• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماضی میں پاکستان کے دو منتخب نمائندے ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نوازشریف آمریت کا نشانہ بنے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد اقتدار کی حزب اختلاف یا PNA کی سوچ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ روز روشن کی مانند عیاں ہے کہ وہ بھٹو کو ہر قیمت پر درست طور یا غلط انداز سے اقتدار سے علیحدہ کر دینا چاہتے تھے۔ چاہے نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ بھٹو اقتدار سے علیحدہ ہوگئے بلکہ جان تک سے چلے گئے۔ مگر اسی حزب اختلاف کی اکثر جماعتوں کا سیاسی مستقبل یہ ٹھہرا کہ وہ اسی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر MRD کی تحریک چلا رہے تھے۔ نواز شریف کے خلاف 1997ء کے زمانے میں حزب اختلاف نواز ہٹائو یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھی GDA کے نام سے ہوئی۔ نواز شریف اقتدار اور ملک دونوں سے جبراً بیدخل کر دیئے گئے۔ مگر پھر کیا ہوا۔ وہی GDA جو نواز ہٹائو یک نکاتی ایجنڈے پر تھی اپنے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے ہمراہ ARD تشکیل دے رہی تھی۔ جنرل مشرف نے محترمہ بینظیر بھٹو کو انتخابات تک میں حصہ نہ لینے دیا۔ انہیں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین بنانا پڑ گئی۔ جنرل مشرف پیپلز پارٹی کو 2002ء کے نام نہاد انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی پیٹریاٹ نام سے ایجاد کر گئے۔ MQM کا سب سے بڑا مفاد کراچی کے بلدیات تھے۔ 2001ء میں ان کو اس سے بیدخل کر دیا گیا۔ ANP کے بطن سے دوبارہ NAP کا ظہور وجود میں آ گیا۔ انہی حالات کے سبب 27 دسمبر 2007ء کا منحوس دن بھی آیا ۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو بچھڑ گئیں۔ یہ سب کیوں ہوا۔ اس لئے کے حزب اختلاف بھٹو ہٹائو، نواز ہٹائو سے آگے دیکھنے کی صلاحیت استعمال کرنے کے لئے تیار ہی نہ تھی۔ اور بد قسمتی سےحزب اختلاف کا ایک اہم دھڑا آج بھی تیار نہیں ہے۔موجودہ عہد میں حزب اختلاف نفرت کی سیاست ہی صرف کیوں کر رہی ہے۔ جواب بالکل واضح اور سادہ ہے۔ نظریاتی اور عملی قحط۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی بنیاد نظریے پر ہوتی ہے یا ہونی چاہئے۔ نظریے سے مراد یہ ہے کہ وہ معاشرے کی ساخت کا مطالعہ کرکے اس کے لئے معاشی ، ثقافتی اور سماجی پہلوئوں کے حوالے سے قابل عمل لائحہ عمل تجویز کرتی ہے۔ اور اگر کہیں اقتدار سے بہرہ مند ہو تو اس صورت میں اس تجویز کو عملی جامہ پہنا دیتی ہے۔ آج حزب اختلاف دو صوبوں میں حکمراں ہے۔ کیا کسی نظریاتی فکری تحریک اور اس کی بنیاد پر اپنے صوبوں میں مفاد عامہ کے حوالے سے عوام کو سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔ ضد پراڑجائو تو اور بات ہے ورنہ جواب نفی میں ہو گا۔ جب ڈیلیور کرنے کی صلاحیت فکری اور عملی سطح پر نہیں ہے تو سیاست صرف نفرت کی بنیاد پر ہی ہو گی۔ اور اس نفرت کا انجام کسی وقت بھی سرزمین بے آئین کی صورت میں نمودار ہو سکتا ہے۔ بلا شبہ یہ بار بار دہرایا جارہا ہے کہ ہم جمہوریت کو رخصت نہیں ہونے دیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں بنے حزب اختلاف کے دونوں اتحادوں کا منطقی نتیجہ یہی نکلا۔ کل جمہوریت خدانخواستہ گزر گئی، اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو وفاق پاکستان پر بڑا سخت وقت ہو گا۔ کچھ دن قبل یوسف تالپور نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے ایک مضمون قلمبند کیا۔ اس وقت مجھے مضمون میں بیان کردہ اعداد و شمار سے غرض نہیں ہے۔ مگر سیاسی فکر جو اہل سندھ میں موجود ہے اس کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں۔ اس حوالے سے ان کا نفس مضمون یہ تھا کہ اس وقت تمام باتیں تسلیم بھی کرلی جائیں تو بعد میں ان پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نوازشریف کے پانی کے معاہدوں کو تسلیم کرتے ہوئے جہلم کینال کے حوالے سے وعدہ خلافی کا ذکر کیا اور بیان یہ کیا کہ کاغذوں پر رقم معاہدے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ خود نہ علاقائی سیاستدان ہیں اور نہ ہی جس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس کی سوچ علاقائی ہے۔ مگر پھر بھی اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ معاہدوں کی اہمیت ندارد۔ ایسا کیوں ہوا۔ اس لئے کہ تمام قوانین کا سرچشمہ آئین پاکستان بار بار بے توقیر ہوا۔ جب آئین ہی کا احترام ختم کیاجائے۔ یا کیا جا سکتا ہے تو قوانین یا معاہدوں کی کیا اہمیت ۔ اگر قوانین یا معاہدوں کی اہمیت پتھر پر لکیر کی مانند ہوتی تو چار باتیں مان لینے کے بعد کوئی وسوسہ یا وہم نہ رہ جاتا۔ اور قومی اہمیت کے نہ جانے کتنے مسائل حل ہوجاتے۔ مگر آئین کی بے حرمتی جمہوریت کا مذاق گھن کی طرح قومی یکجہتی کو چاٹے چلا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حزب اختلاف ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے دنیا کی طرح تہذیب اور قانون کے دائرے میں حق اختلاف استعمال کرے۔ کسی بھی نوعیت کے قوانین کی تشکیل یا نوک پلک سنوارنے کا واحد پلیٹ فارم صرف اور صرف پارلیمنٹ ہے۔ معاملات وہیں پر حل کئے جا سکتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حزب اختلاف کے سامنے لیلائے اقتدار کھڑی کردی گئی ہے اور اس لئے ہی اردو کے پہلے غزل گو شاعر ولی دکنی نے آج سے سوا تین سو برس قبل کہا تھا کہ
دل بے دل کو آج کرتی ہے
شوخ و چنچل کی چال کچھ کا کچھ
حالانکہ یہ صرف سراب ہے ہاتھ کچھ نہیں آنا۔


.
تازہ ترین