• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک زمانہ تھا کہ جناب چوہدری نثار علی خاں قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کے طور پر چھائے رہتے تھے۔ وہ ایک ذہین سیاست دان ہیںاور اپنے اہداف پر پوری نگاہ رکھتے ہیں۔ انتخابات ہوئے تو اُن کی جماعت مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آ گئی اور اُن کے حصے میں وزارتِ داخلہ کا قلمدان آیا۔ وزیراعظم نوازشریف قائد ایوان ہونے کے باوجود ایوان میں شاذونادر ہی آتے اور اُن کی جگہ چوہدری صاحب ہی قائدایوان دکھائی دیتے تھے۔ ہم اُن کے اعلیٰ تصورات پر مبنی نہایت عالمانہ تقریروںپر سر دھنتے اور یہ محسوس کرتے رہتے کہ وہ ذہنی طور پر ابھی تک اپوزیشن لیڈر ہی ہیں اور اِسی کے لب و لہجے میں گفتگو فرما رہے ہیں۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اُنہیں قومی سلامتی پالیسی پیش کرنے کا شوق چرایا اور وہ گھنٹوں اِس موضوع پر نت نئے نکات اُٹھاتے چلے گئے۔ یوں لگا جیسے پوری دنیا تبدیل ہونے والی ہو اورنیکٹاکے نام سے جو اتھارٹی قائم ہو گی اور انٹیلی جنس جوائنٹ سیکرٹریٹ اور برق رفتار ریپڈفورس جیسے دیوقامت ادارے جونہی وجود میں آئیں گے ، دہشت گردی کا قلع قمع ہوتا چلا جائے گا۔ اُنہوںنے قومی سلامتی پالیسی کا ایک حصہ خفیہ رکھا جس نے قوم کے اندر بلا کا تجسس پیدا کر دیا۔ انسدادِ دہشت گردی کے بارے میں لاہور کے ایک تھنک ٹینک پائنا نے چند ہی روز پہلے سیمینار منعقد کیا تھا جس میں سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد خاں نے برملا کہا تھا کہ ہر ملک اپنی قومی سلامتی پالیسی کو صیغۂ راز میں رکھتا ہے کہ اِس کے فاش ہو جانے سے اِن قوتوں کو اپنا لائحہ عمل ترتیب دینے میں بڑی مدد مل سکتی ہے جو دہشت گردی پر تُلی بیٹھی ہوں۔
اُن دنوں وزیر داخلہ وزیراعظم کے معتمد ِخاص ہونے کی وجہ سے بہت اونچی ہواؤں میں تھے اور قومی سلامتی کے جملہ معاملات پر اپنامکمل کنٹرول رکھنا چاہتے تھے ، حالانکہ اِن حساس امور میں فوج اور بالخصوص آئی ایس آئی کا بھی نہایت اہم کردار ہے۔ انٹیلی جنس جائنٹ سیکرٹریٹ کو وزارتِ داخلہ کی تحویل میں دینے کا مطلب یہ تھا کہ آئی ایس آئی کے انٹرنل انٹیلی جنس ونگ کو احکام وزیر داخلہ کی طرف سے دیے جایا کریں گے۔ اِس نئے بندوبست میں دو عملی کے خطرات جنم لے سکتے تھے۔ اِس کے علاوہ قومی سلامتی پالیسی پر عمل درآمد کے لئے دو چار نہیں پچاس ساٹھ ارب درکار تھے جبکہ ملکی معیشت کی حالت خاصی پتلی تھی۔ قومی اسمبلی میں اِس پالیسی پر ابھی نیم مردہ سی بحث جاری تھی کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ایشو سامنے آ گیا۔
اِن مذاکرات میں وزیراعظم کی طرح ہمارے وزیرداخلہ بھی حددرجہ سنجیدہ تھے۔ اِس مقصد کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ٗ اِس میں میجر (ر) عامر بھی شامل تھے جو اُس کی آنر شپ فوج کو سونپ دینے کے حق میں تھے۔آگے چل کر اِن مذاکرات سے جناب چوہدری نثار علی خاں عملاً بے دخل کر دیے گئے۔اِس بے توقیری پر اُنہوں نے چپ سادھ لی اورپارلیمنٹ میں آنا چھوڑ دیا جس کے درودیوار اُن کی گھن گرج سے لرز اُٹھتے تھے۔ وہ اُس وقت بھی غیر حاضر تھے جب تحفظِ پاکستان کا بل منظور ہوا جس کی تیاری اور لابنگ میں اُنہوں نے زبردست کردار ادا کیا تھا۔ اِس بل کے بارے میں قدرے متضاد رائیں پائی جاتی ہیں ،مگر محترمہ عاصمہ جہانگیر کے اِس بیان سے انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں کے علمبرداروں کو خاصی تقویت پہنچی ہے کہ اَن گنت ترامیم کے بعد منظور شدہ بل پہلے سے بہتر ہو گیا ہے۔
