• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے سنگین واقعات میں مسلسل کمی سے بلوچستان میں معمول کی سماجی تجارتی اور معاشرتی سرگرمیاں بحال ہونے کی وجہ سے ایسا لگتا تھا کہ آبادی کے لحاظ سے ملک کا یہ سب سے بڑا صوبہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشوں اور تخریب کاری کی مجنونانہ کارروائیوں سے بچتے بچاتے اب رفتہ رفتہ امن سکون کے راستے پر چل نکلا ہے، لیکن کوئٹہ میں پیر کی صبح دہشت گردی کے ایک دل دہلا دینے والے سانحے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق وکلا صحافیوں ڈاکٹروں سیکورٹی اہلکاروں اور عام لوگوں سمیت 60 سے زائد بے گناہ افراد کی شہادت اور تقریباً سو سے زائدکا زخمی ہونا اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان سے بچ نکلنے والے عناصر بدستور قومی سلامتی کے درپے ہیں اور موقع ملتے ہی کونے کھدروں سے نکل کر آتش و آہن کا کھیل شروع کر دیتے ہیں۔ پیر کو پہلے انہوں نے منو جان روڈ پر بلوچستان بار کے صدر بلال انور کاسی کی گاڑی کو نشانہ بنایا پھر وکلا ان کی میت لینے سول ہسپتال پہنچے تو وہاں بم دھماکہ کر دیا جس سے مزید قیمتی جانیں لقمہ اجل بن گئیں شہید ہونے والوں میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر باز محمد کاکڑ کئی دوسرے سینئر وکلا اور معروف شخصیتیں بھی شامل ہیں حکومت بلوچستان نے صوبے میں تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا ہےسانحے کی اطلاع ملتے ہی عدالتوں میں کام بند ہو گیا اور وکلا سراپا احتجاج بن گئے وزیراعظم نواز شریف دوسری مصروفیات ترک کر کے کوئٹہ روانہ ہو گئے اور امن و امان کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی انہوں نے ہسپتالوں کی نگرانی اور سکیورٹی بڑھانے اور زخمیوں کے لئے علاج کی بہترین سہولتیںفراہم کرنے کی ہدایت کی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی کوئٹہ پہنچ گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ یہ واقعہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی کارستانی ہے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجرم جہاں بھی ہوں ہم انہیں ڈھونڈ نکالیں گے اگرچہ ابھی یہ تعین نہیں ہو سکا کہ دھماکہ کسی خودکش حملہ آور نے کیا یا ریموٹ کنٹرول سے کیا گیا تا ہم پولیس کا کہنا ہے کہ اس میں 8 کلو بارودی مواد اور بال بیرنگ کااستعمال ہوا ہے دہشت گردوں نے دھماکے کے لئے ایسا وقت منتخب کیا جب دہشت گردی کے ایک اور واقعے میں بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ملنے پر وکلا بڑی تعداد میں سول ہسپتال پہنچ رہے تھے اور میڈیا کے نمائندے بھی موجود تھے ایف سی اور پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے کر مجرموں کی تلاش شروع کر دی ہے بلوچستان میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے کئی گروہ سرگرم عمل ہیں جنہیں بعض غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی عملی مدد حاصل ہے سکیورٹی فورسز نے بڑی حد تک انہیں غیر موثر بنایا ہے مگر افغان سرحد سے جہاں بھارتی قونصل خانوں کی صورت میں دہشت گردوں کے تربیتی مراکز موجود ہیں چور دروازوں سے تخریب کار آتے رہتے ہیں خود صوبے کے اندر موجود تخریبی عناصر بھی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ایسی صورت حال میں حکومت کو سکیورٹی انتظامات پر زیادہ توجہ دینی چاہئے مگر بعض صورتوں میں متعلقہ ادارے بروقت فیصلے نہیں کر پاتے سول ہسپتال کا واقعہ بھی ایسی ہی غفلت کا نتیجہ ہو سکتا ہے حکام نے واقعے کے بعد ہسپتال کے احاطے میں جیمرز لگا دیئے یہ پہلے لگا دیئے جاتے تو زیادہ موثر ہوتے یہ امر بھی خارج از بحث نہیں کہ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد سست روی کا شکار ہے اسے مزید موثر بنانا چاہئے بلوچستان جیسے حساس صوبے میں اس پر عمل اور بھی ضروری ہے ایف سی پولیس اور لیویز کو اس حوالے سے زیادہ متحرک کرنے کی ضرورت ہے کوئٹہ میں دہشت گردی کی تازہ واردات حکومت سکیورٹی اداروں اور عوام سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے مربوط اور مشترکہ کوششوں سے ایسے واقعات روکنے چاہئیں تا کہ انسانی جانوں اور قیمتی املاک کو بچایا جا سکے۔

.
تازہ ترین