• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس کا مرحلہ ہمار ے سدا بہار جذباتی ملک کی آفاقی سیاست سے تمام ہوا۔ اس ’’ختم شد‘‘ کا اظہار ملک کی دو سیاسی جماعتوں ، جن کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ اسٹریٹ پاور رکھتی ہیں، کے دواحتجاجی مظاہروں سے ہوچکا۔ ان میں سے ایک تو عمران خان کی پی ٹی آئی، جس کی فعالیت کادارومدار عمران خان کے موڈ پر ہے ، اور دوسری علامہ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک۔ اُنھوں نے اپنی پوری کوشش کر ڈالی لیکن وہ کوئی بھونچال تو کیا ہلکا سا ارتعاش بھی پیدا نہ کرسکے ۔
نجومیوں اور پنڈتوں نے کہا تھا کہ زیر ِ آسمان ستارے برہم ہیں، چنانچہ اگست میں میدان سجے گا۔ خوشی تھی کہ چلو، جو بھی افتاد ہو، موجودہ صورت ِحال سے بہرطور بہتر ہوگی ۔ لیکن اس وقت بجھی بجھی سی، نیم دلی سے چلائی جانے والی تحریک ایک علامتی کاوش ہے ، اس سے پہاڑ کیا سرکیںگے، خاک تک نہیں اُڑے گی۔ احتجاج کرنے کے ماہرتھکاوٹ کا شکار ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ ابھی اگست 2014کے دھرنوں کی تھکن سے بھی نہیں نکلے۔ اُن دھرنوں نے غیر ضروری طور پر حامیوں کا اتنی دیر تک امتحان لیا، نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ اچھے کمانڈروں کو پتہ ہوناچا ہئے کہ کب رکنا یا کب پیچھے ہٹنا ہے ۔ عمران خان من چلے ہجوم کے سنگ ناچ گانے میں مصروف ، شاموں سے تفریح کا سا لطف لے رہے تھے ۔ اُن میں سے اکثر تھکن اتارنے گھر، یا ادھراُدھر چلے جاتے ۔ تاہم ڈاکٹر قادری کے پیروکار، جن میں خواتین بھی شامل تھیں، کئی ہفتوں تک پارلیمنٹ کےسامنے آسمان تک موجود رہے ۔ اُن کے لئے وہ وقت انتہائی آزمائش کا تھا۔
وہ دھرنے اس مفروضے کی بنیاد پر تھے کہ ایک مرتبہ جب زمین ہموار ہوجائے گی تو ’’تیسرا امپائر ‘‘ مداخلت کرے گا، اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس سے کیا مراد تھی۔ تیس اگست تک اسلام آباد میں حکومت نامی کوئی چیز نہیں تھی۔ پرعزم اور سخت جان احتجاجی مظاہرین کے خلاف پولیس فورس کو آزما کر دیکھ لیا گیالیکن خاص طور پر قادری صاحب کے پیروکاروں نے اُسے مار بھگایا۔ وزیر ِاعظم اسلام آبا د چھوڑ کر اپنے ’’کیمپ ڈیوڈ ‘‘، جاتی امرا چلے گئے ۔اس دوران حکمران جماعت بدترین صورت ِحال کی توقع کررہی تھی۔زیادہ نہیں، بس ایک دو گاڑیوں میں ٹرپل الیون کے جوانوں کی آمدہی کافی تھی تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نواز شریف حکومت بری طرح ہل کررہ گئی لیکن اپنی جگہ پر موجود رہی ۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا جس میںجمہوریت کے دفاع کے لئے گرج چمک سنائی دی۔ بعد میں یہ افسانہ طرازی کی گئی کہ انہی تقریروں نے جمہوریت کا دفاع کیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے کچھ اپنی وجوہ کی بنا پر ہاتھ روکاتھا۔
ایک مرتبہ جب بات واضح ہوگئی تھی کہ تیسرا امپائر انگلی کھڑی نہیں کرے گا تو عمران اور قادری کو دھرنوں سے چپ چاپ اٹھ کر چلے جانا چاہئے تھا، کیونکہ اُن کے احتجاج کی بنیادیں سرک چکی تھیں۔ اس کی بجائے ، خدا ہی جانتا ہے کہ وہ کس کے مشورے ، یا کس امید کے سہارے دھرنوں کو طوالت دیتے رہے ۔ عمران خان اپنے کنٹینرسے بے سروپاتقریریں کرتے رہے جبکہ ڈاکٹر قادری بدعنوانی سے لے کر ملک کے سماجی اور معاشی ڈھانچے کو سدھارنے کی طویل تقریریں کرتے سنائی دئیے ۔ اُن کا کہنا تھاکہ وہ آگاہی کی روشنی پھیلا رہے ہیں ، حقیقت یہ تھی کہ وہ محض کنفیوژن اور پریشانی بڑھا رہے تھے ۔ اُس کنفیوژن کے اثرات، آج دوسال بعد، بھی واضح دیکھے جاسکتے ہیں۔ آج وہ دونوں رہنما ویسا جوش پیدا کرنے میں ناکا م رہے ۔ اور میڈیا جو جوش کوہوش نہیں آنے دیتا، اس مرتبہ بوریت کا شکار ہوکر بیگانگی اختیار کرگیا۔ جب آپ ایک ہی اسکرپٹ دہراتے جائیں گے تو دلچسپی ختم ہوجائے گی۔
