• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں واقع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے مناظر بالخصوص جب قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس جاری ہوں بڑے رُوح پرَور ہوتے ہیں۔ مرکزی ہال میں تو کُجا اطراف کے تمام راستے بھی نمازیوں سے اس طرح پُر ہوتے ہیں کہ گزرنے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی، بلکہ قدم رکھنے کی بھی نہیں، نمازی سِمٹتے رہتے ہیں صفیں بڑھتی رہتی ہیں۔۔ قومی اسمبلی کےا سپیکر، سینٹ کے چیئرمین، وفاقی وزراء، ارکان پارلیمنٹ اور اعلیٰ حکام سے لے کر دفتری تک سب شانے سے شانہ جوڑ کر ایک دوسرے کے لئے جگہ بناتے ہیں۔۔ یہاں نہ تو مَسلک کا کوئی امتیاز نظر آتا ہے اور نہ ہی نماز کی ادائیگی کے طریقے میں کوئی تفریق۔۔، وزیر کے ساتھ چپڑاسی اور سیکرٹری کے ساتھ ڈرائیور۔۔ دنیاوی عہدوں، مرتبوں اور مناصب سے بے نیاز ہو کر سب ایک ہی صَف میں کھڑے ہوتے ہیں۔۔ ایک ہی طرح رکوع میں جاتے ہیں اور ایک ہی طرح سجدے میں، مَسلک کی ہم آہنگی کا یہ مظاہرہ قابل دید ہی نہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہوتا ہے۔۔ کہ کسی کو اس بات سے نہ تو کوئی سُروکار ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اعتراض کہ۔۔ کون ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ رہا ہے اور کون ہاتھ چھوڑ کر۔۔ کس کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر ہیں اور کس کے ٹخنے ڈھکے ہوئے ہیں۔۔ امامت کون کر رہا ہے وہ کس مسلک کے امام کی اقتداءمیں نماز کی ادائیگی کر رہے ہیں بس اللہ سبحان تعالیٰ کے سامنے حاضری اہم ہے۔
پارلیمنٹ ہائوس کے اندر مسجد سے ملحق ہی امام صاحب کا دفتر بھی ہے اور حُجرہ بھی ہے۔۔ یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن جب اسلام آباد میں موجود ہوں اور قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بھی ہو تو وہ نماز جمعہ کی ادائیگی پارلیمنٹ کی مسجد میں ہی کرتے ہیں اور پھر اپنے رفقاء کے ہمراہ حُجرے میں قیلولہ فرماتے ہیں۔ پارلیمنٹ ہائوس میں باقاعدگی سے آنے والے ذرئع ابلاغ کے نمائندوں کو خبر کر دی جاتی ہے۔۔ وہ بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں اور پھر مولانا ہلکی پھلکی غیر رسمی گفتگو اور لطیف جملوں کے تبادلے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے نمائندوں کے سوالوں کے جواب میں ملک کی سیاسی صورتحال پر اظہار خیال بھی کرتے ہیں۔ ہر چند کہ ارکان پارلیمنٹ میں مولانا فضل الرحمن کے علاوہ بڑی تعدادمیں عالمِ دین، مذہبی رہنما اور دینی جماعتوں کے زُعماء شامل ہیں لیکن یہ موقع صرف مولانا فضل الرحمان ہی حاصل کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں واقعہ یہ ہوا کہ مولانا فضل الرحمان نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد جب مسجد کے حُجرے میں میڈیا کے نمائندوں سے روزہ بہلانے کے انداز میں گپ شپ کر رہے تھے۔ بعض دوسرے سیاسی قصے کہانیوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ روز قبل چوہدری شجاعت کی اپنی قیام گاہ پر آمد اور اُن سے ہونے والی گفتگو کو بھی دہرایا جس میں بقول مولانا کے ’’چوہدری صاحب نے اپنی سیاسی محرومیوں کا تذکرہ بھی بیچارگی اور معصومیت کے مخصوص انداز میں کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ بوجوہ سیاسی سکت نہ ہونے کے باوجود انقلاب کا نعرہ لگانے پر مجبور ہیں‘‘ یہ اوراس ملاقات کے حوالے سے بعض دوسری باتیں بھی جو اُن کی سنجیدہ سیاسی گفتگو کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی شگفتہ بیانی بھی اخبارات میں رپورٹ ہو گئی۔ پھر ظاہر ہے کہ چوہدری شجاعت حسین نے بڑے اہتمام کے ساتھ ان باتوں کی تردید بھی کرائی اور مولانا سے شکوہ بھی کیا ۔
مساجد کے حُجروں، مہمان خانوں اور ڈرائنگ رومز کے اندر سیاسی مشاورت کی روایات پرانی ہیں۔ تاہم یہ نوابزادہ نصراللہ خان، پیر صاحب پگارا، غلام مصطفیٰ جتوئی، نواب اکبر بگٹی اور اِن جیسے سیاستدانوں کے دم قدم سے آباد تھیں۔ ان جیسے سربُرآوردہ سیاستدانوں کی محفلوں میں صرف سننے کو ہی نہیں بلکہ سیکھنے اور سمجھنے کو بھی بہت کچھ ملتا تھا۔ لاہور میں 5-A اچھرہ کے زیلدار پارک میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکری نشست سے لے کر نیکلسن روڈ پر پر نوابزادہ نصراللہ خان کی سیاسی بیٹھک تک۔ متعدد مقتدر سیاستدانوں کے سیاسی ٹھکانے نہ صرف سیاسی کارکنوں کی تربیت گاہ کی حیثیت رکھتے تھے بلکہ اُس دور کے اخبار نویس بھی یہاں سے استفادہ کرتے تھے۔ بلوچ سردار نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے خشک میوہ جات اور درجنوں مسلح بلوچ محافظوں کے ہمراہ اسلام آباد کے بلوچستان ہائوس میں پڑائو ڈالتے تو اپنی محفل میں تاریخ کے اوراق یوں پلٹتے کہ بلوچستان کے لوگوں کی محرومیوں کے پس منظر سے لے کر وہاں کے پہاڑوں سے بھی شناسائی سی محسوس ہونے لگتی۔ خود مولانا فضل الرحمان کےوالد محترم حضرت مولانا مفتی محمود راولپنڈی آتے تو کشمیر روڈ صدر میں واقع جامعہ اسلامیہ میں قیام فرماتے جہاں قاری سعیدالرحمن جو جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن بھی بنے ان کے میزبان ہوتے اسلامی جمہوری اتحاد کی تحریک میں مولانا مفتی محمود تمام سیاسی اور حکومتی رابطے اسی مسجد میں کیا کرتے تھے۔ فرائض منصبی کے لئے مسلسل رابطے رکھنے والے اخبار نویس جب ایک بااعتماد دوست کی حیثیت اختیار کر لیتے تو پھر اکثر اوقات مشاورت میں انہیں بھی شامل کر لیا جاتا تھا اور وہ ہمیشہ اعتماد پر پورا اترتے۔ لیکن اُس دور کی اخبار نویسی اور آج کی ’’برقی صحافت‘‘ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جس طرح کل کے صحافی اور آج کے اینکر میں۔
صحافی کا سینہ اعتماد میںلی گئی خبروں اور واقعات کا دفینہ ہوتا ہے اور وہ بڑی استقامت، دیانتداری اور تحمل مزاجی سے رازوں کے خزینے کو سینے میں سمائے ہوتا ہے اور موزوں وقت پر انہیں منکشف کرنے کے کرب سے گزرتا ہے۔ اگر کسی نے اعتماد میں لے کر یا پھر ’’آف دی ریکارڈ‘‘ کوئی خبر بتا دی تو صحافتی ہی نہیں بلکہ اخلاقی تقاضوں کے پیشِ نظر بھی وہ اسے منظر عام پر نہ لانے کا پابند ہوتا ہے۔ لیکن سیاستدان ہو یا کوئی بڑا افسر، اخبار نویس کے ساتھ اعتماد کا یہ تعلق کم کم ہی ہوتا ہے۔ اب اگر میڈیا کے 20,25 نمائندوں کے سامنے کوئی لیڈر آف دی ریکارڈ گفتگو کرے گا تو کون کون اس کی پاسداری کرے گا؟ یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو راز دارانہ بات یہ وعدہ لے کر بتائے کہ ’’بھائی دیکھ لیں یہ بات صرف تمہیں بتا رہا ہوں بس شہر سے باہر نہ جائے‘‘۔پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد کے حُجرے میں مولانا فضل الرحمان نے بھی یہی کچھ کیا۔ چوہدری شجاعت کی تردید اور وضاحت کے بعد خود مولانا صاحب بھی شاکی ہیں کہ ان کی غیر رسمی گفتگو کو خبر بنا کر شائع کر دیا گیا اور انہیں چوہدری شجاعت کے سامنے ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا صاحب اس پربرہمی کا اظہار ضرور کریں لیکن اپنی ذمہ داری کا بھی تو تعین کریں۔ اُن کی معاملہ فہمی، دوراندیشی اور ایک زِیرک سیاستدان ہونے کا ایک زمانہ معترف ہے جس کی مثالیں محترمہ بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے اقتدار کے ادوار میں جا بجا ملتی ہیں۔ ان کی سیاسی صلاحیتوں کے معترف ان کے سیاسی مخالفین بھی ہیں۔ اگر مذکورہ واقعہ پر وہ کبیدہ خاطر ہیں تو یہ اُن جیسے وضعدار سیاستدان کے لئے فطری سی بات ہے۔ لیکن یہ بھی سوچنا ہو گا کہ کیا اخلاق و اقدار کے تمام ضابطے صرف میڈیا کے لئے ہی ہیں؟ کچھ ضابطے اور بالخصوص اخلاقی ضابطے تو سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام شعبوں کے لئے ہونے چاہئیں۔ سیاستدانوں کو بھی چاہئے کہ وہ ازخود ہی اپنے لئے کوئی ضابطہ اخلاق بنا لیں کہیں ایسا نہ ہو کل انہیں بھی حکومت اور اداروں کی جانب سے ضابطہ اخلاق بنانے کے لئے احکامات مل جائیں اور یہ ہدایت بھی۔۔۔ کہ اگر سیاستدانوں نے مقررہ مدت تک ضابطہ اخلاق نہ بنایا تو پھر حکومت خود یہ کام کرے گی۔جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق کی جانب سے افطار ڈنر کا دعوت نامہ ایک دوسرے پہلو کی طرف لے جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات جناب شمسی کی وساطت سے اس دعوت نامے کے ایس ایم ایس میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ’’یہ افطار ڈنر میڈیا کے چُنیدہ نمائندوں کے لئے ہے اسکی کوریج کی ضرورت نہیں۔ مولانا سراج الحق دل کی باتیں کرنا چاہتے ہیں اس لئے انہیں دل میں ہی رکھیں‘‘ (بہت خوب)
کوہاٹ سے ایک دیرینہ دوست نے جو کسی زمانے میں لندن میں پاکستانی سفارتخانے سے وابستہ تھے، اپنے صاحبزادے کی شادی کا کارڈ بھیجا ہے مزید تفصیلات کے علاوہ کارڈ کے زیریں حصے میں ایک نمایاں نوٹ جلی حروف میں تحریر ہے۔
’’ خبر دار۔ فائرنگ بند ہے ۔۔ دعوت کارڈ ہمراہ ہو گا‘‘
تجسس نے فوری طور پر فون کرنے پر مجبور کیا تو بتایا کہ ’’شادی کی تقریب میں ہمارے ہاں خوشی سے ہوائی فائرنگ کلچر ہے اور لازمی ہوتی ہے لیکن حالات خراب ہیں کوئی غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے اس لئے پیشگی اطلاع دے دی ہے کہ فائرنگ بالکل بند ہو گی۔ شادی کارڈ ہمراہ لانا اس لئے ضروری کیا ہے کہ حالات بہت زیادہ خراب ہیں بن بلائے مہمانوں میں کوئی شدت پسند بھی داخل ہو سکتا ہے اس لئے کارڈ ساتھ رکھنا ہو گا‘‘ حالات ہمیں کس طرف لے کر جا رہے ہیں؟ واقعات ہماری روایات، اقدار اور کلچر پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں؟؟
تازہ ترین