• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپریشن راہِ نجات اور آپریشن راہِ راست کے بعد آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ شمالی وزیرستان میں آخری جنگجو کے خاتمے کے عزم کے ساتھ جاری ہے ۔ ہماری مسلح افواج اس مشکل ترین محاذ پر برسر پیکار ہیں۔ اس آپریشن کی کامیابی کا بڑی حد تک انحصار پاک افغان سرحد کی مؤثر نگرانی پر ہےکیونکہ دریائے کنہڑ اور باجوڑ ایجنسی سے ملحقہ علاقے انتہائی دشوار گزار ہیں ۔ اب جبکہ افغانستان میں اشرف غنی واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوچکے ہیں تو دیکھنا یہ ہےکہ وہ کس طریقے سے اس پورے خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنے میں پاکستان کی مدد کرتے ہیں۔ ایک جانب مسلح افواج کے جوان اور افسران اس محاذ پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں ۔ دوسری جانب پاکستان کے جمہوری نظام کی اساس سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہوتے ہوئے بھی کچھایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ایجنڈے مختلف ہیں۔
گزشتہ روز کراچی میں رمضان المبارک کے دوران ایک انتہائی فقید المثال جلسہ عام مزارِ قائد سے متصل جناح پارک میں منعقد کیا گیا جس میں کئی لاکھ افراد نے شرکت کی۔ اس جلسے کا مقصد پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور اس امر کا اعادہ کرنا تھا کہ اس کڑے وقت میں جب فوج نے سول انتظامیہ کی مدد کا بیڑا اٹھایا تو قوم کو بھی اپنے شانہ بشانہ کھڑا دیکھےاور آج ملک کے عوام اپنی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس پروگرام کی ایک انفرادیت اور بھی تھی کہ سیاسی اعتبار سے یہ دنیا کا انتہائی منفرد اجتماع تھا جس میں شرکاء کے لئے افطار کا انتظام بھی کیا گیا۔ سینکڑوں اور ہزاروں افراد کا بندوبست کرنا تو ممکن نظر آتا ہے لیکن کئی لاکھ افراد کے روزہ افطار کا بندوبست کرنا یقینا جنات صفت انسانوں کے بس کا ہی کام تھا لیکن سب سے خوبصورت موقع اس وقت سامنے آیا جب اس جلسے میں موجود ہر شخص نے انتہائی نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر پاکستان کی افواج کو سلیوٹ پیش کیا۔ یہ سلیوٹ اس ادارے کی کارکردگی کے اعتراف کا مظہر تھا اور یہ سلیوٹ اس قوت کا تھا جسے جمہور کہا ہے جو جمہوریت کی اساس ہے۔ قوم نے اپنی فوج کے پیچھے کھڑے ہوکر اپنے اتحاد کا مظاہرہ تو کر لیا ، لیکن افسوس کہ سیاسی اکابرین آج بھی منتشر نظر آتے ہیں۔ کوئی انقلاب کی نوید دے رہا ہے تو کوئی سونامی مارچ کا اعلان کررہا ہےاس لئے کہا جاسکتا ہے یوں پاکستان کے جمہوری نظام کو کسی سے خطرہ نہیں بلکہ البتہ ان قوتوں سے ضرور خطرہ محسوس ہوتا ہے جو جمہوری کہلانے کی دعویدار ہیں۔
اس امر میں دو رائے نہیں کہ ہمارے نظام میں خرابیاں موجود ہیںاوراس میںموروثیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لیکن اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ اس نظام کو ہی لپیٹ دیا جائے۔ تدبر اور دور اندیشی کا تقاضا ہے کہ اسی نظام میں رہتے ہوئے ایسی اصلاحات لائی جائیں کہ ملک میں حقیقی جمہوری نظام کی راہ ہموار ہوجائے۔ دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ نظام میں تبدیلی کے لئے طاقت کا استعمال طبقاتی ارتکاز کو جنم دیتا ہے۔ یوں تو انقلاب کی جدوجہد کے دوران معاشرہ تین واضح طبقات میں تقسیم ہوتا ہے۔ ایک وہ جو انقلاب لانا چاہتا ہے اور دوسرا وہ جو انقلاب کو روکنا چاہتا ہے جبکہ تیسرا وہ طبقہ ہے جو بظاہر اپنے آپ کو اس لڑائی سے علیحدہ رکھنا چاہتا ہے ۔ ایسی صورتحال میںمکمل انقلاب کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوپاتا۔ لہٰذا پہلی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ رائے عامہ کو ہموار کرتے ہوئے اصلاحات کا راستہ اختیار کیاجائے۔ آج پاکستان دہشت گردی کا شکار ہو کر تنہائی کی جانب جا رہا ہے۔ اس موقع پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو یک زبان ہو کر سب سے پہلے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے چلائی جانے والی مہم کا ساتھ دینا چاہئے اور اس کے ساتھ آئی ڈی پیز کی عارضی آبادکاری کے لئے فوری اقدامات کیے جانے چاہئیںجو اس وقت ناکافی نظر آتے ہیں اور حکومت اس بات پر بھرپور توجہ دے کہ آئی ڈی پیز کے نقصانات کم ہوں اور وہ پورے ملک میں پھیلنے کے بجائے ایک محدود مقام تک رکے رہیں۔
آج پاکستان کو اتحاد کی جتنی ضرورت ہے، ماضی میں شاید کبھی نہیں رہی۔ بین الاقوامی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اندرونی معاملات کو خلفشار کی جانب جانے سے روکنے کے لئے ہمیں متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا اوروطن عزیز کی بقاء و سلامتی کے لئے اپنا راست کردار ادا کرنا ہوگا۔ مادرِ وطن کے دفاع کے لئے جانوں کا نذرانہ دینے والے فوجی جوانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا ۔اس موقع پرسیاسی قیادت کو ملک کی نظریاتی سرحدوں کے نگہبان کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے افکار و نظریات کے مطابق سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا۔ سیاسی قوتیں اس مشن کی تکمیل کرکے سیاسی نظام اور ملک کے مستقبل کے لئے کسی متفقہ راہ کا تعین کرسکتی ہیںجس پر چل کر نہ صرف شدت پسندی کو ختم کرنا ممکن ہے بلکہ ریاست کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔ اس ضمن میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائدا لطاف حسین کا استدلال خاصا مضبوط ہے کہ وہ ملک سے شدت پسندی کے خاتمے کے لئے گزشتہ کئی دہائیوں سے کوشاں ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ برداشت اور تحمل کی بات کی ہے ۔ اب انتظار اس وقت کا ہے جب ملک کے نظریاتی نگہبان اپنے آپ کو اس قابل کریں کہ قوم انہیں سلام پیش کرے۔
تازہ ترین