چنانچہ ایک مرتبہ پھر حکمران طبقہ خود کو مبارک باد دے رہا ہے۔ شروع میں تو پاناما لیکس کی ضرب بہت کاری تھی ، سمندر پار اکائونٹس اور مے فیئرجائیداد کے متعلق جاندار انکشافات بہت جان گسل تھے ۔ اس سے پہلے بھی بہت سے ان اکائونٹس اور جائیدادوں کے بارے میں جانتے تھے ، اور عام تاثر یہی تھا کہ شریف برادران کے مالی امور شفاف نہیں ہیں ، لیکن کوئی کھل کر بات نہیں کرتا تھا۔ تاہم غیر جانبدار اور مستند ذرائع سے ہونے والا انکشاف بہت دوٹوک تھا۔ یہ الزامات کسی مشکوک ایجنسی کے لگائے ہوئے نہیں تھے ۔ حکمران خاندان کے لئے وہ صورت ِحال انتہائی شرمناک تھی، اور ہونی بھی چاہئے تھی، پریشانی واضح دکھائی دے رہی تھی۔ حتیٰ کہ احتیاط اور سکون کے مظہر، ہز ایکسی لینسی، جناب صدر ِ مملکت بھی گویا ہوئے کہ پاناما لیکس ’’ آسمان کی فرستادہ‘‘ ہیں۔ خیر محترم کو تبصرے پر بعد میں بہت سی وضاحت بھی کرنا پڑی۔ تاہم اُس وقت ہوا ایسی چل رہی تھی کہ شہباز شریف کی بیگم نے بھی کہہ دیا کہ اس واقعہ سے سبق سیکھتے ہوئے شریف خاندان کو اپنی دولت بیرونی ممالک سے واپس لا کر سادہ زندگی بسر کرنا سیکھنا چاہئے ۔ چونکہ محترمہ کو ہمیشہ سے خاندان سے باہر کا فرد سمجھا گیا ہے ، چنانچہ ہم تصور کرسکتے ہیں کہ اُن کے اس تبصرے کو کیا سمجھا گیا ہوگا۔ تاہم آج کل یہ محاذ مکمل طور پر خاموش ہوچکا ہے ۔ کیا کوئی آسمانی یقین دہانی ہوچکی ؟
پاناما لیکس کے سرد خانے میں چلے جانے سے حکمران طبقے کا ڈرائونا خواب ختم ہوچکا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوںکو بھی جلد اس بات کی سمجھ آجائے گی کہ ریفرنس اور جوڈیشل کمیشن کی لاٹھی سے لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حکومت کا ارادہ کمیشن قائم کرنے کا کبھی بھی نہ تھا، وہ روز ِاول سے ہی اس بات پر بہت واضح تھی۔ ان ماہر کھلاڑیوں کو سیاست ، جس میں ایک دن بھی بہت ہوتا ہے ، کے پینتیس برسوں کا تجربہ ہے ۔ وہ کسی ایسی بات پر کبھی بھی راضی نہیں ہوسکتے تھے جس کی وجہ سے اُن کے گرد شکنجہ سخت ہوجاتا۔ چنانچہ اُنھوں نے پہلو تہی کرتے ہوئے وقت گزار نے کی حکمت ِعملی اپنائی۔ اس وقت تک غبارے سے ہوا نکل چکی ہے ، الحمداﷲ۔
اب ذرا ملائیشیا میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھیں۔ وزیر ِاعظم نجیب رازق نے 681ملین ڈالر بیرونی ممالک کے اکائونٹ میں چھپائے تھے ۔ عین وقت پر عرب بھائی اُن کی مدد کو پہنچے اور کہا کہ یہ رقم اُنھوں نے بھائی نجیب کو ذاتی حیثیت میں بطور تحفہ دی تھی۔ کیا مغربی جمہوریت میں کوئی رہنما اس طرح ذاتی حیثیت میں اتنی بھاری رقم بطور تحفہ قبول کرنے کا سوچ سکتا ہے ؟تاہم مسٹر رزاق نہ صرف بچ گئے بلکہ وہ اگلے انتخابات بھی جیتتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے ترکی میں بھی یہی کچھ دیکھا۔ حکمران اردوان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات، لیکن وہ اپنے مخالفین کو کچلنے میں کامیاب ہوگئے ۔ تو پھر ہم کیو ں سوچ رہے تھے کہ ہمارے رہنما کسی سے کم ہیں؟ ان کا کون بال بیکا کرسکتا تھا؟
یہ سب سکون اپنی جگہ پر، لیکن پاناما لیکس ایک پریشان کن نعرے کے طور پر موجود رہیں گی ۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1965کی جنگ تاشقند میں ہارنے کا الزام لگایا تواس پرکوئی کمیشن نہیں بنایا۔ تاہم بھٹو ایوب خان کی حکومت کے خلاف اس نعرے کا فائدہ اٹھاتے رہے ۔ درحقیقت یہ نعرہ 1970تک بھٹو کے ورد ِ زباں رہا ، لیکن پھر یکا یک طاق ِ نسیاں بن گیا۔ آج کسی کو یہ بات یاد بھی نہیں۔ پاناما لیکس پر جاتی امرا کے باسیوں کو پریشانی صرف اُس صورت ہوتی جب لوگ سڑکوں پر آتے۔ تاہم عوام کو کچھ دیگر مسائل کاسامنا ہے ، وہ احتجاج کے موڈ میں نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ماڈل ٹائون کیس ایک مختلف معاملہ ہے ۔ یہ ہڈی ابھی تک اُن کے گلے میں اٹکی ہوئی ہے ۔ فی الحال حکومت خوش ہے کہ اُسے پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین اپوزیشن ملی ہے ۔
تازہ ترین