• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
SMS: #NRC (space) message & send to 8001
جماعت اسلامی کی تاریخ اُصول پسندی، اپنے نظریات پر قائم رہنے اور تنظیمی نظم و ضبط کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ بےشمار دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ ’’ان وجوہات‘‘ کے باعث بھی جماعت اسلامی کبھی بھی دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح عوامی سطح پر مقبول اور ہر دلعزیز جماعت نہ بن سکی۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی سیاست میں بھی اسے کبھی قابل قدر کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور پارلیمانی ایوانوں میں بھی اس کی محدود نمائندگی قانون سازی کےلئے کسی بل کو منظور کرانے یا اس کی مخالفت کرنے میں کلیدی کردار ادا نہ کر سکی۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی قیادت کے برعکس مولانا سید ابواعلیٰ مودودی، مولانا طفیل محمد، سید منور حسن جماعت اسلامی کے امیر رہے لیکن وہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں تھے۔ قاضی حسین احمد سینٹ کے رکن رہے اور اب نئے امیر مولانا سراج الحق صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔
مولانا سراج الحق گزشتہ دنوں اسلام آباد آئے تو وہاں انہوں نے اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر میاں اسلم کی رہائش گاہ پر ذرائع ابلاغ کے سینئر نمائندوں جن میں اینکرز اور معروف تجزیہ نگار بھی شامل تھے کے ساتھ گفتگو کی ایک نشست کی۔
مولانا سراج الحق سے ہونے والی اس نشست میں ان کی گفتگو کے ماحاصل کا تجزیہ کچھ یوں کیا جا سکتا ہے کہ، جماعت اسلامی کا تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد، نظریاتی بنیادوں پر تو خیر ہو ہی نہیں سکتا بلکہ سیاسی بنیادوں پر بھی نہیں ہے۔ اس اشتراک کا دائرئہ کار محض خیبرپختونخوا میں پارلیمانی اتحاد اور صوبے کے انتظامی امور تک محدود ہے۔ اس اشتراک، تعاون اور اتحادی جماعت ہونے کے باوجود جماعت اسلامی باقی امور میں اپنی پالیسیوں پر گامزن ہے اور تحریک انصاف اپنی۔ حتیٰ کہ تحریک انصاف نے 14 اگست کو جو اجتماع کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے جماعت اسلامی اس سے بھی قطعی طور پر لاتعلق ہے اور اس دن کو محض یوم آزادی کے طور پر منانے ہی کے حق میں ہے۔ مولانا سراج الحق کے الفاظ سے ہٹ کر بھی اگر تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان کے حوالے سے کی جانے والی گفتگو میں ان کے لب و لہجے، ایکسپریشن اور قدرے اکتاہٹ کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔ کہ یہ تعلق پسند کا نہیں بلکہ مجبوری کا ہے۔ وابستگی دلوں اور ہم آہنگی کی نہیں بلکہ مجبوریوں کی ہے۔ کم از کم جماعت اسلامی کے امیر تو اس ساری صورتحال میں Comfortable دکھائی نہیں دیتے۔ مولانا صاحب خاصے پُرجوش انداز میں فرما رہے تھے کہ پارلیمنٹ میں تمام امور آئین سے متصادم انجام دیئے جا رہے ہیں۔ ارکان کا انتخاب آئین کے آرٹیکل 62-63 کی کسوٹی پر کسی طرح بھی پورا نہیں اترتا۔ نرم لہجے میں انتہائی سخت سوال کرنے والے برادر سلیم صافی نے اس موقع پر اچانک ہی اُن سے یہ سوال کر لیا کہ’’کیا عمران خان اور نواز شریف، آئین کے آرٹیکل 62,63 پر پورا اترتے ہیں؟ اس غیرمتوقع سوال پر مولانا سراج الحق کے پاس کوئی فوری جواب نہیں تھا۔ ان کی محترم شخصیت کے پیش نظر لفظ آئیں بائیں شائیں استعمال کرنا تو مناسب نہیں۔ تاہم قدرے سنبھلنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ’’اگر بازار میں دودھ خالص دستیاب ہی نہ ہو تو پھر نہ خالص دودھ سے ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے‘‘ جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف میں اشتراک صرف صوبے کی حد تک ہے اور مرکز کے معاملات سے اس تعاون اور اشتراک کا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ مولانا صاحب ٹھیک فرماتے ہیں لیکن آنے والے دنوں میں شاید یہ تعاون اور اشتراک نئے اخلاقی تنازعے کی شکل میں وفاقی سطح پر بھی اس لئے سامنے آئے کہ۔۔ بہرحال جماعت اسلامی ایک ملک گیر جماعت ہے اور نظم و ضبط کے حوالے سے اپنی شوریٰ کے ارکان کے سامنے جوابدہ بھی ۔
ارسلان افتخار عمران خان کی مبینہ صاحبزادی کے بارے میں جو ریفرنس پیش کرنے کی تیاری میں مصروف ہیں اگر یہ بات آگے بڑھتی ہے تو پھر اپنے مذہبی نظریات اور اخلاقی دعوؤں کی روشنی میں جماعت اسلامی کو بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔ یہ حوالہ بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت نے حال ہی میں سیاستدانوں سے رابطوں کے لئے عرفان صدیقی، اقبال احسن اور خواجہ سعد رفیق پر مشتمل جو کمیٹی بنائی ہے اس نے کچھ عرصہ قبل ہی مولانا سراج الحق سے تفصیلی ملاقات کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق یہ کمیٹی انتہائی خاموشی کے ساتھ ’’بارودی سرنگیں‘‘ لگانے میں مصروف ہے۔ اپنے پیش رو منور حسن کے طرز عمل اور رویوں کے برعکس مولانا سراج الحق وزیراعظم نواز شریف کے بارے میں خاصا نرم رویہ اور مثبت سوچ رکھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی اے پی سی میں جماعت اسلامی کی جانب سے برائے نام حاضری، شیرپاؤ اور اے این پی کی عدم شرکت بھی اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ یہ کمیٹی ’’کام دکھا رہی ہے‘‘ اور خبر یہ بھی ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور مسلم لیگی گورنر سردار مہتاب خان کے درمیان گاڑھی چھن رہی ہے۔ ہم آہنگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور ون آن ون ملاقاتیں بھی جاری ہیں۔
مولانا سراج الحق ایک سیدھے سادھے، سیاسی مکر و فریب سے بے نیاز صاف گو شخص ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر بننے سے پہلے بھی وہ ایک غریب شخص تھے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ محض تنگدستی کے باعث انہیں ابتدائی زندگی میں حصول علم کے لئے بھی دشواریاں پیش آئیں۔ مولانا سراج الحق سے گفتگو کی اس نشست میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال اور سوال و جواب ہوئے لیکن قاضی حسین احمد بہت یاد آئے۔
قاضی صاحب دینی اور دنیاوی معاملات پر جب گفتگو کرتے تو ان کے مطالعے، حالات حاضرہ، ملکی و غیرملکی بالخصوص اسلامی مملکتوں کے بارے میں آگہی، وہاں بدلتی ہوئی سوچوں سے ان کے تعلق اور وابستگی کا اندازہ ہوتا تھا۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو مساجد، مدرسوں اور تنظیمی مراکز سے باہر لانے کی کوشش کی۔ پاسبان اور شباب ملی جیسی تنظیمیں بھی بنائیں اور پھر ’’ظالمو قاضی آ رہا ہے‘‘ جیسے سلوگنز بھی سامنے آئے اور تنظیمی اغراض و مقاصد کو موسیقی کے رنگ و آہنگ میں بھی پیش کیا۔ دھرنوں کی سیاست بھی کی اور عام لوگوں کو جماعت کا رکن بنانے کا تجربہ بھی۔ لیکن ایسے اقدامات سے عوامی سطح پر تو انہیں پذیرائی حاصل ہوئی لیکن جماعت اسلامی میں روایتی سوچ رکھنے والے بزرگوں نے اس تبدیلی کو پسندیدگی سے نہیں دیکھا۔ قاضی صاحب ایک کشادہ دل اور اعلیٰ ظرف شخصیت تھے اُن میں اپنی سوچ، موقف اور نظریات کے خلاف سننے کا بڑا حوصلہ تھا۔ وہ اپنی دلیل نرم الفاظ اور دھیمی آواز میں تسلیم کرانے کے ہنر سے آشنا تھے۔
