• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی جو شمالی وزیرستان کے متاثرین کے ساتھ پیمانِ وفا باندھنے کے لئے منعقد کی گئی تھی۔ اِس میں سول سوسائٹی کے معروف نمائندوں ، دانش وروں ، شاعروں ، کالم نگاروں اور خدمت ِخلق کی تنظیموں نے حصہ لیا۔خواتین بھی بہت نمایاں تھیں۔ اِس کانفرنس کا اہتمام اُردو ڈائجسٹ نے کیا تھا۔ وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اِس کے مہمانِ خصوصی تھے جو آئی ڈی پیز کے امور کی نگرانی کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل جناب ایس ایم ظفر نے اِس اہم تقریب کی صدارت کی اور بہت اہم نکات اُٹھائے۔ اِس کانفرنس کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے میں نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ ہم سب سے پہلے نو لاکھ سے زائد اُن عظیم بھائیوں ، بہنوں اور بزرگوں کو سلام پیش کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ کر سرد علاقوں سے انتہائی گرم علاقوں کی طرف ہجرت کر چکے ہیں اور مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ ہمارے بہت بڑے محسن اور ہمارے قابلِ احترام ہیرو ہیں۔ ہم اُنہیں لاہور سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم اُن کی پشت پر کھڑے ہیں اور ہم اُن کے ساتھ پیمانِ وفا باندھتے ہیں اور اُن کے لئے ہر قسم کے ایثار کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اِس کانفرنس کا دوسرا مقصد اُن عظیم خاندانوں کو سلامِ عقیدت پیش کرنا ہے جنہوں نے انصارِ مدینہ کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے مہاجر بھائیوں کو سینے سے لگایا اور اُنہیں اپنے گھروں میں مہمانوں کی طرح ٹھہرایا اور اُن کے دست و بازو ثابت ہوئے۔ اِس تقریب کا تیسرا مقصد اِس امر کا اندازہ لگانا ہے کہ شمالی وزیرستان کے متاثرین کو اِس وقت اور آنے والے وقتوں میں کن کن اشیاء کی ضرورت ہو گی۔ چوتھا مقصد یہ کہ ہم اُن مہاجرین کے دامن اچھی یادوں سے بھر دینا اور اُن کے لئے ایک خوبصورت دنیا تعمیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ اِس خطے سے دہشت گردی اور غربت و افلاس کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے۔ یہ کام جواں جذبوں ہی سے تکمیل پا سکے گا جس کے لئے گھر گھر اور کوچے کوچے ایک عوامی تحریک اُٹھانا ہوگی۔
ڈاکٹر آصف جاہ جو صحت کے شعبے میں خدمت ِخلق کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور بنوں میں اُن کے یونٹس کام کر رہے ہیں ، اُنہوں نے بتایا کہ وہاں دواؤں ، ڈاکٹروں ، نرسوں کی اشد ضرورت ہے اور بڑی تعداد میں پنکھے اور واٹر کولر درکار ہیںاور سب سے زیادہ ضرورت اُنہیں نقد رقوم کی ہے۔ ہمارے ہیرو موسم کی سختیوں کے باوجود صبر کے پیکر ہیں اور جب اُن کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں ، تو یہ خوشی سے رقص کرتے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ اِس موقع پر طیب اعجاز نے اُردو ڈائجسٹ اور ایک دوسرے ادارے کے اسٹاف کی طرف سے تین لاکھ روپے کا چیک وزیر صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔
الخدمت فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن جو آئی سرجن ہیں اور دنیا بھر میں آئی ڈی پیز کے معاملات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، اُنہوں نے بتایا کہ وہ دس ہزار خاندانوں کو راشن پہنچا چکے ہیں اور ہزاروں خاندانوں کے لئے عید کے تحائف تیار کر رہے ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ بنیادی رضاکاروں کے ساتھ اُن علاقوں میں اُن کے ساتھ عید منائیں تاکہ یک جہتی کا حقیقی احساس پیدا ہو۔ اُنہوں نے صحافیوں کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی اور اُمید ظاہر کی کہ یہ پولیو کو ختم کرنے کا بہت اچھا موقع ہے ، کیونکہ اب تک پولیو کے جو 95کیسز ہوئے ہیں ، اُن میں سے بیشتر کا تعلق شمالی وزیرستان سے تھا۔ ڈاکٹر آصف جاہ اور اُن کی ایمان افروز تقریروں نے حاضرین کو بہت متاثر کیا اور اُنہوں نے لاکھوں کے عطیات پیش کیے۔
اخوت کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنی گفتگو سے لوگوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا اور ایک نیا تجربہ بیان کر کے ہم سب کو حیرت زدہ کر دیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ غریب لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے پچاس ہزار تک بلاسود چھوٹے چھوٹے قرضے دیتے ہیں جو 98فی صد تک واپس کر دیے جاتے ہیں اور اب تک تین لاکھ افراد کو قرض حسنہ دے چکے ہیں۔ اُن سب نے اپنی طرف سے بیس بیس روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ اِس طرح چند روز میں ساٹھ لاکھ روپے جمع ہو جائیں گے۔ اُنہوں نے یہ نسخہ تجویز کیا کہ چھوٹی چھوٹی رقمیں جمع ہو کر بڑی رقمیں بن جاتی ہیں۔ اِس پر سکول میں پڑھنے والے دو طلبہ نے اپنی پاکٹ منی سے جمع شدہ دس دس ہزار روپے جناب عبدالقادر بلوچ کو پیش کیے جس پر پورے مجمع میں جوش و خروش کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی۔
