ہم نے سیدھا رُخ بنوں کی طرف کیا۔ بنوں جاتے وقت جگہ جگہ چیک پوسٹیں تھیں۔ تلاشی، جانچ پڑتال اور شناختی کارڈ چیک کرنے اور مختصر سا انٹرویو لینے کے بعد آگے جانے دیا جارہا تھا۔ بڑی مشکل اور انتہائی تکلیف دہ عمل سے گزر کر ہم بنوں پہنچے۔ ایک دن یہاں گزارا۔ مختلف علاقوں میں گئے۔ متاثرین آپریشن کے انٹرویوز کئے، تصاویر لیں۔ اسلام آباد واپس آتے ہوئے راستے میں دریائے کابل کے کنارے رُکے۔ دریائے سوات پر چلتی چیئر لفٹ میں بیٹھ کر دریا کا تاحدِ نگاہ نظارہ کیا۔ تھوڑی دیر دریا کی لہروں سے لطف اندوز ہوئے۔ کھانے کے دوران ملک کی سیاسی، خصوصاً دارالحکومت اور دیگر امور پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ملکی حالات جاننے کے تین ذرائع اور اسباب ہیں۔ اکثر و بیشتر خبریں اور حالات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچتے ہیں۔ دوسرا ذریعہ باخبر حلقے، افراد، سیاستدان، جرنیل، افسر اور بیوروکریٹ ہوتے ہیں۔ ان سے ملاقاتیں کریں، ملکی اور عالمی سیاسی اور دیگر حالات پر گفتگو کریں تو جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں آنے والے حالات کا برعکس ہوتا ہے۔ تیسرا ذریعہ ڈپلومیٹ (Diplomate)حلقے اور سفارت کار ہوتے ہیں۔ آپ دنیا بھر کے ممالک کے سفارت کاروں سے ملیں کسی موضوع پر بات چیت کریں، کچھ سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ آپ یقین نہیں کرپائیں گے کہ اس طرح بھی ممکن ہے۔ ہے نا کتنی عجیب بات! گویا ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھانے کے اور ہوتے ہیں اور کھانے کے اور۔ اسی طرح اصل حالات کچھ اور ہوتے ہیں اور عوام کو کچھ اور ہی بتایا جاتا ہے۔ مجھے یہ تجربہ اسلام آباد کے اس سفر میں حاصل ہوا۔اگلے دن مری جانے کا پروگرام تھا۔ مری پہنچ کر ہم سب کے غم، دُکھ اور حالات یکسر تبدیل ہوچکے تھے۔ ہم نے ٹینشن کم کرنے اور مزید پُرسکون ہونے کی خاطر اپنے موبائل فون بھی بند کردیئے تھے۔ یہاں پہنچ کر یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ کوئی جنت نظیر خطہ ہے۔ آپریشن، دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ، گرمی، حبس، خوف، ڈر… ہر چیز سے بے نیاز ہوچکے تھے۔ مری میں گزرا یہ ایک دن زندگی کے پُرسکون دنوں میں سے ایک تھا۔اس کے بعد ہم نے اسلام آباد کی تفریحی، معلوماتی، سیاحتی… مختلف جگہوں کا وزٹ کیا۔ اسلام آباد کی خاص ڈش اور سوغات ’’سیور فوڈ‘‘ کبھی نہیں بھولے گا۔آخری رات ہم نے دینی اسکالر، باغ و بہار شخصیت، نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن، اسلاف کی علامت جناب برادرم سیّد عدنان کاکاخیل کی معیت میں گزاری۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے ملک شیک بناکر پلایا۔ ہماری خاطر اپنی ساری مصروفیات چھوڑ دیں۔ رات بھر بیٹھے مختلف موضوعات پر بات چیت اور گپ شپ ہوتی رہی۔ واپسی کا بندوبست کیا۔ رخصت کرنے باہر تک آئے۔ دُعائوں کے ساتھ روانہ کیا۔ کراچی ایئرپورٹ پر اُترنے کے بعد پھر دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، قتل و غارت گری، ماورائے عدالت قتل کا خوف، ہڑتال، بھتہ خوری، بوری بند لاشیں، اغوا برائے تاوان، لوٹ مار، بے اطمینانی، خوف اور انجانا خوف… جیسی پریشان کن باتیں دماغ کے نہاں خانوں پر گردش کرنے لگیں !!
تازہ ترین