• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئٹہ غم سے نڈھال ہے، کوئٹہ ہی کیا سارا پاکستان ہی غم سے نڈھال ہے۔ عربی زبان میں کہتے ہیں کہ آخر صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔اسی طرح صدمے برداشت کرنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اب تو غم کے ماروں کی قوت برداشت جواب دیتی محسوس ہوتی ہے۔ کسی ایک پیارے کی موت انسان کو صدمے سے نڈھال کر جاتی ہے اور یہاں تو خودکش بمبار نے آن واحد میں وہ قیامت ڈھائی کہ 71 لاشیں تڑپنے لگیں اور ایک سو سے زیادہ زخمی درد کی شدت سے کراہنے لگے۔ کوئٹہ میں میرے صحافی دوست عبدالقیوم کاکڑ نے بتایا کہ یہاں ہر گھر ماتم کدہ بنا ہوا ہے۔ اکثر گھروں میں صف ماتم بچھی ہے باقی گھروں میں غم واندوہ نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ شہید ہونے والوں کی اکثریت کوئٹہ کے نامور وکلاء کی ہے۔ ایک طرف دہشت گردوں کےپشتیبان اپنی خوئے بد چھوڑنے کو تیار نہیں دوسری طرف ہمارے حکمران اپنا رٹا رٹایا، چھپا چھپایا اور لکھا لکھایا بیان بدلنے کو تیار نہیں۔میاں نواز شریف فرماتے ہیں سیکورٹی ادارے دہشت گردوں کو پوری طاقت سے کچل دیں۔ ہم آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ تاہم حکمران کبھی لندن کی عطریز فضائوں میں اور کبھی مری کی ٹھنڈی ہوائوں میں چین کی بانسری بجاتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کے لئے اُن کے ڈھنڈورچی اور طبلچی کافی ہیں۔ ساری دنیا میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ اوورسیز پاکستانی مضطرب و پریشان ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران صرف لاہور میں 931 بچے اغوا ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز کے ایک اخبار کی خبر ہے کہ شیخوپورہ میں مغوی بچے کی آنکھیں، دل اور گردے نکال کر لاش کھیت میں پھینک دی۔ سات سالہ سبحان کو تین روز پہلے اغوا کیا گیا تھا۔ قصور سے تین بچے اغوا ۔ ایسی خبریں روزانہ اخبارات میں شائع ہو رہی ہیں۔ حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ تو کجا اُن کے ضمیر میں ہلکی سی بھی خلش پیدا نہیں ہوتی۔ یہی حکومتی طرز عمل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی نظر آتا ہے۔
8 اگست 2013ء کوئٹہ میں ایک پولیس آفیسر کو اسی طرح ٹارگٹ کلنگ میں پہلے شہید کیا گیا اور جب لوگ ہزاروں کی تعداد میںشہید کی نماز جنازہ ادا کر رہے تھے تو سول اسپتال والے انداز میں وہاں خودکش بمبار نے خود کو اُڑا لیا اور اس طرح درجنوں افراد نے تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیا۔ تب بھی ہمارے حکمرانوں نے ایسے ہی سطحی وجذباتی بیانات دیئے تھے ۔ اتنے بڑے پیمانے پر برسوں سے مسلسل کی جانے والی دہشت گردی بغیر منصوبہ بندی اور فنڈنگ کے نہیں ہوسکتی۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ اُن کے پاس را کی سازشوں کے مصدقہ ثبوت ہیں۔ چند برس پہلے پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کو را کی بلوچستان میں دہشت گردی کے ثبوت پیش کئے تھے۔ پھر کیا ہوا کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ بھارت ، افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا ہے، اپنے جاسوس بھیجتا ہے۔ چند بے راہ پاکستانیوں کو اپنے ہی وطن میں تخریبی کارروائیوں کے لئے فنڈ بھی مہیا کرتا ہے اور تخریب کاری کی تربیت بھی دیتا ہے۔
گزشتہ ایک دو روز میں حکومتی اتحادیوں اور ترجمانوں نے بیان بازی کے شوق میں نہایت غیر ذمہ دارانہ بیانات دیئے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ گہرے پانی سے سوئی ڈھونڈ لینے والی ایجنسیاں دہشت گرد کیوں نہیں پکڑ پا رہیں۔ صرف را پر الزام سے کام نہیں چلے گا، تخریب کار ایجنسیوں کے پے رول پر ہیں۔ اسی طرح محمد خان شیرانی نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کے لئے ہے یا ملک اسٹیبلشمنٹ کے لئے دن میں دو،دو بار حکومت سے مشورہ کرنے والے اچکزئی سے پوچھا جائے کہ وہ کس کا کھیل، کھیل رہے ہیں۔ جب حکومت اور اس کے اتحادی اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے تو پھر جو ادارہ یہ قومی فریضہ ادا کر رہا ہے اس پر اتنی تندو تیز تنقید سے کیا اندازہ لگایا جائے۔ حکومت ہی اس کی وضاحت کرے۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر ایک دانشور کا بیان گردش کر کررہا ہے کہ اگر کشمیر میں دہشت گردی کی آزادی ہے تو پھر بلوچستان میں جنگ آزادی کیوں نہیں۔ اگر یہ کلمات فی الواقع کسی دانشور کے ہیں تو پھر یہ نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ اور حقائق کے منافی کلمات ہیں۔ وادی کشمیر ایک مقبوضہ اور متنازع علاقہ ہے۔ دوسری طرف بلوچستان اپنی آزاد مرضی سے پاکستان میںبہ رضا و رغبت شامل ہوا تھا۔ اب یہ وفاق کی ایک اکائی ہے۔ اس صوبے میں آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں، جن کے نتیجے میں صوبائی اسمبلی وجود میں آتی ہے۔ اس کے نمائندے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن بنتے ہیں اور ہر جگہ اپنی آواز بلند کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی ان چینلز کو چھوڑ کر ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھاتا ہے تو وہ سرکشی کرتا ہے اور دہشت گردی کا مرتکب ہوتا ہے جس کی بیخ کنی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ فتنہ قتل سے بھی زیادہ شدید جرم ہے جس کا قلع قمع ضروری ہے۔
آپریشن ضرب عضب کی مکمل کامیابی کیلئے ضروری تھا کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر صدق دل سے عمل درآمد کرتی۔ مگر نہ تو مختلف ایجنسیوں کے درمیان تعاون کا کوئی نظام وضع کیا جاسکا اور نہ ہی نیکٹا حقیقی معنوں میں وجود میں آئی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے نہ ہی مدرسہ اصلاحات نافذ کی جاسکی ہیں اور نہ ہی فرقوں اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے لئے کوئی ٹھوس کام ہوا ہے۔ اسی طرح کریمنل کوڈ میں بنیادی اصلاحات کی جو تجویز نیشنل ایکشن پلان میں دی گئی تھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے درست کہا کہ کیسے کوئٹہ کو خاص طور پر اس لئے بھی دہشت گردی کانشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ پاک، چین راہداری منصوبہ دشمن کی آنکھوں میں ہی نہیں ہمارے بعض دوستوں کی آنکھوں میں بھی کھٹکتا ہے۔
را کی سازشوں اور سرگرمیوں کا زبانی کلامی تذکرہ کافی نہیں اس کا حقیقی تدارک بھی بے انتہا ضروری ہے۔ چند ماہ قبل بھارتی جاسوس کل بھوشن پکڑا گیا تھا۔ اس کی زبانی حکومت کو کئی سازشوں کا علم ہوا ہوگا مگر اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
کراچی میں را کے ایجنٹوں کے بارے میں حکومت کے پاس مصدقہ ثبوت ہیں مگر اُن کے خلاف بھی کہیں کوئی ایکشن ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ دہشت گردی کی ہر بڑی کارروائی کے بعد قوم آس لگا لیتی ہے کہ اب حکومت کی طرف سے کوئی ایسا پلان آئے گا جو روٹین سے ہٹ کر ہوگا جس میں پرانے حکومتی ایجنڈے پر خط تنسیخ پھیرنے کی بات ہوگی اور کہا جائے گا کہ اب ہم لوٹ مار کلچر سے خود بھی اجتناب کریں گے اور کسی اور کو بھی لوٹ مار نہ کرنے دیں گے۔ قوم ایسے بیان کی منتظر رہتی ہے جس میں کہا جائے کہ پاناما لیکس کی جس عدالت سے جس ادارے سے اور جس فورم سے چاہے تحقیق کروالیں ہم اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرتے ہیں۔ حکومت جب تک اخلاص نیت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرے گی اس وقت تک محض فوج کے ضرب عضب سے مکمل کامیابی حاصل کرنا ناممکن نہیں۔
حکومت نے کشمیر میں بھارتی ظلم و بربریت کے خلاف دنیا کے ہر فورم پر جانے کی بات کی تھی مگر اس کی اب تک نوبت نہیں آئی۔ ہماری حکومت کی اسی گومگو پالیسی سے شہ پاکر بھارتی سینہ زوری اور بھی منہ زور ہوگئی ہے۔ کشمیر میں ظلم و بربریت پر شرمندہ ہونے کے بجائے گزشتہ روز بھارت نے پاکستانی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ حوالے کیا ۔ کشمیر سے کسی بہادر علی کو گرفتار کر کے اس پر بے سروپا الزامات لگائے گئے ہیں تاکہ کل بھوشن کی گرفتاری جیسا تاثر دیا جائے۔ اگر پاکستانی حکومت اسی طرح سے بے بسی اور بزدلی کا مظاہرہ کرتی رہی تو بھارت ایک بار پھر ماضی کی طرح دنیا میں پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرتا رہے گا۔ اس وقت اگر کوئی شے دہشت گردی کے خلاف سوفیصد کامیابی کی ضمانت دے سکتی ہے تو وہ صرف حکومت کا ذمہ دارانہ رویہ ہے۔


.
تازہ ترین