• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گواخبار خود خبر کی جمع ہے مگر واحد شکل میں اس سے مراد وہ اوراق ہیں جو روزانہ صبح وشام یا ہفتہ وار باقاعدگی سے ایک مخصوص پالیسی کے تحت شائع ہوں اور ان کا مقصد اپنے قارئین کو اپنی شذرات، کالموں، مضمونوں، مراسلوں اور اشتہاروں کے توسط سے ملکی اور عالمی حالات اور کوائف سے واقف کرانا ہو، اخبارات کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلدازجلد قارئین کو خبریں پہنچائیں اور جدید معلومات فراہم کریں یوں وہ ایک دوسرے پر فوقیت لینے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لئے وہ اندرون ملک اور بیرون ملک نامہ نگار اور کالم نگار مقرر کرتے ہیں اور بعض وقت وہ بین الاقوامی سطح کے اخباروں سے معاہدے کرکے ان کے مضامین ترجمے کی شکل میں اپنے اخباروں میں شائع کرتے ہیں اور زرکثیر معاوضہ ادا کرتے ہیں یہ اس لئے نہیں ہوتے کہ ان کو بے پڑھے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے ، ان کا مقصد بیرونی کارروائیوں سے روشناس کرانا اور ان سے انفرادی اور اجتماعی طور پر فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔
میں اس وقت بین بلینڈ کے مضمون ’’ انڈونیشیا کی ڈیری صنعت‘‘ جو23جون کے اخبار جنگ میں شائع ہوا پر توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
مضمون کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے کہ ’’ہانگ کانگ اور سنگا پور میں سستی اجرت پر کام کرنے والے انڈونیشی ملازمین کافی مشہور ہیں۔ لیکن اب ایک انڈونیشین ڈیری کمپنی اس بات کی کوشش کررہی ہے کہ اس ملک کی جو سب سے بڑی صنعت ہے اس پر قبضہ جمالے ۔ ڈیری جنوبی مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی صنعت ہے اور اپنے اعلیٰ معیار کے دودھ اور پنیر کی برآمدات کی وجہ سے دنیا میں پہچانی جاتی ہے۔ اس کو ایک تجارتی گروپ کا تعاون بھی حاصل ہے اس وقت براعظم ایشیا میں ڈیری کی جملہ مصنوعات کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ آسٹ ایشیا چین جس کی 2کروڑ70لاکھ لٹر ٹن سالانہ فروخت کانصف سے زائد حصہ سنگا پور اور ہانگ کانگ کے بازاروں میں فروخت ہوتا ہے اپنے کاروبار کو فروغ دینے اور اپنے فارم کودوگنا کرنے اور16ہزار گائیوں تک پہنچانے میں سرمایہ کاری کرنے میں مصروف نظر آرہی ہے۔ اس طرح آسٹ ایشیا کمپنی بکھری ہوئی صنعت کو یکجاکرکے ملک کی سب سے بڑی ڈیری کمپنی بن جائے گی۔ جبکہ اس وقت انڈونیشیا کی دودھ دینے والی چارلاکھ سے زائد گائیوں کی ڈیری صنعت کا90فی صد حصہ چھوٹے گوالوں اور کسانوں کے پاس ہے اور ان کے حصے میںچند ہی جانور آتے ہیں۔ آسٹ ایشیا کو یہ ترجیح حاصل ہے کہ اس کے پاس اپنافارم ہے جبکہ دوسری کمپنیوں کو یاتو گوالوں سے خام دودھ خریدنا پڑتا ہے یا آسڑیلیا اور نیوزی لینڈ سے پاؤڈر کی شکل میں دودھ منگوانا پڑتا ہے اس کمپنی نے آج سے تین سال قبل جب جاوا کے قریب مائونٹ کاری کے ڈھلانوں پر اپنا ڈیری فارم قائم کیا تواپنی شناخت چھپائی تھی، کیونکہ اس کو اندیشہ تھا کہ کہیں انڈونیشیا میں مصنوعات کی تیاری کی وجہ سے صارفین اس کی مصنوعات کو خریدنے سے گریز نہ کریں لیکن اب وہ منزل سے گزر چکی ہے اب اس کو کسی بات کا ڈر نہیں اور آئندہ سال وہ اپنی پیداوار کو25کروڑ سے بڑھا کر 35کروڑ لیٹر کرنے کی خواہاں ہے۔
