• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا ہم اور ہمارے سیاسی لیڈر اتنے ناسمجھ، نادان اور دشمنوں کی سازشوں کو نہ سمجھنے والے ہیں کہ انہیں نفع اور نقصان میں ذرا بھی تمیز نہیں رہی ہے اور وہ نتائج کی پروا کئے بغیر ایسے اقدامات کررہے ہیں کہ جس سے ملک کو بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے بیرونی طاقتیں پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور یہ سلسلہ نیا نہیں ہے اس کی داغ بیل 1962ء میں پڑ گئی تھی جب امریکہ روس اور بھارت مفادات اور پالیسی اور حکمت عملی کی رو سے ایک ہی پیج پر آگئے تھے۔ اس کے نتائج پاکستان نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھگتے۔ 1970-71ء کے دور میں پاکستان ایک بڑے المیے سے گزرا۔ پاکستان تو ٹوٹ گیا لیکن پاکستان کی فوج کو تباہ کرنے کے عزائم پورے نہیں ہوئے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے بڑے بحران سے نکل گیا۔ اس کا کریڈیٹ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور فوج کی اس وقت کی قیادت کو جاتا ہے مرحوم وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکمت عملی اور سیاسی سوجھ بوجھ کی بدولت پاکستان ایٹمی قوت بننے میں کامیاب ہوا۔ پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کے لئے یہ ایک انتہائی چونکا دینے والی صورت حال تھی۔ امریکہ اور اسرائیل انگشت بدنداں تھے امریکہ تو دھمکیوں پر اتر آیا تھا۔
امریکہ ہو یا روس، وہ پاکستان سے دوستی کا کتنا ہی دم کیوں نہ بھرتے ہوں اندرون خانہ وہ پاکستان کے مخالف ہیں۔ یہ پس منظر میں نے اس لئے یہاں بیان کیا ہے کہ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لئے جو سازشیں 1980ء کی دہائی سے ہورہی ہیں اس کا ادراک کیا جاسکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جو اتھل پتھل ہورہی ہے اس کو بھی ذہن میں رکھا جائے۔ عراق کی تقسیم کا منظرنامہ ابھر رہا ہے وہ دور عالمی صورت حال سے دلچسپی رکھنے والوں کو یاد ہوگا جب ایران عراق جنگ زوروں پر تھی اور اس جنگ کے پس منظر میں امریکہ کی پالیسی اور حکمت عملی تھی وہ دونوںملکوں کو تباہ کرنا چاہتا تھا ایران نے اپنی نظریاتی قوت اور جنگی مہارت کی بدولت اپنے آپ کو بچا لیا لیکن عراق آخرکار اس حکمت عملی کے نتیجے میں زخم خوردگی کی حالات میں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ شام تباہی کے کنارے پر ہے۔ امریکہ نے اپنے مفادات کی خاطر شام کو تباہ ہونے کے لئے چھوڑ رکھا ہے۔ آج امریکی وزیر خارجہ جان کیری یہ برملا کہتے نظر آتے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے بڑی غلطی کی۔ جناب وزیرخارجہ یہ بڑی غلطی انہیں کرنی ہی تھی کیونکہ وہ اس جنگ کو پاکستان کے اندر تک لے جانا چاہتے تھے تاکہ پاکستانی افواج کو کمزور کیا جائے۔ میں نے تو اپنے ایک کالم میں جو 11؍اکتوبر 2001ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا تھا اور اس کا عنوان تھا ’’افغان جنگ ایک المیہ‘‘ اس کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجئے اس میں صاف صاف لکھا ہوا ہے ’’اس بار جب امریکہ اور روس کے اتحادی افغانستان پر حملہ آور ہورہے ہیں تو ان کو اندازہ ہوگا یہاں میدان جنگ کا منظر کچھ اور ہے یہاں ٹارگٹ نہ تو سامنے ہے اور نہ متعین ہے یہاں ان کے الیکٹرانک آلات اتنے موثر نہیں ہوسکتے جتنے عراق اور یوگوسلاویہ میں ہوئے تھے یہاں امریکہ اور ان کے حلیفوں کو بڑی قربانیاں دینے کی ضرورت پڑے گی امریکی یہ جانتے ہیں کہ نہ تو یہ یوگوسلاویہ ہے اور نہ ہیٹی۔ یہاں کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے یہ ایک طویل جنگ ہے کسی بھی حملہ آور کے لئے سودمند نہیں ہوسکتی‘‘۔
