• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قرآن مجید میں مال او ر اولاد کو آزمائش قرار دیا گیا ہے۔ بہت کم باپ اولاد اور مالدار دولت آزمائش میں پورا اترتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو تیسری باراس آزمائش کا سامنا ہے کیونکہ ناقدین اورمخالفین باربار پوچھتے ہیں ؎ یہی شاہکار ہے تیرے ’’ہنر‘‘ کا۔
کوئی نہ مانے، افتخار محمد چودھری کے حرف انکار نے ہماری سیاسی، صحافتی، قانونی اور حکومتی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے۔ اس باعث ایک جج کو لوگوں نے کندھوں پر اٹھایا، سر آنکھوں پر بٹھایا، جلوس نکالے اور کالے کوٹ نے عزت پائی اسی حرف انکارنے صدارتی ریفرنس میں درج الزامات پر پردہ ڈال دیا لوگ احمد خلیل اور ملک ریاض کے داماد کے ساتھ ارسلان افتخار کے رابطوں، کاروبار اور بیرون ملک سیر سپاٹے کو قابل معافی طفلانہ شوخی جان کر درگزر کر گئے مگر بلوچستان انویسمنٹ بورڈ یا کارپوریشن کی وائس چیئرمینی محض غلطی نہیں غلطان تھی۔
بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس متنازعہ تقرر کا بوجھ وزیراعلیٰ اٹھا سکے نہ کوئی وفاقی حکمران۔حاصل بزنجو نے گھر کے بھیدی کی طرح یہ لنکا ڈھا دی کہ اس تقرر کی سفارش چیف صاحب نے فرمائی تھی۔ لاڈلے کی کارستانیوں سے نیک نام، بہادر اور بہادر باپ کا جی شائد اب تک نہیں بھراورنہ ملک ریاض والے قصے کے بعد وہ کبھی کسی آزمائش میں نہ پڑتے۔ کاروباری معاملات سے الگ تھلگ ہی رہتے کہ یہ کوئلوں کی دلالی کے سوا کچھ نہیں۔
مان لیا کہ ارسلان افتخار کے تقرر پر مخالفین کا شور و غوغا محض مخالفت برائے مخالفت کا نتیجہ تھا، عمران خان کا اعتراض سیاسی عناد کا شاخسانہ اور چیف صاحب سے مایوسی و بدگمانی کا ردعمل۔ مگر سوال یہ ہے کہ معاملہ تو خود اس تقرر نے بگاڑا، رہی سہی کسر وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک اورحاصل بزنجو کی وضاحتوں اور لائق صاحبزادے کے استعفے نے پوری کردی۔
اب معلوم نہیں کس نے ارسلان افتخار کو یہ پٹی پڑھائی ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62/63 کا کلہاڑا لے کر عمران خان پر چڑھ دوڑیں اور ایک مقبول سیاستدان کو صادق، امین اور اچھی شہرت کے معیار پر پورا نہ اترنے کی پاداش میں عوامی نمائندگی سے نااہل قرار دلوا کراپنی توہین اور بدنامی کا بدلہ چکائیں یہ کوئی نادان دوست ہے یا دانا دشمن؟ ارسلان کو اپنے اردگرد دیکھ لینا چاہئے۔
پچھلے سال آئین کے آرٹیکل 62/63 پر عملدرآمد اورجھوٹے، خائن، بدکردار، بدنام افراد کی نااہلی کا راگ ڈاکٹر طاہرالقادری نے چھیڑا۔ قوم سیاست اور پارلیمنٹ کو قومی لٹیروں، عادی مجرموں اور جھوٹ کے پیمبروں سے پاک کرنے کی خواہش مند تھی اوراپنے نمائندوں میں اسوۂ رسولؐ کے مطابق صادق و امین کی صفات دیکھنے کے لئے تیار مگر عدلیہ اور الیکشن کمیشن نے کرپٹ، بدنام اور حرام خور سیاستدانوں، ترقی و خوشحالی کا چکمہ دے کر قومی وسائل لوٹنے والے وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں سے ملی بھگت کر کے یہ کوشش ناکام بنا دی۔
ارسلان افتخار کے والد گرامی اس وقت ملک کے چیف جسٹس تھے۔ بنچ نمبر ایک کے سامنے طلب کیا جانے والا شخص ماں سے دودھ بخشوا کر پیش ہوتا کہ کچھ معلوم نہیں گھر واپسی نصیب ہوگی یا سیدھا جیل جانا پڑیگا۔ درجنوں جج ایک وزیراعظم، کئی ارکان اسمبلی اور بیوروکریٹس یوںاپنے عہدوں سے فارغ ہوئے جیسے نجی اداروں کے دیہاڑی دار کارکن بیک بینی ودوگوش برطرف کیے جاتے ہیں۔
