• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ امر ربی بڑا ہی خوش کن ہے کہ غیر مسلم ممالک کےانتخابات میں مسلمان ووٹر فتح گر کی حیثیت اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔جمہوریت کی ماں برطانیہ کے دل لندن میں مسلمان مئیر لندن صادق خان کے انتخاب کے بعداب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت امریکہ میںایسے مسلمان امریکی فوجی کپتان نے رائے عامہ ہموار کرنا شروع کردی ہے جو بارہ سال تین ماہ پہلے بغداد میں ساتھی فوجیوں کی حفاظت کرتے ہوئےجاں بحق ہوگیا تھا۔تھوڑی دیر کیلئے یہاں رکتے ہیں اور اس امریکی مسلمان فوجی کپتان کے بارے میں جان لیتے ہیں۔ اس کا نام ہے کیپٹن ہمایوںثاقب معظم خان ۔اسکے والدخضر خان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اسکے گھر پیدا ہونے والاہمایوںخان ان کیلئےدائمی قابل فخر اثاثہ ثابت ہوگا ۔دو سالہ ہمایوں اپنی فیملی کے ساتھ 1980میں امریکہ آیا۔ ہائی ا سکول میں اس نےوہ کام کیا جو عموماً اکثر ٹین ایجرز نہیں کرتے ۔اس نے معذور بچوں کو فن تیراکی سکھانے کا فیصلہ کیا اور ثابت کیا کہ وہ اخلاقی و سماجی ذمہ داری پوری کرنےکا اہل ہے ۔اعلی تعلیم کے بعد وہ ملٹری قانون دان بننا چاہتا تھا اس لئے امریکی فوج میں شامل ہوگیا ۔نفسیات ، قانون اور غیر نصابی سرگرمیوں میں اسکی غیر معمولی صلاحیتوں، مثبت ،مضبوط اور فلاحی رحجانات کی وجہ سے اسے کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ آخر کار2004 کا وہ دن آگیا جس کیلئے قدرت اسے تیار کررہی تھی۔ اسے عراق بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ والدہ غزالہ کسی طور اسے دور کرنے پر راضی نہ تھی ۔ ماہر قانون والدخضر کے تمام تردلائل اور حکمت عملیاں ہمایوں کے عزم اور قدرت کے فیصلے کے سامنے ہیچ ہوگئیں اور ہمایوں خان عراق روانہ ہوگیا۔مدر ڈے کے موقع پر والدہ غزالہ کو فون پر جب اس نے اپنی خیریت کی آخری اطلاع پہنچائی تو والد نے اپنے لخت جگر سےہیرو نہ بننے کی نصیحت کے ساتھ اپنا خیال رکھنے اور جلد واپس آنے کی تلقین کی۔جس پر ہمایوں نے کہا ماں آپ فکر نہ کریں ۔اسے تو ہر حال میں اپنا فرض اد اکرنا تھا ۔آخر کار وہی ہوا جو قدرت طے کرچکی تھی۔ 8 جون 2004 کو وہی دل خراش خبر آگئی جو ماں باپ ہرگز نہیںسننا چاہتے یعنی اپنے بچے کی جوان موت۔ امریکی فوج کا مسلم کپتان ہمایوں بغداد کے نواحی علاقے میںکار بم دھماکے میں جاں بحق ہوا اور پوری امریکی قوم کا ہیرو بن گیا اسے بعد از موت فوجی اعزاز ی میڈل سے بھی نوازاگیا۔ ہمایوں ان 14 فوجیوں میں شامل ہے جنھوں نے نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ کیلئے اپنی جانیں قربان کیں۔بارہ سال پہلے امریکہ کیلئے شہید ہونے والوں کی یادیں عام امریکیوں کے ذہن سے محو ہوچکی تھیں کہ اچانک امریکی صدر کے عہدے کیلئے ری پبلکن امیدوارنےخبروں میں آنے کیلئے امریکہ میں مقیم اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف کارڈکھیلنے کا فیصلہ کرلیا اور پے درپے متعدد متنازع بیانات داغنا شروع کردئیے۔ایک جلسے میں کیپٹن ہمایوں کے والد خضر خان اور اسکی والدہ پر سخت تنقید کی اور امریکی قانون کی کاپی بھی لہر ا دی کہ امریکی قانون کو پڑھئے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ بیانات کے بعد خضر خان کو 28 جولائی کوفلاڈلفیا میںمنعقدہ ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں خطاب کرنے کیلئے دعوت دی گئی جس میں انھوں نےانتہائی پرسکون اور سنجیدگی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی میڈیا اور عوام کے دل جیت لئے۔انھوں نے کہا میںبڑی عاجزی سےآپ کے سامنے سوال ر کھتا ہوں کہ کیا کوئی تارکین وطن تصورکرسکتا ہے کہ خالی ہاتھ امریکہ آئے اور چند ہی سالوں میں اس قابل ہوجائے کہ سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سامنے کھڑا ہوکر اظہار خیال کرے۔