• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہانی کا آغاز اس وقت ہو گیا تھا جب گزشتہ عام انتخابات میں چکری سے تعلق رکھنے والے لیگی رہنما چوہدری نثار نے راولپنڈی کے صوبائی حلقہ سے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور پارٹی قیادت کی مرضی کے بغیر شیر کی بجائے گائے کے انتخابی نشان پر اپنا آپ منوانے کی کوشش کی تھی۔ پارٹی کے باخبر حلقے جانتے ہیں کہ بطور آزاد امیدوار صوبائی حلقے سے انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ صرف پارٹی ٹکٹ کا تنازع نہیںتھا بلکہ چوہدری نثار کی نظریں تین دہائیوں سے زائد عرصہ مسلم لیگ ن کے ساتھ غیر مشروط وفاداری کے صلے کے طور پر پنجاب کی وزارت اعلی پر لگی ہوئی تھیں۔وہ توقع کر رہے تھے کہ بطور پارٹی رہنما ان کے قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے پنجاب کی وزارت اعلی اس بار شریف خاندان سے باہر دے کر مسلم لیگ ن کے جمہوری پارٹی ہونے کا بھی ثبوت دیا جائے گا۔
یہ وہ پہلا اختلاف تھا جو چوہدری نثار اور شریف برادران کے درمیان پیدا ہوا تاہم عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی بھرپور کامیابی نے اس پر تو مٹی ڈال دی لیکن ٹیکسلا سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی آبائی نشستوں پر شکست کھانے کی وجہ سے چوہدری نثار کی اہمیت پارٹی قیادت کی نظروں میں کم ہوگئی۔ اس کے بعد جب وفاقی کابینہ میں قلمدانوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو بھی زیادہ تر معاملات چوہدری صاحب سے بالا بالا ہی طے کئے گئے۔تب سے ہی پارٹی کے اندر بھی یہ چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ شریف برادران کے بعد تیسری اہم شخصیت کے طور پرمانے جانے والے چوہدری نثار اپنی یہ حیثیت کھو چکے ہیں۔
میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو بطور چیف ایگزیکٹو اور وفاقی کابینہ کے رکن کے دونوں رہنماؤں کے درمیان فاصلہ پیدا ہونا بھی ایک فطری امر تھا لیکن جب وزیر اعظم کے زیادہ قریب ہونے کا تاثر دینے کے لئے وفاقی وزراءمیں کھینچا تانی شروع ہوئی اور قومی اسمبلی میں بھی ایسے مناظر دیکھنے کو ملے کہ انہی وزراء میں سے ہر کوئی اس انتظار میں رہتا کہ وزیر اعظم کے ساتھ والی نشست خالی ہو اور وہ اس پر بیٹھ کریہ تاثر دے کہ وہ دوسروں سے زیادہ اہم ہے تو چوہدری نثار غیرارادی طور پر پیچھے کھسکنے لگے۔اسی دوران سابق صدر پرویز مشرف کے معاملے پر جب وزیر اعظم کو اعتماد میں لئے بغیر چوہدری نثار نے وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے ہمراہ آرمی چیف سے ملاقات کی اور انہیں یقین دہانی بھی کرا دی کہ پرویز مشرف کو خصوصی عدالت میںصرف فرد جرم عائد کرنے کے لئے پیش کر دیا جائے تو اس کے بعد ان کی بیرون ملک روانگی کی ضمانت وہ دیتے ہیں لیکن تب بھی وہ یہ بھول گئے کہ میاں نواز شریف اب ملک کے وزیراعظم کے عہدے پر فائزہو چکے ہیں اور عہدے کے تقاضے ذاتی دوستیوں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ وفاقی کابینہ کی میٹنگز میں بھی پرویز مشرف کو چھوڑ کر گورننس پر توجہ دینے کے وزیر داخلہ کے اختلاف رائے کو کوئی اہمیت نہ دی گئی اور سابق آمر کو سبق سکھانے کی تجویز پر عمل درآمد جاری رکھا گیا۔اسی دوران جیو نیوز کی بندش کا مسئلہ پیدا ہو گیا تو اس کو حل کرنے کی حکومتی حکمت عملی پر بھی چوہدری نثار نے تحفظات ظاہر کئے۔اسی دوران ان کی مخالف وزراء لابی نے جسے لاہوری کشمیری گروپ کے لقب سے جانا جاتا ہے اپنے دوست اینکرز اور صحافیوں کے ذریعے چوہدری نثار کے خلاف خوب پروپیگنڈا بھی کرایا جس کا تمام ریکارڈ ان کے پاس محفوظ ہے۔ کہانی یہیں تک محدود نہ رہی بلکہ بطور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ملکی تاریخ میں پہلی بار مہینوں کی عرق ریزی کے بعد ایک جامع قومی سلامتی پالیسی تیار کر کے حکومت کو پیش کی تاہم اس اہم دستاویز پر پارلیمنٹ میں بحث کرانے کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کے حصول کی ان کی تجویز پر عمل درآمد کی بجائے وزیر اعظم نے صرف اسے پیش کرنے کا اعلان کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ اپوزیشن کی طرف سے اس قومی سلامتی پالیسی پر سخت تنقید کی گئی تو بھی وفاقی کابینہ کے کسی رکن نے اس کا دفاع کرنے کی زحمت گوارا نہ کی جس نے چوہدری نثار کو مزید دلبرداشتہ کر دیا۔انہوں نے اپنے دوستوں کے سامنے شکوہ بھی کیا کہ اس پالیسی کی روشنی میں نہ تو پارلیمنٹ میں قانون سازی کی گئی اور نہ ہی ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی سفارشات کو اہمیت دی گئی۔