ہماری ڈیری کی صنعت جو زراعت کے شعبے میں بڑی فصلوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہے انڈونیشی ڈیری سے بہت مشابہت رکھتی ہے۔ ہمارے یہاں بہائم شماری1996اور2006میں ہوئی تھی، اور ان ہی اعداد میں اضافہ کرکے درمیانی سالوں کی تعداد کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس وقت ملک میں وہ جانورجن کا دودھ استعمال ہوتا ہے گائیں37ملین،بھینس33ملین بکریاں65ملین بھیڑ29اور اونٹ ایک ملین پر مشتمل ہیں ان جانوروں سے انسانی صرف کے لئے جودودھ حاصل ہوتا ہے اس میں بھینسوں کا حصہ23/24ملین ٹن 14ملین ٹن گائیوں کاحصہ2ملین ٹن بھیڑ، بکرے اور اونٹ کا حصہ ہوتا ہے۔ دراصل ہمارے ہاں جانور توزائد ہیںمگر ان کے دودھ کی فی کس مویشی پیداوار بہت کم ہے واضح ہوکہ اکنامک سروے میں یہ پیداوار ٹنوں ہی میں رہی ہے ۔ ہمارے یہاں بھی ڈیری کی صنعت90 فی صد کسانوں اور گوالوں کے ہاتھ میں ہے اب کچھ کمپنیاںمیدان میں آتی ہیں۔
غذائیت کے لحاظ سے جوسروے کئے جاتے ہیں ان کے مطابق پاکستان میں دودھ کے خرچ کافی کس سالانہ اوسط172لٹر آتا ہے ہمارے ہاں زیادہ دودھ چائے یا کافی میں استعمال ہوتا ہے 20فی صدی کے قریب دہی جمانے میں صرف ہوجاتا ہے اور2فی صدی مٹھائی وغیرہ بنانے میں استعمال ہوتا ہے شیر خوار بچوں کوبہت کم دودھ ملتا ہے، چند گنے چنے اسکول ہیں جہاں بچوں کو اسکول میں دودھ دیا جاتا ہے، اسی وجہ سے شیر خوار بچوں اور دودھ پلانے والی ماؤں کی بڑی تعداد کم غذائیت کاشکار رہتی ہے۔ نواب کالا باغ نے اپنی گورنری کے زمانے میں اپنے استقبالیوں میں چائے ممنوع قرار تھی، انہوں نے ایک استقبالیے میں جودسمبر میں صبح11بجے پشاور میں ہورہا تھا اور جس کی ذمہ داری میرے سپرد تھی بتایا کہ میں چائے کادشمن نہیں لیکن میں چاہتا ہوں بچوں کودودھ ملے ملک میں اکثر مویشی کی دودھ کی مقدار کوبہتر بنانے، مویشی کوبیماریوں سے محفوظ رکھنے اور سائنٹیفک طریقے پر ان کی پرواخت کرنے کے منصوبے بنتے رہے مگر اب تک کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی ڈاکٹر محبوب الحق نے اپنی وزارت کے زمانے میں چھٹاپنج سالہ منصوبہ بنایا اس میں بلوچستان میں بڑے پیمانے پر مویشی پروری کی تجویز رکھی گئی تھی اگر اس پر عمل ہوتا تو افسانوی طرز پر نہیں بلکہ حقیقی طور پر وہاں دودھ کی ندیاں بہہ رہی ہوتیں مگر ہربار لوگوں نے چھٹا منصوبہ ہی مسترد کردیا اور اس کے بجائے سالانہ منصوبہ بندی کے پروگرام کا آغاز کردیا کیا آگسٹ ایشیا کی طرح کوئی من چلا آگے بڑھ کر ڈیری کی صنعت کوسنبھال سکتا ہے اور عوام کوسستا معیاری دودھ فراہم کرسکتا ہے؟ 80اور 85روپے لٹر خرید کرغریب لوگوں کواپنے شیر خوار بچوں کودودھ فراہم کرنا ناممکن ہے۔
تازہ ترین