یہ میں نے کئی بار دلائل کے ساتھ اپنے کالموں میں لکھا کہ امریکہ افغانستان میں ناکام ہوچکا ہے اور اب وہ ہر قیمت پر افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے لیکن اب یہ اس کے لئے اتنا آسان نہیں ہے وہ پاکستان کے لئے کتنے بھی مسائل کھڑے کیوں نہ کرلے وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوگا۔
پاکستان میں قیادت کا بحران عدم استحکام پیدا کررہا ہے اور اس غیرمستحکم صورت حال سے پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس غیریقینی صورت حال کو ختم کرنے کے لئے اور حکومت کی عملداری کے قیام کی خاطر ہی میاں نواز شریف کی حکومت کو فوج کا سہارا لینا پڑا ہے اور شمالی وزیرستان میں فوج آپریشن کررہی ہے۔
افغانستان میں حالات ہاتھوں سے باہر ہورہے ہیں وہاں صدارتی الیکشن میں دھاندلی کا شور ہے عبداللہ عبداللہ حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے خم ٹھونک رہے ہیں افغانستان کے صدارتی الیکشن کو فراڈ قرار دیا جارہا ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ اگر غیرقانونی طور پر حکومت پر قبضہ کیا گیا تو وہ امداد روک دیں گے۔ امریکہ کے لئے یہ صورت حال پیچیدہ بھی ہے اور خطرناک بھی کیونکہ ان کی فوج افغانستان میں پھنسی ہوئی ہے۔ ان حالات میں افغان طالبان اپنی مہم تیز کرسکتے ہیں۔
قیاس کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ پاکستان سے اس خطرناک صورت حال سے نکلنے کے لئے اسٹرٹیجک مدد طلب کرسکتا ہے اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں، لیکن پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ افغانستان میں کوئی کردار ادا کرسکے میرے خیال میں نہیں ہے پاکستان کے سیاسی لیڈر خود سیاسی طور پر تقسیم ہورہے ہیں اور حکومت کے خلاف مورچہ بندی کررہے ہیں۔
پاکستان کے مغرب میں اور جنوب میں جنگی فضا بڑھ رہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہمیں صرف اپنے ملک کے بارے میں سوچنا چاہئے اور سیاسی سطح پر اپنے اختلافات ختم کردینا ہوں گے ورنہ جوکچھ پاکستان کے اطراف میں ہورہا ہے، اس کے گرتے ہوئے ملبے سے اپنے آپ کو بچانا مشکل ہوگا۔ اس صورت حال سے ایک بڑا وژن رکھنے والی قیادت ہی پاکستان کو عدم استحکام سے بچا سکتی ہے۔
پاکستان کا یہ سیاسی کلچر ہے کہ ادھر انتخابات ہوئے اور دھاندلی کا ہنگامہ کھڑا ہوا۔ اس دفعہ بھی یہی ہورہا ہے اور یہ ہنگامہ شروع ہی پنجاب سے ہوا ہے پنجاب ریاست کی قوت کا پاور انجن ہے پنجاب کی بڑی اہمیت ہے اگر طاہر القادری، عمران خان اور چوہدریوں کے درمیان کوئی مصالحت کا پہلو نہ نکلا تو عدم استحکام اور غیر یقینی صورت کا بڑھنا یقینی ہوگا۔ خود حکمراں جماعت نواز لیگ میں گروہ بندی ہے خواہ وہ کتنا بھی باور کرائیں کہ ایسا نہیں ہے مگر کچھ تو ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اختلافات کو سڑکوں پر لانے سے بہتر ہے کہ سیاست داں ایک میز پر بیٹھ جائیں اور آنے والی مدت کے لئے قومی حکومت بنالیں اور پوری سنجیدگی سے پاکستان کی بہتری اور استحکام کے لئے کام کریں اور اختلاف کی خلیج وسیع نہ ہونے دیں۔
تازہ ترین