• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آجکل پاکستان میں نام نہاد آزاد میڈیا اور بہت دنوں سے اس کی آزادی کا کریڈٹ فوجی آمر مشرف کو دینے اور کئی اپنے اداروں سے نہیں کہیں اور سےتنخواہ دار صحافی اور اینکر پرسن اس کا کریڈٹ خود کو دینے کے دعوے کرتے دکھائی اور سنائی دیتے ہيں۔ یعنی کہ خود اپنے آپ بقلم خود کاندھے تھپکاتے ہوئے ولن ہوتے ہوئے خود کو ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔یہ لوگ بیچارے اخبار کے قاری کے کمزور حافظے سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اخبار بھی آج کی یا تاریخ حال کا ہی نام ہوتا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں میڈیا کتنا آزاد ہے یہ آپس کی بات ہے اور تا ہنوز قابل مباحثہ ہے۔ بس آزاد عدلیہ پر قدغن اور ججوں کی قید و بند کے خلاف میڈیا کا آواز اٹھانا تھا مشرف کی دی ہوئی آزادی کے دعووں کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹ پڑی جی ہاں میڈیا آزاد ہے صرف معزول کی ہوئی حکومتوں اور زیر عتاب سیاستدانوں کے خلاف۔ عسکریوں،عسکریت پسندوں پر لکھنے چھاپنے اور شائع کرنے کو نہیں۔ کیا ہم آج بھی فوج کو مقتدر ادارہ، انٹیلی جنس ایجنسیوں کو’’حساس ادارے‘‘، مارشل لا کب کا جا چـکا لیکن اب بھی’’قانون نافذ کرنے والے ادارے‘‘ نہیں لکھتے، ریپ کی شکار خواتین کے تو رنگین فوٹو ان کے ناموں کے ساتھ شائع کرتے ہیں لیکن انکے ملزمان اور رئپسٹوں کا اگر نام بھی شائع کرتے ہیں تو فقط انکے نام کا پہلا تہجی حرف۔ جیسا پچھلے دنوں آپ نے دیکھا کہ اقدام قتل کے واقعے میں جو پاکستانی افق پر طوفان اٹھایا گیا تھا وہ تا حال جاری ہے۔لیکن جتنی بھی کنٹرولڈ یا محدود آزادی صحافت ہے اسکے پیچھے یقین جانیے نہ مالکان کا ہاتھ ہے اور نہ ہی کسی فوجی یا غیر فوجی آمر کا اور نہ ہی ایسے کاغذی میڈیائی سورمائوں کا جنکی تنخواہیں چھ چھ سات سات صفروں میں ہیں۔ پاکستان میں آجکل جیسی بھی ہے اس آزادی صحافت کے ہیرو کوئی اور تھے۔ وہ معروف اور گمنام سپاہی جمہوریت اور شہری و پریس آزادیوں کے فاقہ مست ملنگ مرد وخواتین قلندر کوئی اور تھے۔ جیلوں، کال کوٹھریوں عقوبت خانوں کو آباد کرنے اور بیڑیاں زنجیریں پہننے والے فوجی عدالتوں میں اونچی سزائيں اور کوڑے کھانے والے خاور نعیم ہاشمی، اقبال جعفری، اور ناصر زیدی وغیرہ،شہربدریاںاورملک بدریاں برداشت کرنے والے کوئی اور تھے، وہ دکھ سہنے والی بی فاختائیںکوئی اور تھیں اور اب انڈے کھانے والے کوے کوئی اور جنس ہیں۔ وہ لال پھریروں والے کوئی اور تھے یہ لال ٹوپی والے مسخرے کوئی اور ہیں۔ اصل ہیرو وہ تھے جنکے لئے فیض نے کہا تھا : یہ کون سخی تھے جن کے لہو کی اشرفیاں چھن چھن کر۔ وہ سیاسی کارکن، وہ مزدور، وہ ہاری، وہ عامل صحافی ، وہ دانشور ، وہ خواتین و مرد کون تھے جو اصل ہیرو تھے آزادی صحافت کے۔ اب تو پاکستان میں تحریک آزادی صحافت اور اس پر قدغنوں اور ملک میں سنسر شپ کے اکلوتے مورخ ضمیر نیازی بھی نہیں رہے اور نہ ہی میری مدیروں کی مدیر اور پاکستان کی بہادر صحافی رضیہ بھٹی جس نے ایک دفعہ اپنے جریدے ’’نیوزلائین‘‘ میں اپنے اداریے میں کراچی میں1992 کے فوجی آپریشن پر لکھا تھا: وہ اور ہیرو ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے ٹینکوں پر چڑھ کر سچ کی وادی کے سفر کو نکلے ہیں۔’’ اب یہ جھوٹے سچ کی وادی کے سفر کو نکلے ہوئے صحافیوں اینکروں کو کون آئینہ دکھائے۔ تاریخ کچھ اور دکھلاتی ہے۔کیا کتنوں کو وہ بے چہرہ کل بھی بیروزگار سیاسی کارکن اور آج بھی بیروزگار صحافی بیمار ارشاد چنہ یاد ہے جو فوجی آمر جنرل ضیا کی پریس پر آمرانہ پابندیوں کے خلاف صحافیوں کی تحریک میں گرفتاری پیش کر کے سمری فوجی عدالت سے سزایاب ہوا تھا۔ اسی طرح شبیر بیدار بھٹو تھا۔ سندھ سے پلیجو کی عوامی تحریک کے درجنوں ہاری مرد اور خواتین کارکن تھیں بلکہ کم عمر لڑکے جو صحافیوں کی تحریک کی حمایت میں نکلے تھے۔ (مجھے ایسے اینکروں کی عقل پرہنسی اور رحم آتا ہےجو عمر رسیدہ لیکن سندھ اور پاکستان کے یگانہ روزگار دانشور سیاستدان اور لکھاری رسول بخش پلیجو سے چینلوں پر بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔ آپ ان سے نقطہ نظر پر شدید اختلافات ضرورکرسکتے ہیں) ۔ اسی طرح پنجاب سے وہ لائل پور کے بائیں بازو کے صحافی اور شاعر مسعود قمر جو آجکل سوئیڈن میں ہوتے ہیں کتنوں کو یاد ہیں جنھوں نے اپنے ساتھیوں سمیت کراچی آکر صحافیوں کی آزادی ٔتحریک میں گرفتاری پیش کی تھی(مسعود قمر نے حال ہی میں اپنی قید کے ان دنوں پر مبنی ڈائری سوشل میڈیا پرلکھی ہے) پولیس و جیل حکام کے تشدد سے گزر ےتھے ۔ فوجی عدالت سے ایک سال سزا پاکر سندھ کی جیلوں میں قید و بند کے دن اور بعد میں ایک طویل لمبی بیروزگاری تھی۔ اسی طرح روزنامہ مساوات لاہور کے بابا چشتی اور ہمراز احسن اور ایسے کئی عامل صحافی تھے۔ بابا چشتی نے ضیا کی فوجی امریت کے دنوں میں موقع پرست صحافیوں پر کہا تھا:
ہوتا رہے کسی کی جواں حسرتوں کا خون
تم انگلیوں پر رنگ حنا دیکھتے رہو
پی ایف یو جے یا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے منہاج برنا، عثمانی صاحب، عبدالقیوم ، ابراہیم جلیس، علی احمد خان، جی این مغل، ارشاد رائو،اقبال جعفری، قیصر بٹ، اطہرعباس (جو جلاوطنی میں گئے)، جوہر میر، حسین نقی، غنی درس، زاہد سموں،طارق اشرف، ابراہیم منشی، عبدالواحد آریسر، اللہ بچایو مرناس ، انور پیرزادو، ناز سنائی، خاتون صحافی اور اپنے دور کی دبنگ طالب علم رہنما لالہ رخ بھی جو صحافیوں کی تحریک میں جیل گئيں، چھوٹے بڑے چہرے، معروف و گمنام یہ سب تاریخ کے چہرے ہیں۔ جو ایک نہ دوسرے دور میں آزادی صحافت یا آزادی اظہار کی جدوجہد میں پابند سلاسل رہے۔ وہ بھی جو اپنی تحریروں کی وجہ سے قید کیے گئے سزائیں پائیں یا مصائب کا شکار ہوئے۔پروفیسر وارث میر، بشیر ریاض، محمود شام اور ان کا ہفت روزہ معیار، وہاب صدیقی اور انکا الفتح، بیداری، سچائی، افضل صدیقی اور ان کا امن، بشیر احمد کا صداقت۔ سرور سکھیرا ، انکی ٹیم اور’’دھنک‘‘، مظہر علی خان اور ان کی ٹیم ظفریاب احمد،شفقت تنویر صفدر میر بالمعروف زینو، زم مرزا، پروفیسر امین مغل، احمد بشیر ،عبدللہ ملک ، اختر حمید ودیگر احباب ۔
