• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل امریکہ میں ایک نمائش لگی ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 1790ء میں کس طرح اینگلو انڈین امریکی قوم کا حصّہ بنے اور کس طرح تقریباً دو سو سال بعد امریکہ میں گورے کالے کی تمیز ختم ہوئی۔ ہمارے ملک میں شمالی وزیرستان کی پہاڑیوں اور غاروں کو زمینی حملے کے باعث چٹیل میدانوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ منکسرالمزاج اطہر عباس بھی پتہ نہیں کیوں بول پڑے کہ یہ زمینی حملہ تو 2011ء میں ہونا چاہئے تھا۔
شاید ان کا کہنا سچ ہے کہ لڑائی کے گیارہ دن گزرنے کے باوجود نہ حقانی گروپ میں سے کسی شخص کا پتہ چل سکا اور نہ شاہد اللہ شاہد کا کہ بہ قول افغانی صدر کے کہ ڈیورنڈ لائن تو انگریزوں نے سو سال کے لئے بنائی تھی۔ وہ تو ختم ہو چکی اب ہم لوگوں کے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے جانے پر پابندی نہیں لگا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں دونوں حکومتوں کے درمیان نہ صرف یہ کہ مذاکرات نہیں ہو رہے ہیں بلکہ اس موضوع کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے، جب ہی ساری بظاہر پابندیوں کے افغانیوں کی پورے بلوچستان میں جگہ جگہ باقاعدہ بستیاں آباد ہیں۔ خاندان کی خواتین بڑے سکون سے کابل یا بدخشاں جاتی ہیں، اپنی پسند کی بہو تلاش کر کے لڑکے کا بیاہ کرا کے آ جاتی ہیں۔ دنبے کا گوشت ہر گھر میں پکایا جاتا ہے۔ ان افغان آبادیوں کی حالت ہمارے آئی ڈی پیز سے بہت بلکہ ہزار درجے بہتر ہے کہ وہ تو باقاعدہ آبادیوں میں چین سے بیٹھے ہیں اور ہمارے ہجرت کرنے والے اتنی سخت گرمی میں ٹینٹوں میں بیٹھے ہیں۔ اتنے سخت رمضان زمینی جنگ کے بارے میں سن کر اور پریشان ہوتے ہیں کہ اب تو ان کے گھر آبادیاں اور سکون سب تباہ ہو رہے ہیں۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی گھروں سے نکلے ہوئے لوگوں پر کیا کچھ بیتا اسی طرح 2005ء کے زلزلے اور 2008ء کے سیلاب میں بھی اسی طرح لوگوں نے مہاجرت دیکھی۔ اتنی آفت گرنے کے باوجود ہماری حکومتوں کو مصیبت کی گھڑی میں خود کو سنبھالنا نہیں آیا ہے۔ اب جبکہ سارے صوبوں سے مال و اسباب کے ٹرک بھر بھر کے آ رہے ہیں، کیا سبب ہے کہ لوگوں اور خاندانوں کو صحیح طریقے پر خوراک نہیں مل رہی ہے؟
اس کا ایک حل یہ ہے کہ ہر محلّے اور آبادی میں جو نوجوان ہوں ان کی خدمات کو استعمال کیا جائے، ان کے ذریعے خوراک کی تقسیم کا کام سنبھالا جائے۔ جن کالجوں اور اسکولوں میں آئی ڈی پیز کو ٹھہرایا گیا ہے وہاں کے اسٹاف کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ہرچند لوکل باڈیز نہیں مگر پھر بھی چیئرمین یونین کونسل، تحصیل دار اور پٹواری ہیں ان کی خدمات کو استعمال کیا جائے۔ جو لڑکے، لڑکیاں اپنے علاقے میں ٹیچرز رہے ہیں وہ بھی کارآمد ہو سکتے ہیں۔
یہ جو ہمارے فاٹا کے ممبران ہیں وہ صرف اسمبلی میں بیٹھنے کیلئے ہی اپنی دستار سنبھالتے ہوئے آ جاتے ہیں، وہ بھی اپنی خدمات پیش کریں تاکہ ہمیں افطاری اور سحری نہ ملنے کی شکایتیں ہی نہ سننی پڑیں۔ کسی این جی او کو سینکڑوں توے اور چولہے لا کر دینے کی ذمہ داری سونپی جائے کہ سب طرف خشک کھانا تو دیا جا رہا ہے خواتین خود پکا کر گھر والوں کیلئے روزے کا سامان تیار کر سکتی ہیں۔