90ء کی دہائی کا واقعہ ہےلائن آف کنٹرول پر بھارتی افواج کی فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کے خاندانوں سے اظہار یکجہتی کرنے کےلئے آزادکشمیر نکیال جانے کا پروگرام بنا تو سفر میں قاضی صاحب کی رفاقت میسر ہوئی۔ روانگی کے وقت سیاست، مذہب، فنون لطیفہ بالخصوص شعر و شاعری غرض ہر موضوع پر گفتگو ہوئی۔ اقبال سے لے کر فیض اور فراز کے اشعار اور فارسی کی ضرب المثل، کہاوتیں، بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، قرآن و احادیث کے حوالے سب کچھ قاضی صاحب کو اَزبر تھا۔ واپسی پر قاضی صاحب دل گرفتہ تھے۔ پھر کچھ تھکن بھی تھی اگلی نشست پر ڈرائیور کے ساتھ عطا الرحمٰن جو تنظیمی عہدے کے مطابق تو امیر جماعت اسلامی کے کوآرڈی نیٹر تھے لیکن قاضی صاحب انہیں ہمیشہ بیٹا ہی کہہ کر بلاتے اور ایسا ہی سمجھتے تھے۔ راستے میں سڑک کنارے گاڑی روک کر نماز مغرب ادا کی۔ قاضی صاحب کی دعا قدرے طویل ہو گئی۔ بلند آواز میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ایستادہ ہوئے تو داڑھی آنسوئوں سے تر تھی۔ حیرت اور سوالیہ انداز میں ان کی طرف دیکھا تو دونوں ہاتھوں میں چہرے کو بھرتے ہوئے کہا ’’بیٹا دعا ایسے مانگنی چاہئے کہ آنسو بہنے لگیں‘‘ قاضی صاحب جس سے پیار کرتے تھے شفقت سے اس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں سمیٹ لیا کرتے تھے، اپنے آصف لقمان قاضی کی طرح، آج کے حالات بیتے ہوئے دنوں کی ہی نہیں بلکہ گزرے ہوئے محترم لوگوں کی یاد تازہ کراتے ہیں لگتا ہے بیتے ہوئے دنوں کیساتھ ساتھ لوگوں کی یادوں کا ماتم بھی جاری رکھنا ہو گا۔عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان کافی عرصے سے ’’سیاسی اعتکاف‘‘ میں ہیں پانچ سال تک ان کی پارٹی اقتدار کا حصہ رہی تو ان سے رابطہ بھی ہوتا تھا اور ملاقاتیں بھی رہتی تھیں پشاور میں خود پر ہونے والے حملے کے بعد وہ چند ہی گھنٹوں میں اسلام آباد سے خصوصی طور پر بھیجے جانے والے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اپنے گھرانے کے چند افراد کے ساتھ پہلے اپنے میزبان صدر آصف علی زرداری کے پاس ایوان صدر کے مہمان خانے میں سکونت پذیر رہے ۔
اور پھر وہاں سے چند منٹ کی مسافت پر واقع خیبرپختونخوا ہائوس کی مضبوط اور محفوظ چار دیواری میں منتقل ہو گئے تاہم اس دوران جب بھی اُن سے گفتگو کی نشستیں ہوتیں خان عبدالولی خان کی باتیں بہت یاد آتی تھیں۔۔۔ کچھ ایسا ہی حال غلام مرتضیٰ خان جتوئی سے ملنے کے بعد ہوتا اور اُن کے والد محترم غلام مصطفیٰ جتوئی کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہوتی۔۔ نوابزادہ طلال اکبر بگٹی سے ملنے کے بعد تو یقین ہی نہیں آتا کہ انہوں نے اپنے والد محترم نواب اکبر بگٹی سے کچھ سیکھا ہے، اُن کی سیاسی تربیت کی ایک جھلک بھی اِن میں نظر نہیں آتی۔ نوابزادہ نصراللہ خان کے ’’نوابزدگان‘‘ کا تو خیر ذکر ہی کیا البتہ مولانا مفتی محمود کا حوالہ قدرے مختلف ہے۔ بقول ایک واقف حال کے ’’اگر آج مولانا مفتی محمود حیات ہوتے تو وہ بھی اپنے صاحبزادے فضل الرحمٰن کی سیاست کو نہ سمجھ پاتے‘‘ مولانا مفتی محمود شوگر کے عارضے میں بھی مبتلا تھے اور رات کے کھانے کے بعد ان کا ایک خدمتگار مختلف عوارض کی ادویات کا ایک بیگ ان کے سامنے لاکر رکھتا جس میں سے بلامبالغہ 10 سے 12 مختلف قسم کی گولیاں اور کیپسول کھانا ان کے لئے ضروری تھا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال مولانا فضل الرحمٰن کی بھی ہے وہ بھی شوگر کے مریض ہیں اور اسی مقدار میں ادویات لیتے ہیں بظاہر حضرت مولانا مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمٰن میں بس یہی مماثلت ہے۔
تازہ ترین