• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب میرے دوست نے اس تصویری کتاب کا ذکر کیا تو میں کچھ کچھ حیران تھا کہ ایسی کونسی پاکستانی کتاب ہے۔ جس کو بیرون ملک اتنی اہمیت اور حیثیت دی جا رہی ہے۔ آج کے دور میں کسی معاملے کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا کافی آسان ہو گیا ہے۔ انٹر نیٹ اس سلسلہ میں عملی مدد کرتا ہے اور تمام اہم اور ضروری معلومات کیلئے راستہ بھی آسان کرتا ہے ۔ میں جس کتاب کا ذکر کر رہا ہوں۔ وہ پاکستان کے نوجوانوں میں بھی خاصی مقبول لگی اور سوشل نیٹ ورک پر اس کا خاصا تذکرہ بھی ہوا۔ مجھے تصویری کتاب کے حوالہ سے ایک نئی جہت نظر آئی۔
مجھے اس دنیا سے پیار ہے۔ اس دنیا کے رنگ نرالے ہیں۔ اتنا عرصہ وطن عزیز سے باہر رہ کر اور دنیا دیکھ کر اپنے وطن سے محبت تو رہی۔ مگر کبھی خیال نہ آیا کہ پاکستان کو دیکھا جائے۔ کام کاج کے سلسلہ میں تقریباً پاکستان کے تمام بڑے شہر دیکھے اور ان میں قیام بھی کیا۔ کراچی اب کراچی نہیں رہا۔ کرچی کرچی سا شہر بے حال اور بے بسی کی تصویر ہے۔ وہاں پر قابض سیاسی اشرافیہ دعوے تو بہت کرتی ہے۔ مگر شہریوں اور شہر کیلئے کچھ بھی نہ کر سکی ہے۔ اس شہر کے اکثر حصے انتہائی غیر محفوظ ہیں۔ اس وقت کوئی بھی یورپین اور امریکی ائیر لائن کراچی نہیں آ رہی ہے۔ گزشتہ سالوں کی تمام سرکاریں شہر کو اپنے اپنے مفادات کے حوالے سے چلاتی رہیں ہیں۔ سندھ کا واحد شہر جہاں غریب سندھی سب سے کم اور امیر سندھی اشرافیہ میں شامل ہیں۔ اس وقت کراچی کا چہرہ بدنما ہے۔ گزشتہ کئی سال سے اقتدار کی جنگ جاری ہے۔ کوئی بھی حکمرران نہ کراچی کو امن دے سکااور نہ ہی شہر کیلئے کوئی تاریخی کام کر سکا۔ ہمارے ملک کے باقی شہروں کا حال بھی کوئی اچھا نہیں۔ ایک تو گزشتہ سالوں میں آبادی پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے آبادی کا بم خطرناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ آبادی کے کنٹرول کے سلسلہ میں پاکستان کی سرکار بھی بالکل سنجیدہ نہیں ہے۔ پھر دیہاتوں سے شہر کی طرف آبادی کا رخ ہے۔ جس کی وجہ سے شہروں میں آئے دن نت نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک عرصہ سے ہمارے ہاں مردم شماری کامعاملہ بھی تاخیر کا شکار ہے۔ میں جس کتاب کا ذکر کرنے جا رہا ہوں۔ اس کا نام ہے "DESOAI LAND OF THE GIANT''اس کا اگر آسان ترجمہ کیا جائے تو نام ہو گا ’’دیوسائی ایک عظیم زمین‘‘۔ یہ شمالی علاقہ جات میں واقع خطہ ہے۔ میں نے اس علاقہ کا ذکر سب سے پہلے اور ادب کے قابل فخر لکھاری جناب مستنصر حسین تارڑ کے مورننگ شو سے سنا۔ جب چاچا تارڑ صبح صبح اپنا پروگرام کیا کرتے تھے۔ وہ اس حسین زمین کا تذکرہ ایسے کرتے جیسے مغرب میں کوئی اپنی من چاہی گرل فرینڈ کا ذکر کرتا ہے۔ پھر ان کے سفر ناموں نے دھوم مچائی اور ان سے ان خوبصورت علاقوں کی اہمیت مزید آشکارہ ہوئی۔ وہ اچھے وقتوں کے سفر نامے ہیں۔ دہشت گردی کو ان علاقوں میں فروغ نہیں ملا تھا۔ ان علاقوں کے بارے تمام معلومات تحریری تھیں اور جانے والوں نے اپنی اپنی آنکھ سے اس کی خوبصورت کو حکم بند کیا تھا۔ پڑھنے سے معلومات کو ملتی ہیں۔ مگر آپ کا تصور اس کی تصویر پوری طرح بنا نہیں پاتا۔ مگر جب یہ تمام چیزیں اور ماحول تصور سے نکل کر تصویر کی شکل اختیار کرتا ہے۔ تو قدرت کی مہربانی کا اندازہ ہوتا ہے۔ خوبصورتی کے بارے میں لکھنا بہت زیادہ مشکل نہیں۔ مگر اس کو بیان کرنا۔ اس کے رنگ گننا، اس کے جمال کا احاطہ کرنا، پھر سب سے بڑا اور اہم معاملہ اس تصویر میں شامل چرند پرند، ندی نالے،گھاس، پودے، پتھر، جانور، کیڑے مکوڑے، سب قدرت کی صناعی کا نادر خزانہ ایک پوری تصویر میںسما جاتا ہے اور آپ اس تصویر پر جتنا بھی غور کریں۔ اتنی ہی وہ تصویر بامعنی اور دلچسپ نظر آتی ہے۔ بڑے سائز کی یہ کتاب تقریباً پونے دو سو صفحوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب بین الاقوامی سیرو سیاحت کے حوالے سے تیار کی گئی ہے۔ اس کا تصویری معیار بہت ہی بلند ہے اور اس کی وجہ معروف فوٹو گرافر ندیم خاور ہے۔ جنھوں نے فوٹو گرافی کی تعلیم جاپان سے حاصل کی۔ ان کی پہلی تصویر کتاب چولستان کے ریگستان پر تھی۔ جو 2007ء میں آکسفوڈ پریس نے چھاپی تھی اور اس نے بھی تاریخ ورثہ کے حوالہ سے خاصی دھوم مچائی تھی۔
اس کتاب کو لکھنے اور بناناے والے دو حضرا ت ہیں۔ میں ندیم خاور کا تعارف تو کروا چکا ہوں۔ وہ صاحب جو ندیم خاور کو ان خوبصورت مناظر تک لے کر گئے۔ وہ بھی ایک منفرد سیلانی شخصیت ہیں۔ سلمان رشید نے پاکستان کا چپہ چپہ دیکھا ہے اور اس پر لکھا بھی ہے۔ سلمان رشید نے سفر در سفر کے سلسلہ میں اب تک 8کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان میں ایک کتاب ان کے اخباری مضامین پر مشتمل ہے۔ جب سلمان رشید دیوسائی گئے تو ان کو اندازہ ہوا کہ خوبصورتی کا تصور اتنا بڑا بھی ہو سکتا ہے اور ان میں شامل کرداروں کو بچانا بھی ضروری ہے۔ کتاب کے پہلے صفحہ پر ایک جنگلی ریچھ کی تصویر ہے۔ اس کتاب کی ہر تصویر ہی بولتی نظر آتی ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میں یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں کافی سفر کیا ہے۔ وہاں پر سیاحت سہولتوںکی وجہ سے مقبول ہے اور وہاں بھی خوبصورت کا کوئی انت نہیں ہے۔ مگر جدید سہولتوں کی وجہ سے ان کی خوبصورتی اور قدرتی پن دھندلا سا گیا ہے۔ مگر ہمارے ہاں کی ’’دیو سائی‘‘ منظر اتنے دلفریب ہیں۔ اس ہی کتاب کے شروع میں ہی ایک اور تصویر ایک خاتون کی ہے۔ عمر کا اندازہ لگانا از حد مشکل ہے۔ مگر کسی ملمع کاری اور میک آپ کے بغیر مقامی لباس پہنے مسکراتی بی بی، قدرتی حسن و جمال کی اتنی مکمل تصویر ہے کہ دیکھنے سے لطف آتا ہے۔ اس کے کپڑوں کے رنگ اتنے انوکھے لگتے ہیں کہ ان کا بیان مشکل ہے۔ اتنی ساری تصویروں کے بارے میں علیحدہ لکھنا مشکل ہے۔ اس طرح ایک اور کتاب ضرور تیار ہو سکتی ہے۔ مگر کچھ تصویروں کا تذکرہ ضرور ہو سکتا ہے۔ ایک تصویر میں مقامی شخص جو ڈاک خانہ کا ملازم ہے بنائی گئی ہے۔ کمال کی تصویر ہے کہ ایسا ڈاک خانہ بھی ہو سکتا ہے۔ عام سی عمارت، پچھے پہاڑی سلسلہ اور چوٹیوں پر جمی سفید برف اور گرد سبز گھاس کا قالین اور اس میں پاکستانی پوسٹ آف کا بورڈ، پوسٹ مین کی مسکراتی تصویر، سفید دانت، نیلی ٹوپی، نیلا سوئیٹر، ہاتھ میں لال رنگ کا تھیلا، تصویر کی خوبصورتی، ماحول، پس منظر اور عمارت جو گزرے زمانے کی ترجمانی کرتی ہے۔ پھر خاموش بھی نظر آتی ہے۔ اس کتاب کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاح ان علاقوں کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ ان میں نمایاں لوگ جاپان کے نظر آتے ہیں۔ یہ کتاب دیوسائی کی سیر آپ کو ایسے کرتی ہے جیسے آپ ان تمام مناظر کا حصہ ہوں۔ پھر کمال یہ ہے کہ یہ کتاب کبھی بھی ختم نہیں ہوتی۔ جتنی بار بھی آپ اس کو دیکھیں ہر دفعہ ان تصاویر سے کوئی نیا منظر نظر آتا ہے اور آپ کومحسور کرتا رہتا ہے۔ یہ وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
اب جب کتاب کی بات ہو ہی رہی ہے تو ایک اور کتاب کا ذکر بھی ہو جائے ۔ کیپٹن لیاقت علی کی کتاب ’’ان کی پہلی کاوش ہے‘‘ حاصل محبت، کبھی جگہ بیتی لگتی ہے کبھی اپنی بیتی۔ مگر ہے کیا یہ مشکل سوال ہے۔ ان کی کتاب میں محبت، عقیدت، ریاضت، الفت، منافقت، شرافت بھی موضوع کے تناظر میں کبھی کانوں سنا لگتا ہے ۔ مصنف کی حیثیت میں ایک بے کل روح دنیا فتح کرنے چلی ہے۔ ان کا ماضی عسکری تربیت پر فخر کرتا ہے مگر قسمت کی یاوری سے پولیس سروس میں ان کا رزق لکھ دیا گیا۔ کتاب قلم اور علم سے محبت نے اس کتاب کو لکھوایا ہے۔ مگر الفاظ کی پرکھ اور لکھت ان کی اضافی خوبی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں محترمہ بانو قدسیہ ، پروفیسر عبداللہ بھٹی اورمستنصر حسین تارڑ کی رائے صاحب قلم کی تحریر کو مزید معتبر بناتی ہے۔ یہ کتاب کوئی کہانی نہیں سناتی بلکہ ایک منظر نامہ لکھا گیا ہے۔ جو معاشرے کے نظام اور کرداروں کا تضاد نمایاں کرتا ہے۔ دکھ بیان کرنا ہے ضبط رکھتا ہے اور منظر نامہ چلتا رہتا ہے۔ میری مصنف سے درخواست ہے کہ وہ حوصلہ رکھے اس کے پاس بیان کرنے کو بہت کچھ ہے۔ دنیا کے رنگ بیان کرنے آسان نہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ دوسروں کی بات بھی بیان کرنے کا سوچیں۔ کیونکہ آپ کے سوچنے اور دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔
تازہ ترین