چونکہ حکومت اور فوج نے خود کہا ہے کہ یہ زمینی حملوں کا سلسلہ بہت طویل نہیں ہو گا اس لئے بعدازاں آبادکاری کا مسئلہ درپیش ہو گا۔ جیسا کہ بحریہ ٹائون والوں نے پیشکش کی ہے کہ وہ ایک ہزار گھر بنا کر دیں گے اسی طرح سارے بڑے صنعت کاروں جیسے منشا دائود وغیرہ کو بھی ایک ایک ہزار گھروں کی ذمہ داری لینی چاہئے۔ ابوظہبی اور دوبئی والوں کو تعلیمی ادارے اور یونیورسٹی بنانے کا عہد کرنا چاہئے اور چین کو اس علاقے میں سڑکیں بنانے کا کام اپنے ذمے لینا چاہئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان، جنوبی کوریا، جرمنی، روس اور مغربی یورپ میں اسی طرح سارے وسائل کو بروئے کار لا کر ملکوں کی نئی شکل بنا دی گئی تھی۔ حکومتوں کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہوتا ہے۔ آخر کو کشمیر میں ترکی کی حکومت نے خود ہی لڑکیوں کے کالج اور پورا سیکرٹریٹ بنا کر دیا تھا کہ نہیں۔ کیوبا کے ڈاکٹروں نے بچّوں کی پوٹیاں صاف کیں، منہ دھلائے، دن رات کام کیا۔ توقع ہے کہ ہمارے ملک کے بہت سے سوشل ورکرز سامنے آئیں گے۔ خوراک اور سامان کی کوئی کمی نہیں البتہ خواتین یہ نہ کریں کہ آج کے زمانے کے فیشن کے طرح بہ طرح کے نوکیلے کرتے ان خواتین کے لئے بھیج دیں۔ پچھلے سیلاب میں ہم نے ایسے نقشے دیکھے تھے۔ ابھی تو مون سون کی بارشیں آنی ہیں۔
ایسے ماحول کے لئے تیاریاں کرنی بہت ضروری ہیں۔ یہ تو بہرحال ہونا ہے کہ اپنے علاقوں سے نکلنے والے لوگ کراچی، لاہور، پشاور و دیگر علاقوں کی جانب منتقل ہوں گے۔ یہ بھی ہے کہ کچھ خاندان افغانستان اس لئے جائیں گے کہ ان کی ثقافت اور زبان ایک جیسی ہے۔ چکن کے ایک پیس کے شوربے میں پورا خاندان کھانا کھا سکتا ہے۔
ان سب انتظامات کیلئے سوشل ویلفیئر کے ادارے بالکل کام کر رہے ہوں گے۔ جو سب سے خطرناک بات ہے کہ ابھی تک مولوی فضل اللہ، شاہد اللہ شاہد، حقانی گروپ اور صوفی محمد کے گروپ میں سے ایک بھی پکڑا نہیں گیا ہے۔ بس کی جڑ تو یہی لوگ ہیں۔ اسلحہ کی فیکٹریاں پکڑی جا رہی ہیں، بارودی سرنگیں پکڑی جا رہی ہیں مگر لگتا ہے کہ وہ تمام لوگ جو سوات، مالاکنڈ سے لے کر وزیرستان میں سولہ سولہ سال کے بچّوں کو حوروں سے ملنے کیلئے خودکش دھماکوں کے لئے بھیجا کرتے تھے وہ ظالم کہیں شام، صومالیہ یا عراق کی طرف تو نہیں نکل گئے۔ ویسے بھی جنوبی پنجاب سے لے کر بہاولپور اور آزاد کشمیر میں مختلف ناموں سے کام کرنے والے دہشت گرد، ان کو بھی پکڑا جائے تو میرے ملک کے بچّوں کو ہنسنا اور مائوں کے کلیجے ٹھنڈے ہوں گے۔ یہ برساتی مینڈکوں کی طرح پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس وقت دائیں اور بائیں بازو کی سب انجمنیں خاموشی کی چادر میں لپٹی بیٹھی ہوئی ہیں۔ بے شک ترانے نہ لکھیں۔
وفاقی حکومت کو اب ایک اور قدم بڑھانا چاہئے۔ فاٹا کو باقاعدہ ایک صوبے کا درجہ دینا چاہئے کہ نوجوان پڑھے لکھے لوگ سامنے آئیں۔ ہم نے یہ بات صدر مملکت کے گوش گزار بھی کی تھی۔ توقع ہے کہ وزیرستان ایک ترقی یافتہ صوبے کی شکل میں سامنے آئے گا۔
تازہ ترین