• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کا سیاسی ماحول آئندہ ایک ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر شاید شدید ترین سیاسی نشیب و فراز سے گزرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ عمران خان کا مجوزہ لانگ مارچ، ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کا ’’انقلاب‘‘ اور ایم کیو ایم کا ’’افواج پاکستان سے اظہار یکجہتی‘‘ ایسے اظہاریئے ہیں جن کے پھیلتے سایوں سے انکار ممکن نہیں، نواز لیگ نے گزرے ایک برس میں دو ایسے طرز عمل پوری لاپرواہی سے اپنائے رکھے جن میں تکبر کے عنصر نے بنیادی کردار ادا کیا، یہ تھے عوام کی اشیائے خورو نوش، علاج معالجے کے عمومی اخراجات اور امن و امان سے کلیتہً ایک خود سر خود فراموشی دوسرے اس جماعت کے چند وزراء کا عوام کی تکالیف، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، عدم تحفظ جیسے حساس معاملات کے بارے میں توہین آمیز انداز گفتگو، بالکل اس پیاسے جٹ کی طرح جس کے ہاتھ میں پانی کا کٹورا آ گیا اور وہ پانی پی پی کر بار بار ’’آپھر‘‘ جاتا تھا ، سیاسی مثالوں سے میں نے صرف نظر کیا کہ اس سلسلے میں ان چند وزراء نے لوگوں کو ذہناً بے حد مشتعل کر دیا۔
ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی پاکستان آمد کے موقع پر 14یا 15افراد کی ’’شہادتوں‘‘ کے وقوعے اور آج مورخہ 8 جولائی 2014تک 21دن گزرنے کے باوجود ایف آئی آر درج نہ ہونے جیسے الم انگیز واقعات نے، پنجاب میں گزشتہ تیس یا چھبیس برسوں میں پہلی بار شریف خاندان کو حقیقی مصیبت سے دوچار کر دیا ہے، یہ پس منظر ہی شائد شدید آئندہ ایک ڈیڑھ کے اندر شدید ترین سیاسی نشیب و فراز کی یقینی قیاس آرائی کا موجب ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے اتنے غیر یقینی حالات میں وطن کی بقا اور اس کے ریاستی نظام کے جمہوری تسلسل کے حوالے سے، اپنی روایت کے عین مطابق ملک کے حکمرانوں اور عوام کو مطلوبہ تقاضوں کی جانب متوجہ کیا ہے۔ میری مراد پاکستان پیپلز پارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل سنیٹر میاں رضا ربانی کی جانب سے پیش کردہ اس 14نکاتی چارٹر سے ہے جسے پی پی نے ’’جمہوریت کی طرف سفر کے لئے بے نظیر بھٹو ماڈل‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس چارٹر کو ایک کھلے خط کی صورت میں جاری کرتے ہوئے میاں رضا ربانی نے کہا!
’’میرا یہ کھلا خط کاشت کاروں، دہقانوں، محنت کشوں، ہنر مندوں، فنکاروں، دکانداروں، کلرکوں، طالب علموں، اساتذہ، دانشوروں، صحافیوں، ادیبوں، سیاسی کارکنوں، نوجوانوں، پیشہ ور ماہرین اور مردوں و خواتین کے نام ہے۔ وہ وفاق کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔ بے نظیر بھٹو ماڈل کے 14نکات یہ ہیں: (1)لندن کے میثاق جمہوریت پر نظر ثانی کر کے جمہوری قوتوں کے درمیان ایک نیا معاہدہ کیا جائے تاکہ 1973ء کے آئین کے تناظر میں جمہوری قوتوں اور پارلیمانی ڈھانچے کے درمیان توازن قائم ہو سکے۔ (2) 1973ء کے آئین کے تحت شروع ہونے والی وفاقیت اور اختیارات کی منتقلی کے عمل کو مکمل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا جائے۔ (3) پارلیمان کی بالادستی کی ضمانت فراہم کی جائے قومی سلامتی، قومی تحفظات، وفاقیت، سیاسی اور آئینی اصلاحات جیسے تمام تر معاملات آئین کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے طے کئے جائیں (4) سول و ملٹری تعلقات کی ازسر نو تشریح و توضیح کی جائے اور اس حوالے سے پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کی سطح پر مکالمہ کے ذریعہ ایک نظام وضع کیا جائے۔ (5) ایڈہاک ازم ختم کیا جائے۔ گڈ گورننس سروسز اصلاحات کا نفاذ کیا جائے۔ (6) عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔ (7) عدم برداشت، شدت پسندی اور دہشت گردی کی تمام اشکال و مقاصد کے خلاف قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ (8) آئین کے مطابق اقلیتوں، خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ (9) ورکنگ کلاس اور متوسط طبقے کے معاشی و سیاسی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ (10) ملازمتوں کی فراہمی میں کوٹہ سسٹم اور میرٹ کے درمیان اعتدال برقرار رکھنے کے لئے آئین کے آرٹیکل38۔ج کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ (11) تعلیم کے حق سے متعلق آئین کے آرٹیکل 25۔ اے کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ جامعات کی خود مختاری کے احترام کے ساتھ ساتھ صوبوں کو اس امر کی اجازت دی جائے تاکہ وہ عسکریت اور بنیاد پرستی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے اور تاریخ کی مسخ شدہ شکل بیان کرنے والے نصاب تعلیم میں تبدیلی لا سکیں۔ (12) قومی ثقافت کے قیام کی خاطر علاقائی ثقافتوں کو فروغ دیا جائے (13) عامل صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اور آزادیٔ اظہار سے متعلق آئین کے آرٹیکل 19۔ اے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور (14) معدنیات، تیل اور گیس کے مساویانہ حقوق ملکیت دینے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 172(3) پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
میاں رضا ربانی نے اپنی بات یہاں پر ختم کی کہ ’’4 اور 5؍ جولائی 1977ء کی درمیانی رات جنرل ضیاء الحق نے جمہوری حکومت پر شب خون مارا۔ یہ دن صرف اس خطے بلکہ دنیا کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ 5؍ جولائی کے مارشل لاء کے اثرات پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔‘‘
کسی دانشور نے کہا تھا ’’بھٹو صاحب کو ایٹمی پروگرام کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ اگر وہ زندہ رہتے تو افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ طے پا جاتا اور سابق سوویت یونین کبھی افغانستان پر حملہ نہ کرتا، افغانستان پر حملہ نہ ہوتا تو خطے کی سیاست نہ بدلتی، سوویت یونین قائم رہتا اور امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور نہ بنتا۔ ایک انسان کے قتل نے پاکستان کو بہت سزا دی۔‘‘ ’’یہ اگر‘‘ اب تاریخ کا حصہ ہے، اس ’’اگر‘‘ سے محروم ہو جانے کے سبب ہمارے اوپر وہ سزا بیت رہی ہے۔ 5؍ جولائی 1977ء سے جس پاکستان کی ابتدا ہوئی وہ اس نظریاتی گروہ اور افراد کا پاکستان تھا جس کے لئے ’’دائیں بازو‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، سرمایہ دار بطور طبقہ اس کے ساتھ ہوتا ہے، جاگیردار اور معاشرے کے مختلف جابر عناصر اس کے لئے مہمیز کا کام دیتے ہیں، چنانچہ ان 37برسوں میں وہ پاکستان اس فصل کی کاشت کر رہا ہے جس کا تعلق ملک کے اندر مکمل انارکی اور اپنے ہی وطن میں دہشت گردی کے ہاتھوں لاکھوں مہاجرین کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، جیسا کہ گزشتہ دنوں عرض کیا جا چکا کہ ضیاء الحق کی اجتماعی مذمت ہونی چاہئے تھی۔ جب تک یہ قوم بھٹو کی قبر پر جا کے معافی کی طلب گار نہیں ہوتی پاکستان اس بے گور و کفن لاش کے بوجھ تلے دبا رہے گا، اُس سے یہ طبقے معذرت طلب کریں، اسے انصاف دلا کر تاریخ میں نا انصافی کے کٹہرے سے نکالا جائے، پاکستان کو ایک لبرل جمہوری ملک کے طور پر دوبارہ واپس لانے کی کوشش کریں، وہ پاکستان جو 4جولائی 1977ء تک موجود تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ’’جمہوریت کی طرف سفر کے لئے بے نظیر بھٹو ماڈل ‘‘ کے قیام کی جدوجہد کا سندیسہ دیا ہے گو اب زمینی حقائق اس چانس کی نہایت ہی موعوم سی امید کا دیا جلاتے ہیں۔ پاکستان دائیں بازو کے مکمل ترین نظریاتی اور مذہبی نمونے ضیاء الحق کے وجود اور فکری و عمل اقدامات کے بعد رفتہ رفتہ جس قسم کے بین الاقوامی طرز عمل کا عادی ہو کر عالمی برادری میں مشکوک ہوتا چلا گیا، اندرونی سطح پر، جس دیدہ دلیر مذہبی انداز فکر کے باعث دہشت گردی کے خلاف جانیں قربان کرنے والے اپنے ہی فوجیوں کے بارے میں ’’وہ شہید نہیں ہیں‘‘ کے الفاظ سننے اور برداشت کرنے کی قومی شکست کا شکار ہوا، اس کے بعد گو پاکستانی عوام اور افواج پاکستان ملک اور معاشرے کو اس موت آسا چنگل سے نجات دلانے کے لئے شاید آخری کوشش کر رہے ہیں، تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کو شکست دینے کے باوجود پاکستان اب دائیں بازو کے مذہبی غلبے سے شاید ہی نجات پا سکے تاآنکہ قدرت کے کسی اجتماعی احتسابی عمل کا سیلاب اس ماحول کو بہا لے جائے، انسانی سطح پر پاکستان کی اس گروہ سے نجات ممکن دکھائی نہیں دیتی!
’’جمہوریت کی طرف سفر کے لئے بے نظیر بھٹو‘‘ کی یاددہانی اس جماعت کے عظیم سیاسی وژن کا تسلسل ہے جس کے بارے میں بین الاقوامی سامراجی علامت، قبضہ گیر طاقت، دنیاوی لحاظ سے علم و سائنس میں اس صدی کی سطح پر سپر ترین علامت، امریکہ کی عدالت اپنی خفیہ ایجنسیوں کو ’’جاسوسی‘‘ کی اجازت دیتی ہے؟ کیوں؟ یہاں دوسری سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں، ان مذہبی جماعتوں کے غلغلے کی تو شاید کوئی حد نہیں جو اپنے طور پر امت مسلمہ کی ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ سے کم کسی وعدے کو اپنے معیار سے فروتر سمجھتی ہیں، وہ بھی ہیں جنہوں نے کسی ملک کے ’’قلعے‘‘ پر جھنڈا لہرانا ہے مگر عالمی طاقت کی عدالت ’’جاسوسی‘‘ کی ضرورت پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے محسوس کرتی ہے، آخر کیوں؟ دوسری سیاسی جماعتوں کی نفی مقصود نہیں، رہ گئیں مذہبی جماعتیں تو ان کی اپروچ چونکہ دنیاوی نظام میں کارفرما قدرتی اصولوں کی مکمل ضد ہے اس لئے انہیں زیر بحث لانے کی تو ضرورت ہی نہیں، وہ وقت کے بے آب و گیا صحرا کی نذر ہوتی جا رہی ہیں حتیٰ کہ پاکستان کی آئندہ نسلیں انہیں محض ایک گم گشتہ داستان پارینہ کے طور پر ہی پڑھیں اور یاد رکھیں گی۔ امریکہ سمیت عالمی طاقتیں جانتی ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی بطور قومی سیاست جماعت کے اس فکر اور وژن کی مکمل علامت ہے جن کے نظریات اور اعمال قوموں کو ریاستی اور معاشرتی سطح پر ایک ترقی پسند لبرل جمہوری دنیا کی تشکیل کے ادراک سے بہرہ ور کر سکتے ہیں۔ کیا ہم اس 14نکاتی چارٹر کی جانب بڑھ سکتے ہیں؟ حالات کا نارمل تاریخی تجزیہ ’’وقت گزر جانے‘‘ کا بگل بجا رہا ہے، معجزے کی بات دوسری ہے! آیئے! ہم سب دست بہ دعا ہو جائیں!
تازہ ترین