• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر یہ کہا جائے کہ سندھ میں طاقت و اقتدار کے سارے سرچشمے جہاں سے پھوٹتے ہیں وہ نوابشاہ اور خیرپور میرس اضلاع ہیں اوریہی دو اور انکے پڑوسی اضلاع صوبے میں خواتین کے خلاف تشدد و زیادتیوں اور ڈاکوئوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے گویا صوبے میں جرائم کے دارالحکومت بنے ہوئے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ نوابشاہ ضلع جہاں سندھ میں طاقت اور اقتدار کے اصل منبعے آصف علی زرداری اور انکی ہمشیرہ "ادی" فریال تالپور کا ضلع ہے اور دوسرا خیرپور میرس جو سندھ کے وزیر اعلی سید قائم علی شاہ کا گھر ہے جو خواتین کے خلاف تشدد اور شہریوں کے اغوا برائے تاوان کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ اگرچہ ویسے تو سندھ میں امن امان کا مسئلہ کلہوڑا حکمرانوں سے لیکر آج کے سید قائم علی شاہ تک ہر حکمران کے تاج کا کنکر بن کر رہا ہے لیکن سندھ کے آج کے حکمرانوں کی سندھ پر حکمرانی کا رول ماڈل خیرپور کو بنا کر لے لیجئے کہ جہاں کے چھوٹے شہر رسول آباد میں پچھلے دنوں جو ڈاکوئوں کے ہاتھوں خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی واردات ہے جسکے مجرم آج تک فقط گرفت سے بچے ہوئے ہیں کہ انکا تعلق حکمران پارٹی سے بتایا جاتا ہے۔ پولیس ایسے انتہائی گھنائونے جرم کے متعلق محض ڈاکے کی واردات کی فریاد داخل کرنے یا ایف آئی آر کاٹنے پر مصر تب تک تھی جب تک وزیر اعظم نواز شریف نے اس قضیے کا نوٹس نہیں لیا اور انکی پارٹی ایم این اے ماروی میمن نے متاثرہ خاندان اور ان مظلوم خواتین سے آکر ملاقاتیں نہیں کیں۔ مرکزی حکومت کی سیاست کو داد دینا پڑتا ہے کہ سندھ میں اگر کوئی غلطی سے اچھی چیز ہوجاتی ہے تو اس کا فوری کریڈٹ خود لیں گے اور خراب کریڈٹ ہر صورت میں سندھ آپریشن کے کپتان یعنی سید قائم علی شاہ اور انکی حکومت کے کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ ڈالا بھی کیوں نہ جائے کہ سندھ میں حکمران اور انکی ڈوریاں کھینچنے والے کٹھ پتلی تماش گر یا پپیٹیئر ادا یا ادیاں طاقت کے نشے اور گھمنڈ میں اتنا چور ہیں کہ یا تو وہ دولت اکٹھی کرنے میں مصروف ہیں یا پھر ان کیلئے سندھ کے تمام مسائل صوبے میں پولیس کے سربراہ یا آئی جی یا اانکے اپنے اضلاع میں ایس ایس پیز کی تعیناتی پر مرکوز ہو کر رہ گئے ہیں۔ ویسے بھی سندھی وڈیرے کیلئے پٹواری ، تھانیدار ، تحصیلدار اپنی مرضی سے تعینات کروانا کہ جس سے مخالف پر رعب ودبدبہ قائم رکھا جا سکے سیاست طاقت کا اصل محور ہوتا ہے۔وڈیرہ ایک کسی طبقے کا نہیں ایک ذہنیت اور طریق ہائے واردات کا نام ہے۔ اگر وڈیرہ کسی طبقے کا نام ہوتا تو پھر سندھ میں تو گزشتہ دو دہائیوں میں زیادہ تر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعلی اور سینئر وزیر بر سراقتدار آئے ہیں یا انکے ساجھے دار شہری وڈیرے آئے ہیں پھر بھی کے غریب عوام اپنے بچے بیچنے اور سانپ پکڑ کر گزر بسر کرنے پر مجبور کیوں ۔ مخالفین کو کالا پانی دکھلانے کی سزائيں کیوں۔ لے جاکے دکھلائیے تجھے مصر کا بازار۔ عبد اللہ شاہ تو متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا پھر ہر حکومت وقت کا سیاسی مخالف جی ایم سید نوے سال سے زائد عمر اور شدید علیل ہونے کے باوجود آخری دم تک حالت نظربندی میں کیوں رکھا گيا۔ یہ جناب ٹپی تو جنگل کے شیر وڈیرے نہیں تھے یہ تو شہری بابو تھے انکے مخالف لیکن جاگیردار ٹھٹھہ کے شیرازی برادران (جو خود بھی جب اقتدار میں ہوتے ہیں مخالفین کو ناکوں لوہے کے چنے چبوانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے یہ پہلی بار ہے کہ وہ حکومتی پارٹی سے باہر ہیں) پر مقدمات کا لامتناہی سلسلہ کیوں ۔ کیا سندھ میں محکمہ جنگلات کی زمینیں صرف شیرازی برادران اور انکے وانٹھوں (لٹھ بردار) کے علاوہ بھی کس اور نے قبضہ کی ہوئی ہیں؟ اقتداری اور حزب مخالف وڈیرے اور میر پیر تو دریائے سندھ چاہے قومی و انڈس شاہراہوں کے دوریہ کناروں پر کھڑے درخت کٹوا کر کھا گئے۔ محکمہ آبپاشی یا ریلوے کی سرکاری زمینیں او ریسٹ ہائوس تک قبضے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ تھر میں گئو چر یا گائیوں کے سرکاری چراگاہ تک غیر قانونی قبضوں میں آئے ہوئے ہیں۔ بیرج ایریا میں پانی تک چوری کرگئے۔ سندھ کا پانی، غریب سندھیوں کے حصے کا نہری پانی، سندھ کی کانیں، معدنیات، مچھلی، پتھر، جپسم گرینہایٹ، سنگ مرمر، جنگلات، روڈ راستے چرانے ان پر ڈاکہ زنی کرنے یا سندھیوں کو اغوا برائے تاوان کرنے کوئی شمالی وزیرستان سے مہاجر نہیں آئے ، نہ ہی کوئی بین الصوبائی گروہ آئے بلکہ سندھ کے میر پیر وڈیرے اور حکمران اور انکے قالین کے توبچی ہیں۔ ادا اور ادی ہیں۔ وڈیرے اور وڈیریاں ہیں۔’’اہل سندھ نے جن لوگوں کو مینڈیٹ دیا وہ تو سندھ کو ہر وقت لوٹنے اور فروخت کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں‘‘ میرے ایک دوست نے مجھے سندھ سے لکھا ہے۔
صرف گزشتہ دو سال سے بھی کم عرصے میں فقط ضلع خیرپور میرس میں آٹھ سے دس ایس ایس پیز پولیس تبدیل کئے ہیں۔ اس سے سندھ یا ضلع میں امن امان کی صورتحال کتنی کیوں نہ مخدوش ہو لیکن انتخابات بھی تو حکمران پارٹی کو زیادہ تر ایس ایس پیز نے ہی جتوائے تھے اور سندھ بغیرآئی جی کے چل رہا ہے۔ سندھ حکومت اپنے ہی زرداری کے ضلعے سے تعلق رکھنے والے کو آئی جی لانا چاہتی ہے جبکہ وفاقی حکومت کو سندھ کے حکمرانوں کے پسندیدہ نام پسند نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ گذشتہ ساٹھ برسوں سے بھی زائد عرصے میں شاذ و نادر ہی سندھ میں کوئی سندھی بولنے والا چیف سیکرٹری یا آئی جی تعینات کیا گیا ہے۔ ویسے بھی اگر سندھی چیف سیکرٹری یا آئی جی ہوگا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے وہ تو اور بھی زیادہ وڈیروں کو راضی رکھنے میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادرار ثابت ہوئے ہیں۔ (سوائے بشیر صدیقی کے)۔گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے سندھ کے وزیر اعلی سید قائم علی شاہ کے ضلع خیرپور میرس کی تحصیل سوبھودیرو کے گائوں رسول آباد میں سات مسلح ڈاکو مقامی باشندے بابو پریل میمن کے گھر میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے گھر کی چار خواتین کو اجتماعی زنا با الجبر کا نشانہ بنایا۔ شروعاتی طور پولیس نے باوجود شہریوں کے احتجاج کےزنا با الجبر کا مقدمہ دائر کرنے کے بجائے محض ڈاکے کی واردات کا مقدمہ درج کیا جو کہ اب دہشت گردی کے قوانین کے تحت جنسی زیادتی کے زمرے میں داخل کیا گیا ہے تا ہنوز دو اہم مبینہ ملزم اب تک گرفتار نہیں کیے جا سکے۔ سندھ میں خیرپور میرس جہاں ایوب خان کے زمانے میں بدنام ڈاکو محرم جانوری سے لیکر بینظیر دور تک رب رکھیو ناریجو اور غوث علی شاہ کے دور حکومت میں سکھر جیل توڑ کر فرار ہونیوالے تھوک کے حساب سے ڈاکوئوں (سازشی تھیوریاں بھی ہیں کہ سندھ کے حالات کو خراب رکھنے کیلئے آمریت میں یہ جیل ایک سازش کے تحت تڑوائی گئی نیز اسوقت کے وزیر اعلی کو مبینہ طور بھاری رشوت دی گئی تھی ) کے حوالے سے خراب نام کمایا تھا کے بعد اب ڈاکوئوں کی چوتھی نسل ہے یہ مختلف قبیلوں کے ڈاکوئوں اور خطرناک مجرموں پر مشتمل ہیں جنکے چھوٹے بڑے سردار پتھاریدار کسی نہ کسی طرح حکومتی پارٹی یا حزب مخالف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لاڑکانہ سے لیکر شکارپور ، گڑہی یاسین اور خیرپور سکھر کون سے سیاستدان کا نام نہاد فارم ہائوس نہیں جو مبینہ طور پر اغوا برائے تاوان کے یرغمالیوں کو رکھنے سے یا مجرم پیش یا اغوا کاروں اب صاحبوں کے گارڈز کی کمین گاہوں کی شہرت نہ رکھتے ہوں۔ اغوا برائے تاوان کو جب جب بھی عوامی پارٹی کی حکومت آئی ہے ایک مقامی قومی صنعت کا درجہ حاصل ہوا ہے کہ اسکے پیچھے ایک تمام تاریخ ہے۔ کے لوگوں کو نہ فقط اسٹیبلشمنٹ نے پی پی پی کو ووٹ دینے پر سزا دی ہے لیکن سندھ کے لوگوں کو خود بھٹو کو ووٹ دینے کے جرم میں پیپلزپارٹی کے حکومتی وڈیروں نے بھی سزا دی ہے۔ (ایک پوری تاریخ ہے۔ شکارپور ہو کہ خیرپور میرس ماضی قریب تک سندھ کے میٹرو پولیس کہلانے والے شہروں کے اضلاع آج ڈاکوئوں کی کارروائيوں، بشمول اغوا برائے تاوان ، قبائلی قتل و غارت گری ، خواتین کے خلاف تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے دار الحکومت بنے ہوئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں سندھ لوگوں نے خود کو بھی ادی یا ادا کے عشق کے پاداش میں سزا دی ہے!
تازہ ترین