آئی ڈی پیز کے نگران وزیر جناب عبدالقادر بلوچ نے اپنی ولولہ انگیز تقریر میں جذبوں کو گرمایا بھی اور بڑے بڑے حقائق سے پردہ بھی ہٹایا اور بڑے مؤثر انداز میں شمالی وزیرستان کے متاثرین کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اُنہوں نے ہمیں آرام اور پُرسکون نیند مہیا کرنے کے لئے اپنا سکون و آرام ہم پر قربان کر دیا اور سخت مصیبتیں جھیلیں ہیں۔ ہم اُن کی قربانیوں کی جتنی قدر کریں گے ، اتنا ہی ہمارا مستقبل محفوظ ہو گا اور ہم دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں ان شاء اﷲ پوری طرح کامیاب ہوں گے۔ اُن کی نظر میں ہمارے لئے آپریشن ضربِ عضب 1965کی جنگ سے اہم اور فیصلہ کن ثابت ہو گا ، اِس لئے پوری قوم کو اپنی مسلح افواج کی پشت پر کھڑا رہنا اور کامل یک سوئی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اِس پر ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ بلاشبہ بنوں اور اُس کے ملحقہ علاقوں میں قابلِ قدر این جی اوز کام کر رہی ہیں ، مگر فوج نے سب سے پہلے ایک مہینے کا راشن فراہم کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ میری درخواست پر آرمی چیف نے ایک پوری انجینئرنگ ڈویژن متاثرین کی دیکھ بھال ، اُن کی واپسی اور بحالی کے لئے متعین کر دی ہے۔ اُن کی رائے میں نقد رقوم اگر حکومت کے بنائے ہوئے طریق کار کے مطابق تقسیم کی جائیں ، تو وہ بہتر ہو گا کہ وہ سسٹم ٹرانسپیرنٹ بھی ہے اور اِس کے ذریعے دور دراز علاقوں میں پھیلے ہوئے مستفید ہو سکیں گے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہم رجسٹر اُنہی لوگوں کو کر رہے ہیں جو پولیو کے قطرے پیتے ہیں۔ اِس کے علاوہ نادرا آنے والے مہاجرین کے جملہ کوائف جمع کر رہی ہے جو آئندہ کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ کے سرکاری حکام کے ساتھ ہمارا تعاون مثالی ہے اور حکومت پنجاب متاثرین کو امداد پہنچانے میں بڑی فیاضی سے کام لے رہی ہے جس کے خوشگوار اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اُن کی گفتگو میں حقیقت پسندی کا رنگ غالب تھا اور اُنہیں پوری اُمید تھی کہ ہم بے مثال قومی جذبوں کے ذریعے چیلنجز کا بڑی پامردی سے مقابلہ کریں گے اور اِس خطے کو ایک شاندار مستقبل سے ہمکنار کر کے رہیں گے۔لاہور چیمبر کے صدر جناب سہیل لاشاری نے انکشاف کیا کہ ہم پہلی قسط کے طور پر ایک کروڑ روپے اگلے مہینے وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کر دیں گے ، کیونکہ متاثرین کا مسئلہ کم ازکم ایک سال پر محیط ہو گا اور اصل مرحلہ آباد کاری کا ہو گا۔ محترمہ بشریٰ رحمٰن نے اِس امر پر زور دیا کہ ہمیں شمالی وزیرستان کے متاثرین کی راہ میں آنکھیں بچھا دینی چاہئیں اور یہ اہتمام بھی کرنا چاہیے کہ سامان اور رقوم ٹھیک طور پر تقسیم کی جائیں۔ جناب ارشاد عارف نے متاثرین کی قربانیوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ معروف دانشور اوریا مقبول جان کہہ رہے تھے کہ ہمیں متاثرین کا کرب اپنی روزمرہ زندگی میں داخل کر دینا چاہیے کہ عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ ہم کس قدر گھمبیر چیلنج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
کانفرنس کے صدر جناب ایس ایم ظفر نے ایک تو حکومت کے اِس اقدام کی بڑی تعریف کی کہ اُس نے جناب عبدالقادر بلوچ کو آئی ڈی پیز کی ذمے داریاں سونپی ہیں۔ اُن کا تعلق ایک ایسے صوبے سے ہے جہاں انسانی محرومیوں کے ایک سے زیادہ المیے وجود میں آتے ہیں۔ اُن کے تجزیے کے مطابق ہم دہشت گردی کی جنگ آئی ڈی پیز کے ذریعے جیت سکتے ہیں اور اُن کے دل جیتنے کے لئے ہمیں مخلصانہ اور دیرپا کوششیں کرنا ہوں گی۔ اُن کا سیاست دانوں کو مشورہ تھا کہ وہ آئی ڈی پیز پر سیاست بازی کرنے کے بجائے یک جہتی اور بالغ نظری کا ثبو ت دیں۔ اُنہوںنے کہا کہ آئی ڈی پیز کے لئے بیرونی امداد ہمارا حق ہے کیونکہ اِس سلسلے میں ایک سے زیادہ کوٹیشنز موجود ہیں جن کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ارکان ممالک امداد فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ پیمانِ یک جہتی کانفرنس نے محبت و یگانگت کا بھرپور پیغام دیا اور قومی وحدت کا ایک نیا محوروجود میں آ چکا تھا۔
تازہ ترین