جناب نثار علی خاں کو پوری طرح فعال کرنے کے لئے وزیراعظم کو چند عملی اقدامات فوری طور پر کرنا ہوں گے۔ وہ اپنے اندر گم رہنے کے باعث لوگوں سے کٹے رہتے ہیں ، مگر وہ سیاسی مرکبات کی گہرائیوں میں اُترنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں جس کی مسلم لیگ نون کے اندر شدید قلت محسوس ہو رہی ہے۔ ملک میں اِس وقت جو ہیجانی تحریکیں سر اُٹھا رہی ہیں ، اُن سے سیاسی طور پر بھی نبردآزما ہونے کی چوہدری صاحب بہت اچھی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، تاہم جناب نوازشریف کو اُن افراد کی کتربیونت کرنا ہو گی جو اپنی اہلیت کے مقابلے میں بڑے مناصب پر فائز کر دیے گئے ہیں۔ مزیدبرآں بڑے فیصلے سیاسی جماعت کی سطح پر کیے جانے سے اُنہیں سیاسی کارکنوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے جو عوام کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں ہماری ایمانی جذبوں سے سرشار فوج پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور خوش قسمتی کی بات یہ کہ اِس کی پشت پر پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔اِس بے مثال سیاسی ہم آہنگی کے فروغ میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کا کردار قابلِ تحسین ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں حقیقت شناس بصیرت عطا کی ہے۔ اُن کا شمار پیپلز پارٹی کے سیاسی دانش وروں میں ہوتا ہے اور قومی حلقے اُن کے بیان کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔اُن میں طویل سیاسی سفر سے بہت پختگی آئی ہے اور اُنہوں نے سیاسی زیروبم سے بہت کچھ سیکھا ہے اور بلند منصب تک جا پہنچے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اُنہوں نے معاملات کو اُلجھانے کے بجائے سلجھانے کی اچھی مثالیں قائم کی ہیں۔
وہ حکومت کی خامیوں پر تنقید کرتے ہیں اور مفید مشورے بھی دیتے ہیں۔ سیاست میں کامیابی کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ وہ دوسروں کی عزتِ نفس کا پورا خیال رکھتے اور اُن کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔ اِسی حُسنِ عمل سے تعلقات کی کلیاں چٹکتی ہیں اور ذہنی مفاہمت کے شگوفے پھوٹتے ہیں۔ شاہ صاحب اِسی وصف کی طاقت سے ملکی سطح پر ایک دانش مند سیاست دان کے طور پر اُبھرے ہیں۔ وہ اپنے مزاج کی شگفتگی اور دلآویزی کی بدولت کسی بھی سیاسی جماعت سے ڈائیلاگ کر سکنے اور جماعتی وابستگی سے بلند ہو کر قومی امور پر دیانت دارانہ رائے دینے کی جرأت رکھتے ہیں۔
ہم اپوزیشن لیڈر کو دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ آخر کار وہ اِس بنیادی خامی تک جا پہنچے ہیں جو الیکشن کمیشن کی تشکیل میں پائی جاتی ہے۔ میں سالہا سال سے اِس امر کی نشاندہی کرتا آیا ہوں کہ ریٹائرڈ جج صاحبان توانائیوں اور انتظامی مشینری کے استعمال کی صلاحیت سے یکسر محروم ہوتے ہیں ،وہ ایک دن میں آٹھ نو کروڑ ووٹروں پر مشتمل انتخابات ٹھیک طور پر نہیں کرا سکتے۔ الیکشن کمیشن میں اُن کی جگہ دیانت دار بیوروکریٹس ہونے چاہئیں جیسا کہ بھارت میں ہے۔ وہاں الیکشن کمیشن چیف الیکشن کمشنر اور دو ارکان پر مشتمل ہے جن کا تعلق ڈی ایم جی گروپ سے ہوتا ہے۔ اِس الیکشن کمیشن نے انتخابی نظم ونسق چلانے میں اِس قدر مہارت حاصل کر لی ہے کہ چھ سات ہفتوں پر محیط ہونے کے باوجود کسی کو دھاندلی یا بدعنوانی کی شکایت نہیں ہوتی۔
جناب خورشید شاہ نے اِس ضمن میں آئین کے اندر دو ترامیم لانے کا عندیہ دیا ہے جن کی رُو سے بیوروکریٹس اور اچھی شہرت کے وکلاء بھی الیکشن کمشنر تعینات کیے جا سکیں گے اور حکومت کی میعاد چار سال کر دی جائے گی۔ تمام جماعتوں کو اِن ترمیم کی حمایت کرنی چاہیے کہ اُن کے ذریعے حکومت کی تشکیل اور اِس کے اسلوبِ حکمرانی میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ آئینی ارتقاء کے نتیجے میں ہمارے ہاں بھی انتخابات سے پہلے نگران حکومت بنانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی کہ اِس کا تجربہ انتہائی سنگین سیاسی مسائل پیدا کرنے کا باعث بنا ہے۔ بھارت میں الیکشن کمیشن ہی حکومت کی مؤثر نگرانی کرتا ہے اور حکمرانوں کو قانون سے باہر قدم رکھنے اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کی جرأت نہیں ہو تی اور یوں وہاں شفاف اور منصفانہ انتخابات کی روایت مستحکم ہوتی چلی گئی ہے۔
تازہ ترین