• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر اس مرتبہ بھی ملک کا منتخب وزیراعظم مضبوط قوتوں کے سامنے بے بس ہوگیا۔ جی ہاں! حکومت بچانے کے لئے میاں محمد نوازشریف کو ہیوی مینڈیٹ کے باوجود کچھ تلخ باتوں پر سمجھوتہ کرنا پڑا ہے۔اپنے اصول پس پشت ڈالنے پڑے۔حالیہ اقتدار میں ملک کے چیف ایگزیکٹوکو ایک مرتبہ پھر باور کرایا جارہا ہے کہ فیصلہ کرنے کا اختیار آپ کے پاس نہیں بلکہ ہمارے پاس ہے۔جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا ہے اب بھی وہی کچھ ہورہا ہے۔سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے شمالی وزیرستان آپریشن کے حوالے سے موقف پر سابق آرمی چیف جنرل (ر) کیانی کا وزیر اعظم کو جواب کہ وزیرستان آپریشن ہمارے اوپر چھوڑ دیں۔اس کا فیصلہ ہم کریں گے کہ آپریشن کس وقت کیا جاتاہے۔قارئین بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ وزیراعظم کے اختیارات اور ان کی حد کہاں تک ہے۔ماضی اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو کچھ آج ہورہا ہے یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے ۔بلکہ گیلانی،نوازشریف،بے نظیر بھٹوشہید،ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول عوامی لیڈر ایک ،دو نہیں بلکہ کئی کئی مرتبہ ایسے حالات سے نبردآزما ہوچکے ہیں۔ہم تو شاید احمق تھے جو یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ یہ بدلا ہوا2014کا پاکستان ہے۔مگر اب سمجھ آئی ہے کہ نہیں یہ طاقتور کا پاکستان ہے بھئی…
اس مرتبہ بھی جمہوریت ہار گئی اور طاقت جیت گئی۔طاقت اور دولت دو متوازی قوتیں ہیں۔ان دونوں کا آپس میں گہرا ناتہ ہے۔دولت ہمیشہ زر سے طاقت کو حاصل کرلیتی ہے ۔لیکن اگر ان دونوں میں جنگ ہوجائے تو طاقت زبردستی دھونس کے بل بوتے پر دولت کو چھین لیتی ہے۔اب بھی حالات طاقت ،دولت اور اختیارات کے درمیان جنگ جیسے تھے اور ایسے میں فتح تو پھر طاقت کی ہی ہوتی ہے۔ملک کے منتخب وزیراعظم کو اب وہی کرنا ہوگا جو کہ طاقتور لوگ طے کرچکے ہیں۔ملک کے سابق صدر و طویل المدت تک رہنے والے آرمی چیف جنرل (ر)پرویز مشرف کے حوالے سے اپنے دیرینہ موقف سے پیچھے ہٹنے میں ہی مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف نے عافیت جانی ہے۔تمام باتوں سے قطع نظر کہ اگر آندھی طوفان تیز ہوتو اس کے سامنے کھڑے رہنا بیوقوفی ہوتی ہے۔عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے حالات میں اگر آپ بیٹھ جائیں تو کوئی حرج نہیں ہوتا۔میاں نوازشریف صاحب نے بھی موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا ہی کیا ہے۔برادرم انصار عباسی نے بھی درست کہا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کے دباؤ میں آکر حکومت نے مشرف کے معاملے پر گھٹنے ٹیک دئیے ہیں مگر حتمی فیصلہ ملک کی اعلی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان کرے گی۔ایسا ہی ہوگا۔کیونکہ مشرف کا نام ای سی ایل میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ہی شامل کیا گیا تھا اور حال ہی میں سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار بھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہی دیا ہے۔اس لئے پرویز مشرف کے وکلا اب ایک مرتبہ پھر اعلی عدالت سے رجوع کریں گے۔مگر اس سارے کیس میں توجہ طلب معاملہ یہ ہوگا کہ وفاق کی طرف سے کمزور ترین قانونی جنگ لڑنے کا اہتمام کیا جائے گا اور اگر سپریم کورٹ نے مشروط اجازت کے ساتھ مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم جاری کردیا تو وفاق اس میں مزید کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔مگر میرے دوستوں! معاملہ اتنا بھی آسان نہیں ہوگا۔مشرف کے وکلا مزید کسی مشکل میں بھی پڑ سکتے ہیں۔