پالیسی پر عمل درآمد کے لئے ان کی بار بار نشان دہی کے باوجود فنڈز تک فراہم نہ کئے گئے۔اسی طرح تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی جو حکومت عملی انہوں نے اختیار کی اورجس کی بدولت پہلی بار طالبان کے اندر واضح تقسیم نظر آئی۔ملکی تاریخ میں یہ بھی پہلی بار ہوا کہ طالبان نے عوامی مقامات پر دہشت گردی سے لاتعلقی ظاہر کرنے کا اعلان کیا لیکن وزیر اعظم کی طرف سے انہیں سائیڈ لائن کر کے ایسی کمیٹی قائم کر دی گئی جس کے بارے میں چوہدری نثار نے نجی محفلوں میں برملا کہا کہ کمیٹی کے کام کرنے کے طریقہ کار،ذاتی تشہیر کے شوق اور اس میں شامل بعض ارکان کی موجودگی میں مذاکرات کی نتیجہ خیزی پہلے روز سے ہی مشکوک ہو گئی تھی۔وفاقی بجٹ کی تیاری میں بھی انہیں ہوا تک نہ لگنے دی گئی جس کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جانا بند کر دیا اور خود کو گھر اور پنجاب ہاؤس تک محدود کر لیا۔اسی دوران وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کے حوالے سے اہم اجلاس منعقد ہوئے اور اسی طرح کے ایک اجلاس میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا بھی فیصلہ کیا گیا لیکن نہ چوہدری نثار نے ان میں شرکت کی اور نہ ہی حکومت نے انہیں اعتماد میں لینے کی کوئی کوشش کی بلکہ ان کے متبادل کے طور پر وفاقی وزیر عبد القادر بلوچ کو کچھ ذمہ داریاں تفویض کر دی گئیں۔ان معاملات کے دوران جب ان کی صحت خراب ہوئی تو وہ لاہور میں وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کو بتا کر آئے کہ وہ راولپنڈی جا کر دو تین دن آرام کریں گے لیکن شومئی قسمت کہ وہ گھر پہنچے توکراچی ائرپورٹ پر حملہ ہو گیا جس کے بعد ایک بار پھر توپوں کا رخ ان کی طرف ہو گیا کہ وزیر داخلہ غائب ہیں،ایک بار پھر ان کی پارٹی نے ان کا دفاع نہ کیا بلکہ وزیر اعظم نے انہیں زبردستی فوری طور پر کراچی پہنچنے کی ہدایت کر دی۔ ان کے کراچی دورے کی فوٹیج دیکھ کر ان کی صحت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اسی شدید ذہنی دباؤ کے نتیجے میں انہیں واپسی پر اسپتال جانا پڑا جہاں ان کی انجیو گرافی ہوئی۔بالآخر انہوںنے فیصلہ کر لیا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر وہ بیرون ملک چلے جائیں گے جہاں سے وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلے سے پارٹی قیادت کو آگاہ کر دیں گے تاہم ان کے عزائم کی بھنک پارٹی قیادت کو پڑ گئی جس کے بعد انہیں منانے کے جتن شروع کر دئیے گئے۔اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ان کی طویل ملاقات میں تمام معاملات طے پا گئے ہیں لیکن انہوں نے نام لے کر جو سخت گلہ کیا کہ ان کے خلاف ایسے پارٹی رہنما نے پروپیگنڈہ کیا جس کے نجی اسکینڈل سے بچہ بچہ واقف ہے اور جس کا کردار اس کے موجودہ منصب کے لئے بھی بدنامی کا باعث ہے۔انتہائی مصدقہ اطلاعات کے مطابق چوہدری نثار کے شکوے شکایتوں کے بعد اس سارے ڈرامے کا جو ڈراپ سین ہونے جا رہا ہے وہ آئندہ چند دنوں میں ایک اہم وفاقی وزیر کے قلمدان کی تبدیلی کی صورت میں سامنے آئے گا جبکہ غداری کیس میں فرد جرم کا سامنا کرنے والے سابق صدر پرویز مشرف کے مقدمے میں وفاقی حکومت کاآئندہ رویہ اورعدالتوں میں اس کا مؤقف بھی بہت کچھ آشکار کر دے گا۔ یہ تو ہیں پارٹی کے اندرونی معاملات لیکن انا پرستی کے اس کھیل میں حکمرانوں کو یہ فکر بھی ہونی چاہئے کہ اس وقت پوری قوم کی یک جہتی کی ضرورت ہے ۔ ملک کی مسلح افواج ملکی سلامتی کی فیصلہ کن جنگ لڑ رہی ہیں جس میں بطور وزیر داخلہ چوہدری نثار کا مکمل فعال ہونا انتہائی ناگزیر ہے۔
اس جنگ کے رد عمل کے طور پر ممکنہ خطرات سے نمٹنے کیلئے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ وزارت داخلہ میں ہی کئے جا سکتے ہیں نہ کہ پنجاب ہاؤس میں بیٹھ کر خاموش تماشائی بن کر۔ نئی صورتحال میں وزیر داخلہ کو خود بھی اپنے روئیے میں تبدیلی لانا ہو گی،بطور پارلیمانی لیڈر جہاں پارٹی کے ارکان کی ان تک رسائی ہونی چاہئے وہیں پل پل تبدیل ہوتی صورتحال سے آگاہ رہنے اور دوسروں سے رابطے میں رہنے کیلئے موبائل فون نہ رکھنے جیسی عادتیں اب ترک کرنا ہوں گی۔انہیں اب ماضی کے اپوزیشن لیڈر کے خول سے بھی باہرآنا ہو گا اور پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مفاہمتی پالیسی پر مبنی رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ وزیر اعظم کو پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے سب کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرنے چاہئیں ۔
تازہ ترین