یہی وہ امریکہ کی اچھائی ہے جو میں تمام دنیا پر واضح کردینا چاہتا ہوں۔میرا پیغام ہے کہ اتحاد میں ہی برکت ہے۔ ہم مل کر وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔مسائل کا حل دیواریں کھڑی کرنے میں نہیں بلکہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنے میں ہے ۔ہماری لیڈر ہیلری کلنٹن ہے جو فتح کی راہ پر گامزن ہے۔ میں ٹرمپ کو چیلنج کرتا ہوں کیا کہ وہ آرلنگٹن کے قبرستان میں جائے وہاںاسےاپنی پارٹی کا ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے وطن کیلئے اپنی جان قربان کی ہو۔یہ سنتے ہی ڈونلڈٹرمپ نےپہلے سے بھی زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئےاقلیتوں ،عورتوں ،ججوں یہا ںتک کہ اپنی پارٹی لیڈر شپ کی پالیسیوں پر اظہار ناپسند یدگی کیااور کہا کہ خضر کو چاہئے کہ وہ امریکی قانون کی کتاب پڑھے اگر اس کے پاس امریکی قانون کی کتاب نہیں تو اپنی کاپی اسے دے سکتا ہوں۔ٹرمپ نے یہ بھی کہاکہ خضر کی تقریر بھی کوئی تقریر تھی جس میں اسکی بیوی ایک لفظ تک نہ بولی یہی اسلام کی اصل شکل ہے جس میں عورت کی زبان بندی کی جاتی ہے۔بعد ازاں اس نےمسلمانوں پر زبانی حملوںکا سلسلہ بھی جاری رکھا۔جس کے جواب میں غزالہ خان نے جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو آئوٹ کلا س کیا وہ قابل تحسین ہے۔اس نے کہا ٹرمپ اسلام سے بے بہرہ اور قربانی کی روح سے عاری ہے۔بیٹے کی موت پر ابھی تک رنجیدہ ہوں اس لئے ڈیموکریٹک کنونشن میں خاموش رہی ۔ ٹرمپ میرے خیالات جاننا چاہتا ہے تو سن لو ڈونلڈ امریکہ سمیت پوری دنیا نے بغیر لب کشائی کئے میری تکلیف کو محسوس کر لیا ہے۔میں اس بیٹے کی ماں ہوںجو سنہری ستارہ تھا۔میرا بیٹا 2 دو سال کا تھا جب وہ امریکہ آیا امریکہ سے محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر رضانہ کارانہ طور پر فوج میں گیا۔ تم کیا جانو انسان کوئی بھی قربانی تو دے سکتا ہے لیکن اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے قربان ہوتے دیکھنا اس کیلئے ناقابل برداشت ہے ۔عراق جانے سے پہلے ہم نے بطور والدین چاہاتھا کہ اس کا جانا ملتوی یا منسوخ ہو جائے لیکن ہمایوں نہیں مانا اس کا کہنا تھا کہ وہاں جانا میری ڈیوٹی ہے۔جہاز پر سوار ہونے سے پہلے اس کا گھر کی طرف نظر ڈالنا ،اسکی خوشی میں بھلا نہیں پائوں گی اس کا کہنا تھا مت گھبرائیں ماما سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا ۔آج امریکہ سمیت دنیا بھر کے رد عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ واقعی وہ درست کہتا تھا کہ ماما سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا اور آج ایسا لگتا ہے کہ سب ٹھیک ہوگیا ہے۔ہمارا ہمایوںہم سے مخاطب ہے اور بہت خوش اور مطمئن نظر آتا ہے۔امریکی صدر کے عہدے کیلئے انتخابی مہم انتہائی اہم اور دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ۔کیپٹن ہمایوں اور خضر خان کی واضح حمایت کے بعدمیں ہیلری کلنٹن کو پوری ڈیمو کریٹ قیادت کی بھی اشیر باد حاصل ہے ۔ اگرچہ پہلے امریکی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا لیکن ہیلری کلنٹن کی واشگاف تحسین کے نتیجے میں امریکہ میں مقیم پاکستانی اور مسلم برادری کی طرف سے انھیںمکمل حمایت کا عندیہ ملتے ہی میڈیانے بھی رائے تبدیل کرنی شروع کردی ہے۔ڈیموکریٹس کی مقبولیت کا گراف بھی تیزی سے اوپر جارہا ہے۔باراک اوباما نے بھی پیش گوئی کردی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ امریکی صدر نہیں ہو سکے اسکی وجہ یہ ہے کہ امریکی جانتے ہیں کہ امریکی صدارتی عہدہ سنجیدہ امیدوار کا متقاضی ہے اور مجھے امریکی رائے عامہ پر پورا یقین ہے کہ وہ ایک سنجیدہ امیدوار کو ہی اس عہدے پر متمکن کر ے گی۔


.
تازہ ترین