پاکستان میں پریس پر پابندیوں اور صحافیوں کو پابند سلاسل کیے جانے کی شروعات تب ہوتی ہے جب فوجی آمر ایوب خان نے میاں افتخار الدین کے گروپ پروگریسو پیپرز لمٹیڈ کے اخبارات و جریدے پاکستان ٹائمز(جسکے ایڈیٹر مظہر علی خان تھے جو آج تک جنوبی ایشیا میں بڑھیا ترین مدیروں میں سے ایک ہو کر گزرے ہیں) ، ’’امروز‘‘ اور’’لیل و نہار‘‘ پر پابندیاں لگائیں ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آمر ایوب خان کی طرف سے انکے اسوقت کے وزیر ذوالفقار علی بھٹو پابندیوں کا پیغام دینے مظہر علی خان سے ملنے کو آئے تھے۔ (پھر وہی مظہر علی خان تھے جو ذو الفقار علی بھٹو کی ضیاء آمر کے تحت قید اورقتل کے مقدمے کے دوران بھٹو کی جان بچانے کی کوششوں میں اپنی بیگم طاہرہ مظہر علی خان کے ہمراہ تالپور برادران سے ملنے حیدرآباد بھی گئے تھے)۔ اسی طرح سابقہ مشرقی پاکستان میں ’’اتفاق‘‘ ڈھاکہ اور پوربی پر پابندیاں پڑیں۔ حمید سندھی کی زیر ادارت ون یونٹ مخالف سندھی ادبی جریدہ روح رہان بھی زیر عتاب آیا۔ نوائے وقت ، عبرت اور کئی دیگر اخبارات کو اشتہارات بند کردئیے گئےشاید یہی وہ ہی دن تھےیا اسکے کچھ دنوں بعد جب ایک اخبارنے حبیب جالب کی تاریخی نظم ’’دستور‘‘ اپنے پہلے صفحے پر شائع کی تھی۔کیونکہ پاکستان میں ایوبی آمریت میں پابندیوں و صحافتی قدغن بس پاکستان ٹائمزیا پروگریسو پیپرز کےاخبارات تک نہ رکی تھیں۔پر صحافیوں کی ترقی پسند اور آزاد اخبارات پر پابندیوں کے خلاف جدوجہد کی ملک میں داغ بیل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی صورت پڑ چکی تھی ۔
یہی وجہ تھی کہ ایوب خانی آمریت نے 1968 میں جاکر بدنام زمانہ پریس دشمن قانون پریس اینڈ پبلیکیشن نافذ کیا اور نیشنل پریس ٹرسٹ (این پی ٹی) جسکے تحت آزاد اخبارات کنٹرول میں لیے گئے کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن ایوب خانی امریت کے خلاف تحریک چل پڑی تھی پھر مزدور ہوں کہ سیاسی کارکن، دانشور اور صحافی ۔ صحافیوں اور پی ایف یو جے کی تحریک بھی ان دنوں ملک کی سڑکوں پر آ گئی تھی۔ مورخ پی ایف یو جے کی طرف سے صحافیوں کی تحریک پر لکھتے ہیں کہ راولپنڈی کی سڑکوں پر ہر طرف سرخ ہی سرخ جھنڈے اور لباس نظر آتے تھے۔ انہی دنوں منو بھائی کا تحریر کردہ ڈرامہ ’’جلوس‘‘ بھی مشہور ہوا تھا ۔ اب ذو الفقار علی بھٹو جو کل تک ایوب خان کی آمرانہ پالیسیوں کا وکیل بنا ہوا تھا حکومت سے الگ ہوکر زیر عتاب آیا اور ایک بڑی آواز بن کر چھایا اور ملک میں صحافیوں کی تحریک کی حمایت اور اقتدار میں آنے کی صورت میں نیشنل پریس ٹرسٹ توڑنے کے وعدے کرنے لگا۔ لیکن جب وہ اقتدار میں آئے تو پریس اور آزدی اظہار پر شدید پابندیاں لگا ئيں بلکہ اپنے پیشرو فوجی آمروں کے ریکارڈ بھی توڑ ڈالے۔ انکے دور میں بائيں چاہے دائيں بازو سے اسوقت تعلق رکھنے والے صحافی اور اخبارات و رسائل بھٹو کا نشانہ بنے ۔ دائيں بازو سے تعلق رکھنے والے اسوقت کے صحافیوں اور ان پر تشدد و قید و بند کو تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔ شورش کاشمیری، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمٰن شامی، عبدالقادر حسن، صلاح الدین، اور پیر پگاڑو کے سندھی روزنامے ’’مہران ‘‘ کے مدیر سردار علی شاہ ذاکر و کئی شامل ہیں جنکے ساتھ سخت قید و بند روا رکھی گئی۔ دیگر ایسے کئی بھٹو کے ستائے ہوئے تھے جو اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف ضیاء کے مخبر بنے۔
سلام جنہوں نے آزادی صحافت کی تحریک میں کوڑے کھائے سلام
سلام ان اخبارات کے صفحوں میں ان خالی جگہ کو
جس پر لکھی تحریریں خطرناک سمجھ کر اکھاڑ لی جاتیں
سلام انہیں جنہوں نے آزادی صحافت کی تحریک میں کوڑے کھائے(مسعود قمر)
تازہ ترین