• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی مجھے ایک بات سمجھائے۔ ایسا کیوں ہے کہ جب کبھی کسی شخص یا کسی ادارے پر بددیانتی یا خیانت کاالزام لگایا جاتا ہے تو اسے سچ مان لینے کو جی چاہتا ہے۔ ہر بار یہی خیال ہوتا ہے کہ ہو نہ ہو ،جرم ہوا ہے اور بااثر لوگ خطا کار کو بچا کر نکال لے جانا چاہتے ہیں۔ایک صاحب قلاش تھے۔ ایک روز انہوں نے اپنی کمپنی کھولی اور راتوں رات مالدار ہو گئے۔ہمیں بتایا گیا کہ انہیں امریکہ کی سیریں کرائی گئیں یہاں تک کہ جوا بھی کھلوایا گیا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک دھیلا بھی ناجائز کمایا ہو تو ان کا نام بدل دیا جائے۔ معلوم نہیں کیوں دل کہتا ہے کہ ایک بار جی کڑا کرکے ایسے تمام لوگوں کے نام بدل ہی دئیے جائیں۔ اسی طرح سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کا قصہ ہے۔ اس منصب پر مقرر ہونے والے شخص کو مرکزی حکومت بھیجتی ہے۔ اب ایک مشکل آن پڑی ہے۔ صوبائی پولیس کے لئے کروڑوں کا سازوسامان خرید نا ہے۔ سودا بہت بڑا ہے۔ رالیں بہت ٹپک رہی ہیں اور بھرنے کے لئے جیبیں بھی بے قرار ہیں۔ سنا ہے کوئی بہت ہی بااثر شخص چاہتا ہے کہ یہ سامان ایک خاص ملک سے خریدا جائے۔ لیکن اس کے لئے صوبے میں ایسا انسپکٹر جنرل درکا رہے جوچوں چرا نہ کرے اور کان دبا کر ٹھیکے پر دستخط کردے۔میڈیا سارے ہی راز فاش کرنے پر تلا ہوا ہے بالکل اسی طرح حکومت اپنی اس بات پر اڑی ہوئی ہے کہ اگر اس میں ایک دھیلے کی بھی بد دیانتی ہو تو اس کا نام بدل دیا جائے۔ سوچتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے کہ میڈیا کی بات ماننے کو جی چاہتا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا ریلوے انجن چین سے خریدے گئے ہیں۔ سنا ہے دو چار تو پہلے ہی دن حوصلہ ہار گئے او رباقی بھی ڈر کے مارے یارڈ سے نہیں نکل رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ چین کی کمپنیاں خریدار ادارے کو بھاری کمیشن دیتی ہیں۔ اسی لئے اکثر چیزیں چین سے خریدی جارہی ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس میں چین کی دوستی کا دم بھرا جا رہا ہے ۔ اب حقیقت کا تو ہمیں علم نہیںالبتہ چینی مصنوعات کے بارے میں عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ وہ یا تو عمر بھر چلتی ہیں یا اُسی شام تک دم توڑ دیتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ریلوے انجن کی خریداری کے ٹھیکے منظور کرنے والے تو وہی نام بدلنے والی بات کہیں گے لیکن بڑے بڑے سودوں سے بڑے بڑے کمیشن کمانے کی بات اتنی عام ہے کہ حکومتیں چھان بین اور روک تھام کے بکھیڑے میں نہیں پڑتیں اور اس طرف سے نگاہ پھیر لیتی ہیں ۔ مگر میں پھر یہی کہوں گا کہ اس طرح کے جو ہزاروں اسکینڈل باہر آچکے ہیں، سب میں بد دیانتی کے الزام کو سچ ماننے کی خواہش ہوتی ہے۔بس مشکل یہ ہے کہ نام تو بدل دیں مگر بدلنے کے لئے اتنے بہت سے نام کہاں سے آئیں گے۔
یہ تو ہوئے وہ جرم کہ ملزم لاکھ کہے وہ بے قصور ہے، دل مسلسل کہے جاتا ہے کہ نہیں،یوں نہیں ۔ اب کچھ ایسے الزامات کی گفتگو کریں جو پولیس لگاتی ہے۔ اس پر برطانیہ کے عدالتی نظام کی مثال بہت ہی دل چسپ ہے۔ یہاں جج مقدمہ نہیں سنتا بلکہ مقدمے کی کارروائی کی صدارت کرتا ہے۔ اس کی ذمے داری ہے کہ مقدمے کی کارروائی کواپنی راہ سے بھٹکنے نہ دے۔ مقدمے کی کارروائی ملک کے دس ایسے باشندے کرتے ہیں جنھیں قانون کی الف، ب، پ بھی معلوم نہیں ہوتی۔جنھوں نے عمر میں کبھی نہ تھانہ دیکھا ہو نہ عدالت۔ جنہیں عدالت میں آکر یوں بیٹھنا پڑتا ہے کہ ان کے نام کی پرچی نکل آئی ہے۔ ووٹروں کی فہرست میں جس کا بھی نام موجود ہے ، اگر کسی مقدمے کی سماعت کے لئے اس کے نام کی پرچی نکل آئے تو وہ لاکھ بہانے بنائے، اسے آکر کمرہ ٔ عدالت میں بیٹھنا ، پوری کارروائی کو سننا اور ملزم کو مجرم قرار دینے یا نہ دینے کے فیصلے میں شریک ہو نا پڑتا ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے جب ایک شخص کو جیوری سے معاف کیا گیا۔ ہوا یہ کہ اس کے نام کا قرعہ نکل آیا اوراس سے کہا گیا کہ عدالت میں حاضر ہو۔ اس نے حاضر ہو کر جج سے خطاب کیا اور کہا کہ میرا ایک مسئلہ ہے۔ مجھے پولیس سے عشق ہے۔ میں اسے بے حد سچّا، دیانت دار اور حق پرست مانتا ہوں اور میری رائے ہے کہ پولیس کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ اب اگر آپ کو منظور ہے کہ میں جیوری میں بیٹھ کر پولیس کی وکالت کروں اور اس کے موقف کی بھرپور حمایت کروں تو مجھے کارروائی میں بٹھا لیجئے۔ اس پر جج نے کچھ دیر اپنا سرکھجایا اور اسے بخش دیا۔آگے چلنے سے پہلے اس عدالتی کارروائی کی بات پوری کردوں۔ ہوتا یہ ہے کہ جیوری کے ارکان کے آگے پورا مقدمہ پیش کیا جاتا ہے۔ پھر وہ مرحلہ آتا ہے جب انہیں طے کرنا ہوتا ہے کہ کون قصور وار ہے اور کون بے قصور۔ یہ فیصلہ کرنے کے لئے انہیں عدالت کے ایک کمرے میں بند کردیا جاتا ہے۔ آخر باہر آکر جیوری کاایک سرکردہ رکن کمرۂ عدالت میں فیصلے کا اعلان کرتا ہے ۔ آخر کار جج دو چار روز بعد سزا سناتا ہے۔
اب آئیے اپنے عدالتی نظام یا اپنے گریبان کی طرف۔ ابھی تو یہ بات ہو رہی تھی کہ عجب بات ہے کہ کسی فرد یا ادارے پر کوئی الزام لگے تو اسے سچ ماننے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن ایک صورتِ حال اس سے بالکل برعکس بھی ہے۔ پولیس والے جس کو مجرم ٹھہرا دیں، نہیں معلوم کیوں یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ بے قصور ہے۔ پولیس چاہے پنجاب کی ہو یا کہیں کی بھی ہو ، اس کی بات ماننے پر نہ ذہن راضی ہوتا ہے نہ دماغ رضا مند ہوتا ہے۔ صاف لگتا ہے کہ وہ جو ہر تھانے میں ایک معمولی پڑھا لکھا ، بد خط، نہ زبان درست نہ املا صحیح، بس ملک میں انصاف کے نظام کی بنیاد اسی نام نہاد محرر کی پانچ انگلیوں اور سستے اور گھٹیا قلم پر رکھی ہے۔ وہ نرا کم علم اور کم فہم آدمی ہو لیکن یہ ایک ہنر اسے خوب خوب آتا ہے کہ جس جرم کا وہ چاہے زہر مار دے اور جس واردات کا وہ چاہے ڈنک نکال دے۔ اسی طرح وہ جو سیدھی سطریں بھی نہیں لکھ سکتا، وہ اگر چاہے تو مظلوم کو دور حاضر کا سب بڑا ظالم کر دکھائے اور علاقے کے با اثر شخص کو غریب اورفاقہ کش پڑوسی کی زمین کا اصل اور حقیقی مالک ثابت کردے۔وہ چیز جو بزرگوں کے زمانے میں رپٹ اور آج ایف آئی آر یا پرچہ کہلاتی ہے کبھی اس کا نظارہ کیجئے۔ چھوٹی سی جگہ میں وہ محرر کس خوبی سے داستانِ امیر حمزہ کو ٹھوسم ٹھاس کھپا دیتا ہے اور اگر وہ بیان آپ نے لکھایا ہے تو لکھے جانے کے بعد خود اپنا بولا ہوا املا پڑھ کر تو دیکھئے۔ آپ حیران رہ جائیں گے کہ وہ کیا سے کیا ہوگیا۔
اسے اور کچھ ہو نہ ہو، قانون کی ساری مضبوطیوںاور کمزوریوں کا ایسا علم ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے قانون دانوں کے ہوش اُڑ جائیں۔ انگریزوں کی لکھی ہوئی تعزیرات اس نے گھوٹ کرپی ہوئی ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان کا ذکر آیا تو اس اخباری تراشے کا ذکر دہراؤں گا جس میں لکھا تھا کہ پاکستان میں آج تک کسی کو آبرو ریزی اور زنا بالجبر کی سزا نہیں ہوئی ہے۔ لکھا تھا کہ تعزیرات ِ ہند ہر لحاظ سے بے حد مکمل تھیں ۔ وہی ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔ بس ان میں ایک کمزوری رہ گئی ہے۔مظلوم عورت پر مجرمانہ حملے کا قانون اتنا ڈھیلا ڈھالا ہے کہ ایک سے ایک وحشی مجرم اپنے کپڑوں کی گرد جھاڑ کر کھڑ اہوجاتا ہے اور بس۔معاملہ چونکہ عورت کا ہے، پارلیمنٹ لاجز میں اینڈنے والے قانون سازوں نے کبھی اس طرف دھیان ہی نہیں دیا۔یہ وہی ایوان ہیں جن میں ایک بار ایک خاتون کی حکمرانی کے دوران عزت کے نام پر عورت کو خاک میں ملانے کے خلاف قانون بنانے کی کوشش کی گئی تو کتنے ہی مرد اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ ہماری دیرینہ روایات کا معاملہ ہے، آپ اس میں ٹانگ نہ اڑائیں۔ پھر کیا ہوا؟پچھلے دنوں کہیں دو محبت کرنے والوں نے شادی کر لی۔ غضب ہو گیا۔ کلہاڑیاں تیز کی گئیں۔ سر قلم کئے گئے۔ دیرینہ روایات والوں نے آکر تصویریں اتاریں تاکہ سند رہے اور وقتِ ضرورت کام آوے۔ مگر ہم
جانتے ہیں، سارے ہی وقت آئیں گے، ایک وہی وقتِ ضرورت نہیں آئے گا۔
تازہ ترین