میری ذاتی رائے کے مطابق میاں نوازشریف نے اپنی جماعت مسلم لیگ ن اور حکومت کے حق میں تو شاید درست فیصلہ کرلیا ہے۔موجودہ حالات میں اس سے بہتر دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوسکتا۔مگر قارئین سے ایک سوال پوچھتا ہوں کہ مورخ جب تاریخ لکھے گا تو شاید آج کے حالات اس کے قلم کی نظر سے اوجھل ہوجائیں مگر میاں نوازشریف کوتو وہ ہارا ہوا ہی لکھے گا۔میاں نوازشریف گزشتہ دنوں کے دوران اکثر اوقات نجی محفلوں میں کہا کرتے تھے کہ اب ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ہے ۔اس لئے کوئی بھی فرد اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ آئین کو 8سال تک پامال کرتا رہے گا اور پھر بھی بچ جائے گا تو ایسا اب نہیں ہوگا۔بے’’ شک مسلم لیگ ن کی مرکز و پنجاب کی حکومت جاتی ہے تو جائے مگر پرویز مشرف کے معاملے پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے‘‘ مگر شاید حالات کی نزاکت یہی کہتی تھی۔
جب کہ دوسری جانب پاکستان کی غیور مسلح افواج دہشتگردوں کا قلع قمع کرتے ہوئے تیزی سے شمالی وزیرستان آپریشن کی کامیابی کی طرف گامزن ہیں۔ تین روز قبل اسی سلسلے میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم کو بریفنگ بھی دی۔آرمی چیف کی وزیراعظم سے انتہائی خوشگوار ماحول میں طویل ملاقات ہوئی۔ جو لوگ آج کہتے ہیں کہ اشفاق پرویز کیانی جمہوریت دوست جرنیل تھے تو میرے خیال سے جنرل راحیل شریف خاموش طبع ضرور ہیں مگرذاتی طور پر جمہوریت اور موجود ہ نظام کے بڑے داعی ہیں۔جنرل صاحب! ایک زیرک جرنیل ہیں۔ذاتی طور پر خواہش رکھتے ہیں کہ معاملات کو بگاڑنے کے بجائے سلجھانے پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ پرویز مشرف کے معاملے پر پوری فوج متحد اور ایک ہی رائے رکھتی ہے کہ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ نہیں چلنا چاہئے۔ شاید اسی لئے ہی میاں محمد نوازشریف کو طاقتور طبقے ،اپنے بھائی شہباز شریف اور اپنی پارٹی کے رہنماؤںکی ماننی پڑی ہے۔جب کہ مشرف کے حوالے سے ہی یوسف رضا گیلانی سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔2008میں جب جنرل مشرف کو رخصت کیا گیا تو اس وقت سیاسی جماعتوں کی اکثریت متفق تھی کہ کسی بھی طرح مشرف کو ایوان صدر سے نکال کر جان چھڑائی جائے۔اس لئے مشرف کو بھی کہا گیا کہ اگر وہ مستعفی ہوجائیں تو انہیں محفوظ راستہ فراہم کردیا جائے گا اور محفوظ راستہ فراہم کیا بھی گیا۔مگر مشرف سے کسی بھی جماعت نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ وہ عین انتخابات سے پہلے ملک کے سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوکر دوبارہ سے مکا لہرانے کی کوشش کریں۔معاہدے کی پاسداری تو دونوں طرف سے کی جاتی ہے۔
بہرحال اب جب حکومت نے طے کرلیا ہے کہ مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے مزید کسی تنازع میں الجھنے سے بہتر ہوگا کہ خاموشی سے مشرف کو باہر جانے کی اجازت دے دی جائے تو حکومت کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اگر اعلی عدلیہ کی اجازت کے بغیر مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا تو حکومت کے لئے پھر ایک نئے امتحان کا آغاز ہوجائے گا۔اس معاملے کا فیصلہ عدالتوں سے کرانے میں ہی مسلم لیگ ن کے لئے عافیت ہوگی۔مگر مشرف معاملے نے یہ تو طے کردیا ہے کہ 2014کے پاکستان میں جمہوریت کی نہیں بلکہ طاقت کی اہمیت ہے اور اسی طاقت کے آگے شکست تسلیم کر تے ہوئے جمہوری حکومت نے بھی ہار مان لی ہے۔اور اب جب مورخ موجودہ حالات پرقلم آزمائی کرے گا تو وہ افسوس سے لکھے گا کہ پاکستان میں ایک دفعہ پھر جمہوریت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس مرتبہ بھی جمہوریت طاقت سے ہارگئی۔
تازہ ترین