• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میری نانی بیمار اور کہنہ سال تھیں۔ گھر والوں کو ان کے بچنے کی بہت زیادہ امید نہیں تھی، لیکن بزرگوںکی شفقت سے اپنی کئی محرومیوں کے باعث میری آرزو تھی کہ وہ کسی بھی طرح ’’بچ‘‘ جائیں اور نہ صرف یہ کہ پہلے کی طرح چلتی پھرتی نظر آئیں، بلکہ ویسے ہی میری بلائیں لیں۔سو میں بھاگم بھاگ حکیم صدیق کو بلا لایا کہ ہماری دیہاتی زندگی میں وہی سب سے بڑے حاذق، بلکہ اسپیشلسٹ معالج تھے۔ حکیم صاحب نے تھوڑی دیر میں پوری تشخیص کرتے ہوئے جو دوائیاں تجویز کیں، ان میں سے کچھ بے ذائقہ تھیں تو کچھ بدذائقہ، اپنی پیاری نانی کی چاہت میں وہ دوائیاں بری مجھے بھی لگیں، لیکن میں ان کی زندگی بچانے کے لئے بے چین تھا، اس لئے گھر والوں کی ناراضگی اور نانی کی جھڑکیوں کے باوجود انہیں دوائیں کھلانے پلانے لگا۔ حکیم صاحب نے کچھ ’’پرہیز‘‘ بھی بتلایا تھا۔ ان میں سے ایک صندل کے ٹھنڈے میٹھے شربت کا امتناع بھی تھا، جو میری نانی کو بہت مرغوب تھا۔ میری التجا کے باوجود حکیم صاحب نے حکم سنا دیا کہ اگر یہ پلائو گے تو انہیں رعشہ ہو جائے گا۔ چند ہی روز بعد میری نانی نے اصرار کیا کہ مجھے میرا من پسند شربت پلایا جائے۔ میں نے طریقے بہانے سے ان کا مطالبہ ٹال دیا، میں چونکہ ان کا سب سے زیادہ لاڈ لاتھا، اس لئے وہ میری بات بالعموم مان لیتی تھیں، لیکن اس کے باوجود ان کی دلی خواہش تھی کہ انہیں یہ شربت پلا ہی دیا جائے۔ چند روز بعد ان کی بیٹی اور میری خالہ سے نہ رہا گیا تو انہوں نے شربت بنایا اور جھٹ سے انہیں پلا دیا۔ دوبارہ اور سہ بارہ مانگا تو پھر پلا دیا، ساتھ ہی مجھ سے خفگی کا اظہار کیا کہ کیوں میری ماں کو ستا رہے ہو۔ اس پر میری پیاری نانی جومجھ سے تو قدرے نالاں تھیں، البتہ اپنی بیٹی کو شاباش دے رہی تھیں، چند ہی روز گزرے تھے کہ انہیں وہ تکالیف شروع ہو گئیں، جن کی پیشگی نشاندہی حکیم صاحب نے کی تھی۔ آج سے بیس سال پہلے کا یہ ایک سچا واقعہ ہے اور میں آج بھی یہ سوچتا ہوںکہ اپنی مہربان نانی کو خفا کر کے کیا میں نے برا کیا تھا؟ اور کیا میری خالہ نے انہیں خوش کر کے اچھا کیا تھا؟ ان سے میری بوجوہ شدید وابستگی مجھے مجبور کر رہی تھی کہ خواہ وقتی ناراضگی برداشت کر لوں، لیکن کسی طرح انہیں بچا لوں۔ میری معصومیت ان کی حیات نو تلاش کر رہی تھی، جبکہ محترمہ خالہ جان تجربہ کار اور زیادہ سمجھ دار تھیں، وہ انہیں بہرحال خوش دیکھنا چاہتی تھیں، شاید وہ ان کی زندگی سے مایوس تھیں۔
آج کی دنیا میں موجود ’’مسلم امہ‘‘ میرے لئے ماں اور نانی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ’’امہ‘‘ کی موجودہ حالت پر بہت سے لوگ فکر مندا ور پریشان ہیں۔ کچھ سمجھ دار، اُمہ کی خوشی اور خوشنودی کے لئے ایسی تحریریں لکھتے ہیں اور تقریریں کرتے ہیں، جن سے واقعی انہیں اُمہ کی طرف سے داد ملتی ہے۔ اس کے برعکس میرے جیسے’’احمق‘‘ ہیں جو حکیم صدیق کے بتلائے ہوئے نسخوں اور ’’پرہیزوں‘‘ پر عملدرآمد کی طرح بے وجہ پریشان رہتے ہیں اور پریشان کرتے ہیں، لیکن شاید وہ ’’بے و قوف‘‘ اس پیرانہ سالی میں اس کی حیات نو کے متلاشی ہیں۔ بلاشبہ اُمہ سے محبت دونوں طبقوں کو ہے۔ جس طرح میں آج بھی بیس سال پہلے کے واقعہ کو یاد کر کے پریشان ہو جاتا ہوں کہ میں نے اپنی نانی کو کیوں خفا کیا؟ اسی طرح مجھے دکھ ہے کہ میں باوجود خواہش اور آرزو کے، اُمہ کی خوشنودی کے لئے پہلے طبقے کا ساتھ نہیں دے پا رہا ،حالانکہ میرا اٹھنا بیٹھنا، جینا مرنا اسی طبقے کے ساتھ ہے، لیکن شاید میں اپنی فطرت اور جبلت سے مجبور ہوں، بالفعل میں حکیم صدیق کے نسخوں اور پرہیزوں سے باہر نکل ہی نہیں پارہا۔ لاکھ انکار کروں، لیکن اپنی ’’دیہی زندگی‘‘ میں سرسید ؒ ہی مجھے اُمہ کے لئے دور حاضر کے حاذق حکیم اور طبیب نظر آتے ہیں اور ان کی بتلائی ہوئی دوائوں اور پرہیزوں میں ہی مجھے اُمہ کے لئے شفاء محسوس ہوتی ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ اگر اس عظیم انسان کی تعلیمی خدمات نہ ہوتیں تو اپنے مجرب نسخوں اور پرہیزی پالیسوں کے باعث وہ آج کے سب سے غیر مقبول حکیم کہلواتے۔ اس تلخ نوائی میں کوئی اشتباہ نہیں کہ ہمارے نعرے باز اور تعلی و تقاریر ساز ’’محبان ملت‘‘ کو، وہ یا ان کے کڑوے کسیلے نسخے، آج بھی ناگواراورطبیعت کے اباہ کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارے اقبال کو بھی ان کی شاعری کا ٹھنڈا میٹھا شربت غیر مقبول حکیم کہلوانے سے بچا گیا، کیونکہ شاعری تو نام ہی مبالغہ آرائی اور مدح سرائی کا ہے، ورنہ بات اگر ان کے اصل نسخے (Reconstruction of Religious Thought in Islam) کی ہوتی تو حکیم الامت آج امہ کی نظروں میں ایک غیر مقبول حکیم (صدیق) ہوتے۔
افراد اور اقوام کی زندگیوں میں بہت سی مشابہت کے باوجود ایک جوہری فرق یہ ہے کہ افراد کے بانجھ پن کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جبکہ اقوام کا معاملہ نسل در نسل چلتا ہے اور آنے والی نئی نسلوں کا تازہ خون اگر دقیانوسی روایات کے خلاف جوش مارنے لگے تو ان کو نئی زندگی مل جایا کرتی ہے اور ان کا بانجھ پن ختم بھی ہو سکتا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے بعد اتاترک کی قیادت میں جدید ترکی اس کی بہترین مثال ہے، جسے حکیم الامت نے اپنے ’’نسخۂ حکمت و دانش‘‘ میں بار بار بطور نمونہ پیش کیا ہے۔ ناسازیٔ طبع میں ٹھنڈا میٹھا شربت پینے اور پلانے والے مخلص بزرگان کی خدمت میں، ہماری دست بستہ التماس ہے کہ وہ اُمہ کی حالت پر رحم فرمائیں، اس کو بستر مرگ سے اٹھ بیٹھنے، چلنے پھرنے اور دنیا میں سربلند ہونے کے مواقع بہم پہنچائیں۔ اس کی وقتی خوشنودی کے لئے اسے وہ مشروبات نہ پلائیں جو اس کے جسد قومی میں رعشہ طاری کر دیں جس طرح افراد کو معیاری صحت کے حصول کی خاطر کچھ کڑوے نسخوں اور پرہیزی ہدایات کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح اقوام کو بھی پستی سے بلندی کی طرف لے جانے کے لئے کچھ بظاہر کڑوے کسیلے فیصلے کرنے اور سہنے پڑتے ہیں۔ یہ تو سب مانتے ہیں اور ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اگر طالبان کے متعلق ہم اپنا وہ کڑوا کسیلا فیصلہ نہ کرتے، جس کا ذائقہ آج بھی ہمارے کئی دوستوں کے دہن کو بدمزہ کئے ہوئے ہے، تو ہمارا جو حال ہوتا، اس کا ادراک اب تقریباً سب کو ہے۔