• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تیری صورت کردی
کیا تیرا جسم تیرے حسن کی حدت سے جلا
راکھ کس نے تیری سونے کی سی رنگت کردی
(احمد ندیم قاسمی)
آج کے اخبارات کی سرخیاں ہیں کہ اسرائیل نے غزہ کو خون میں نہلا دیا۔ شہید ہونے والوں کی تعداد 84 سے تجاوز کر گئی جبکہ زخمیوں کی تعداد 608 بتائی جارہی ہے بھاری اسلحے کا استعمال فضائیہ کے ذریعہ کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ صرف بیان بازی کی حد تک متحرک ہوئی ہے جبکہ تمام خلیجی ممالک خاموش ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بیان دیا ہے جو قابل ستائش ہے۔ ہم خود حالت جنگ میں ہیں اس کے باوجود حکومت پاکستان نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے۔ مرنے والوں میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بین الاقوامی این جی اوز کو یہ بربریت دکھائی نہیں دیتی۔ وہ اس ظلم پر خاموش کیوں رہتے ہیں چونکہ مغربی ممالک این جی اوز کی مالی معاونت کرتے ہیں اس لئے بین الاقوامی این جی اوز مہر بہ لب ہیں۔ بہرحال ہمارا ملک اگرچہ اسلامی ملک ہے مگر چھوٹا ملک ہے اور خود ہر وقت اپنے مالی مسائل میں گھرا رہتا ہے۔ سیاسی طور پر بھی ہر وقت بے یقینی کی صورتحال رہتی ہے۔ ہر دوسرا آدمی حکومت گرانے کی بات کرتا ہے۔ ایسے حالات میں ہم تو فلسطینی مسلمانوں کی کوئی مالی یا جسمانی امداد کرنے سے قاصر ہیں۔ بہرحال بیان بازی کی حد تک ہم کافی تیز ہیں اور بیان جاری کرتے رہیں گے باقی اپنے آقائوں کو ناراض کرنا ہمارے بس میں نہ تھا اور نہ ہے۔ یہ چھوٹا ملک ہے۔ یہاں کے حکمران اپنے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ میاں نواز شریف صاحب جمعرات کو اپنی کابینہ کے چیدہ چیدہ وزراء کے ہمراہ کراچی تشریف لائے اور انہوں نے انتہائی مصروف دن گزارا۔ قائم علی شاہ صاحب کو روزہ لگ گیا تھا اور انہوں نے کراچی کی آبادی بار بار 22کروڑ بتائی جس پر وزیراعظم نے ان کی توجہ مبذول کروائی کہ پاکستان کی کل آبادی 18کروڑ ہے۔ شاہ صاحب نے سوچا ہوگا کہ جتنی آبادی زیادہ بتائیں گے اتنے ہی زیادہ فنڈر مرکزی حکومت سے جاری ہوجائیں گے، میاں صاحب نے اربوں روپے دینے کے وعدے کئے ہیں کہیں گرین بس کے نام پر اور کہیں کراچی سے لاہور تک موٹر وے بنانے کیلئے، ارادے برے نہیں مگر یہاں تو عمران خان، چوہدری برادران، شیخ رشید اور طاہر القادری صاحب میاں صاحب کو گھر بھیجنے کی تیاری کیلئے بیٹھے ہیں ایسے میں یہ منصوبے کون مکمل کرے گا؟ یا تو پھر آنے والی حکومت کے حکمران ان منصوبوں پر عمل کریں گے۔ ایک بات ضرور ہے کہ اگر میاں صاحب کو موقع مل گیا اور یہ منصوبے اگلے انتخابات سے پہلے مکمل ہوگئے تو اگلے انتخابات میں میاں صاحب چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن جائیں گے اور ان کا اقتدار طول پکڑ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے پرستار میاں صاحب کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں کبھی صادق اور امین کی آڑ میں اور کبھی انقلاب اور لانگ مارچ کی دھمکیوں سے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو کام کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ ایسی باتیں ہمارے دوست خورشید شاہ صاحب نے بھی کی ہیں مگر ان کی وجوہات اور ہیں۔ وہ تو جمہوری اداروں کو پنپتا دیکھنا چاہتے ہیں جو کہ ایک ناممکن کام ہے۔ پی ٹی آئی والے 14اگست کے بعد نیا پاکستان بنانے کی باتیں کررہے ہیں۔ مجھے یاد آگیا۔ 1970ء میں ڈھاکہ کے الگ ہونے کے بعد بھٹو صاحب بھی نیا پاکستان بنانے کی باتیں کرتے تھے۔ انہوں نے تو واقعی نیا پاکستان بنا لیا تھا۔ قائد اعظم کے پاکستان کو خیرباد کر دیا تھا وہاں اب اکثریتی صوبے میں بنگلہ دیش وجود میں آ چکا تھا اور شیخ مجیب کی حکومت بن چکی تھی۔ اب جب لوگ پھر سے نیا پاکستان کے نعرے لگاتے ہیں تو آپ یقین کریں میرا دل دہل جاتا ہے کیونکہ ہم اپنی جوانی میں ایک نیا پاکستان دیکھ چکے ہیں اور اب دوسرا نیا پاکستان دیکھنے کی سکت نہیں ہے۔ بات میاں نواز شریف کی کراچی آمد اور پھر گورنر ہائوس میں مصروف دن گزارنے سے شروع ہوئی تھی اور نجانے کہاں نکل گئی۔ تو بات یہ ہے کہ میاں صاحب نے تاجروں سے دل کھول کر باتیں کی ہیں تاجروں نے بھتے اور اغوا برائے تاوان کی شکایت کی ہے مجھے نہیں معلوم کہ میاں صاحب کے پاس اس مسئلے کا کیا حل ہے مگر میرے پاس تو یہی حل ہے کہ سمری ملٹری کورٹ بنائے جائیں اور ایک دن میں فیصلہ ہونا چاہئے۔ اگر یہ ہوگیا تو آپ یقین کریں کہ سرمایہ دار بھی محفوظ ہو جائیں گے اور جرائم خاص طور پر اسٹریٹ کرائم میں خاطر خواہ کمی ہوگی آپ کو یاد ہوگا میں نے اپنے سابق کالموں میں متعدد بار لندن میں ہونے والے ہنگاموں کا ذکر کیا اور پھر بتایا کہ کس طرح وہاں کی عدالت کے فوری فیصلے آنے سے تین روز سے جاری ہنگامے چشم زدن میں ختم ہوگئے۔ میں نے کئی مرتبہ انہی کالموں میں لکھا ہے کہ فی زمانہ تنظیمی کارکنوں اور اسٹریٹ کرائم کرنے والوں کیلئے جیل کوئی بڑی چیز نہیں۔ وہاں ان کی بیرکیں پہلے سے اپنی اپنی تنظیموں کے نام سے الاٹ یا مخصوص ہیں۔ نیا جانے والا اپنی پہچان کرواتا ہے اور اپنی من پسند بیرک میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے یا تو وہ پہلے ہی سے بیرک کا ممبر ہوتا ہے اور تھوڑے دنوں کیلئے کراچی گیا تھا یا پھر وہ نئی ممبر شپ لے لیتا ہے۔ وہاں اسپانسر اور سیکنڈر اسے فوراً مل جاتے ہیں۔ میں نے پروپوزر کو اسپانسر لکھ دیا ہے خیر معنی ایک ہی ہیں بس اب وہ بھی کلب کا ممبر ہے۔ جس طرح آپ سندھ کلب اور جیمخانہ کے ممبر ہیں اسی طرح وہاں بھی تمام سہولیات کے ساتھ کلبیں موجود ہیں پھر اسی کلب کے منتظمین نئے آنے والے ممبر کو وکیل بھی مہیا کر دیتے ہیں اور پھر ممبر کا جیل آنا جانا لگا رہتا ہے۔ جب جرم کاروبار بن جائے اور اس سے آمدنی شروع ہوجائے تو پھر اس کی بیخ کنی عام ذرائع سے ممکن نہیں کیونکہ ہر کاروباری شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ کاروبار بڑھے اور اس میں اضافہ ہو۔ کل میاں نواز شریف کے ساتھ ملاقات میں تاجروں نے شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ میرے خیال میں رینجرز اور فوج میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ رینجرز بھی فوجی ہیں اور وہی ٹریننگ انہوں نے بھی لی ہوئی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سمری ملٹری کورٹس قائم نہیں ہورہیں جس دن فوجی عدالتیں قائم ہوگئیں اور پہلے دس کیسوں کے فیصلے آ گئے آپ خود اپنی آنکھوں سے جرم میں کمی ہوتا دیکھ لیں گے۔ پولیس کی کارکردگی بھی بڑھ جائے گی کیونکہ روز جب فوجی عدالتوں میں گواہی دینے جائیں گے تو کچھ سیکھ کر ہی آئیں گے۔ وزیر اعظم کی ڈھائی گھنٹے کی شہریوں اور سرکاری عہدیداروں کے ساتھ چیف منسٹر کی موجودگی میں کی جانے والی میٹنگ سے اچھے نتائج آنے کی توقع ہے اور امید ہے کہ رمضان کے بقایا دو عشرے امن و سکون سے گزر جائیں گے اور شہر میں ہونے والا موت کا رقص تھم جائے گا۔ آخری میں مرحوم احمد ندیم قاسمی کے حسب موقع اشعار پیش خدمت ہیں۔
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کردی
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تیری الفت نے محبت میری عادت کردی
تازہ ترین