عدالتی دبدبے کا یہ عالم تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری الیکشن کمیشن کی تشکیل اور ارکان الیکشن کمیشن کے تقرر کے خلاف آئینی رٹ لے کر پیش ہوئے تو تین دن تک اپنے کیس کے حق میں ایک لفظ نہ کہہ پائے سارا وقت اپنی کینیڈین شہریت کے بارے میں صفائی دیتے گزار دیا حالانکہ اس کا نفس مقدمہ سےکوئی تعلق تھا نہ آئین کا کوئی آرٹیکل دوہری شہریت تو کیا کسی غیر ملکی کو بھی داد رسی سے روکتا ہے۔ ایک تصویر دکھا کر ڈاکٹرصاحب نے مقدمہ خارج کرایا اور جھولیاں پھیلا کر عدالت عظمیٰ کو دعائیں دیتے رخصت ہوگئے۔ ایک سائل کی اس قدر رسوائی کو ہر ایک نے ناپسند کیا اور اس کے بعد چیف صاحب کا سفر بھی ہموار نہ رہا۔ ڈھلوان ہی ڈھلوان۔
والد بزرگوار چاہتےتو عروج کے ان دنوں میں 62/63 کے حوالے سے کسی پٹیشن کا منصفانہ فیصلہ آسکتا تھا الیکشن کمیشن اور عدالت عظمیٰ کے ماتحت ریٹرننگ افسروں (جن سے چیف صاحب ہر جگہ خطاب فرماتے رہے) کو پابند کیا جاسکتا تھا کہ وہ 62/63 کی زد میں آنے والے کسی امیدوار کے کاغذات ہرگز منظور نہ کریں اور کوئی عدالت ان بدکرداروں، قومی مجرموں کو ہرگز ریلیف نہ دے مگر تب عفوودرگذر، معافی تلافی اور دریا دلی کی گنگا ہر عدالت اور بنچ میں بہہ رہی تھی اور نامی گرامی چور اچکے، بدعہد، خائن اور بدکردار بہتی گنگا سے اشنان کر کے اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔
اگر ارسلان افتخار 62/63 پر عملدرآمد کا مقدمہ لے کر الیکشن کمیشن یا عدلیہ کا رخ کرتے ہیں تو ہم خوش، ہمارا خدا خوش، عمران خان آرٹیکل 62/63 پر پورا اترتے ہیں یہ عمران خان جانیں، تحریک انصاف کے خوروکلاں یا متعلقہ ادارے جو فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں مگر اس ملک میں سیاست کو عبادت، عوامی نمائندگی کو مقدس فرض اور عوامی خدمت کا ذریعہ اور کاروبار وسائل ریاست کو قوم کی امانت سمجھنے والے شہری کے طور پر ہماری یہ دلی خواہش ہے کہ ایک بار یہ فیصلہ ہو ہی جائے کہ کوئی جھوٹا، بددیانت، بدکردار اور بدنام شخص عوامی نمائندگی کا اہل ہے یا نہیں؟ یہ آرٹیکل قابل عمل ہیں یا صرف نمائشی، عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف۔
ویسے ارسلان افتخار کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ وہ جنرل پرویز مشرف کی صدارتی اہلیت کے حوالے سے اپنے والد بزرگوار کی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ پڑھ لیں جو اس نے قاضی حسین احمد کی پٹیشن پر دیا اور لکھا کہ 62/63 کا اطلاق صدارتی انتخاب پر نہیں ہوتا یوں جنرل پرویز مشرف صادق، امین، باکردار اور صدارتی الیکشن کے اہل قرار پائے۔
ارسلان افتخار نے بار بار نیک نام باپ کو آزمائش میں ڈالا، ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی لٹانے کی کوشش کی مگر وہ آرٹیکل 62/63 پر عملدرآمد اور سیاست و پارلیمانی نظام کے کنویں کو نجاست سے پاک کرانے میں کامیاب رہے تو قوم ان کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کردے گی اور اسے احسان عظیم سمجھے گی۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور الیکشن کمیشن میں ان کے انکلز برخوردار کی بات توجہ سے سنیں گے اور میرٹ پر فیصلہ کریں۔
فی الحال عمرا ن خان کے خلاف وہ جذبہ انتقام سے مغلوب نہیں اپنے منصب سے سیاسی دبائو پر استعفیٰ ارسلان کے لئے ہتک آمیز ہے لیکن اگر وہ یہی کام قومی جذبے سے کریں اور آئین کی دو شقوں پر عملدرآمد میں کامیاب رہیں تو باقی آئین پر عملدرآمد کی نوبت بھی کسی نہ کسی طرح آجائے گی ان کے شفیق والد کی طرح ہماری عاجزانہ دعائیں اور نیک تمنائیں بھی ارسلان افتخار کے ساتھ ہیں۔
62/63 پر عملدرآمد ڈاکٹر طاہرالقادری کرائیں یا ارسلان افتخار، ہمیں آم کھانے سے غرض ہے گھٹلیاں گننے سے نہیں ہے۔ ہم سخن فہم ہیں، غالب کے طرفدار نہیں۔
تازہ ترین