ہمارا طرز عمل ایسا غیر ذمہ دارانہ ہے کہ ہم کبھی طالبانوں کے غم میں گھلنے لگتے ہیں، کبھی ان کی مفرور قیادت کے قصے سنانے لگتے ہیں، کبھی حکمت یار کی حماقتوں میں دانائی تلاش کرتے ہیں تو کبھی بن لادن جیسے شخص کی بڑائی بیان کرتے ہیں۔کبھی ملا عمر ہمارا امیر المومنین بننا چا ہتا ہےکبھی بیت اللہ محسود اور صوفی محمد۔ ہمارا کچھ ایسا ہی طرز عمل دیگر خطوں اور ممالک کے مسلمانوں اور ان کے مسائل سے متعلق بھی ہے۔ ہر نعرے باز اور غیر ذمہ دار شخص خواہ وہ اپنے عوام کے لئے کتنا ہی بدترین ڈکٹیٹر ہو، ہمیں محض اس لئے اپنا ہیرو نظر آنے لگتا ہے کہ وہ مغرب کو گیدڑ بھبھکیاں لگاتا اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اپناتا ہے۔ صدام کو تو خیر چھوڑیں، قذافی صاحب نے کتنے اور کیسے کیسے پینترے بدلے ، کبھی ہم نے ان کا حساب کیا؟قذافی سٹیڈیم کی صورت میں وہ آج بھی ہمارا ہیرو ہے جبکہ سر سیداور اتاترک ہمارے ہیرو نہیں ہیں البتہ جا برو ظالم عثمانی آمر ہمار ے ہیرو ہیں ۔
دنیا بھر میں جن کو ہم خالص مذہبی، جہادی یا اسلامی تحریکیں کہتے ہیں، ہم نے کبھی ان کی کارکردگی کا غیر جذباتی و منصفانہ جائزہ لیا۔ اپنے سیدھے سادے مخلص مسلمان عوام کے لئے مذہب کے ان ٹھیکیداروں نے جو مشکلات دنیا بھر میں پیدا کر رکھی ہیں اسے اسلام کی خدمت قرار دیا جائے یا اس پاکیزہ نام کو الٹا بدنام کرنے کی کاوش؟ یہی لوگ اگر اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہوئے مسلمان عوام کے انفرادی و اجتماعی حقوق کی بات کرتے، ان کے بنیادی و جمہوری حقوق کی جدوجہد، مسلمہ آئینی، قانونی، سیاسی اور جمہوری اصولوی کی مطابقت میں پیش کرتے تو نہ صرف یہ کہ انہیں اپنے عوام کا کھلا اور مضبوط تعاون میسر آتا، بلکہ علاقائی آمریتوں کے خلاف سیکولرو جمہوری مغرب کی اخلاقی، سیاسی، قانونی بلکہ مادی قوت بھی ان کی پشت پناہ ہوتی، کیونکہ آج مسئلہ مذہب یاد ین کا تو رہ ہی نہیں گیا۔ الحمد للہ مذہب کی پاکیزہ اخلاقی تعلیمات کا تو کوئی بھی مخالف نہیں رہا، خرابی تو تب پیدا ہوتی ہے، جب مذہب کا سیاسی و مفاداتی استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلم معاشرے ہوں یا غیر مسلم، آج انسانیت کا اصل مسئلہ امن، سلامتی اور استحکام ہے، آئین، جمہوریت، قانون، حقوق، مساوات اور آزادیوں کی عملداری ہے۔ مسئلہ ایسے مہذب معاشروں کی تشکیل ہے، جہاں کوئی کسی کا استحصال کر سکے نہ ظلم و جبر کے لئے کوئی گنجائش نکال سکے۔ بات ویسٹ کی ہے نہ ایسٹ کی، بات تو انسانی اور غیر انسانی رویوں کی ہے۔ رہ گئے علاقائی جھگڑے، تو یہ مصنوعی آگ بھی دراصل کچھ مفاداتی گروہوں کی، اپنے مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر لگائی ہوئی ہے۔ اگر ہم دنیا میں خالص جمہوریت کا چلن عام ہونے دیں تو یہ علاقائی جھگڑے خود بخود دفن ہو کر رہ جائیں گے۔ ضرورت حوصلے، برداشت اور صبر کی ہے۔ دوسرے کو اپنا مؤقف سمجھانے کے ساتھ ساتھ اس کا مؤقف سمجھنے کی ہے۔
تازہ ترین