• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج اگر میں بنّوں میں ہوتاتو کیا ہوتا،یہ سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں۔ خدا جانے مجھ پر اور میرے گھرانے پر کیا گزر رہی ہوتی۔تپتی ہوئی دھوپ میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا میں اپنی باری کا انتظار کر رہا ہوتا اور اپنے بھوکے پیاسے بچّوں کو تسلّی کا پیغام بھیجتا کہ بس اب راشن ملنے ہی والا ہے۔ جیسے جیسے دھوپ کی حدّت بڑھتی، قطار کے سرکنے کی رفتار سست ہوتی جاتی۔ کوئی پولیس والا بار بار قریب سے گزرتا اور میرے کان میں کہہ جاتا کہ دوہزار روپے دو تو تمہاری باری آگے کروادوں۔ میں اپنے سے آگے اور پیچھے کھڑے لوگوں سے نگاہ چرا کر اپنی جیب میں حفاظت سے رکھے نوٹ نکالتا، انہیں گنتا اور سرد آہ بھر کے رہ جاتا۔ نوٹ تو پورے تھے لیکن میری بدنصیبی کہ چار نوٹوں پر قائد اعظم کے چہرے کی تصویر کے اوپر کسی نے ان کے خلاف کچھ لکھ رکھا تھا۔ ایسے نوٹ ایک دھیلے کے بھی نہیں ہوتے۔ میرے شانے کے اوپر سے جھانکنے والے شخص نے مجھ سے کہا۔ قائداعظم کی تصویر کے اوپر لکھنا بری بات ہے مگر سیاہی کچّی نظر آتی ہے۔ تھوک لگاؤ۔ مٹ جائے گی‘۔ اپنی اور بال بچوں کی تکلیف پر میں اتنا نہیں جھنجلایا جتنا میں اس خیال سے بھنّا اٹھا کہ قائد اعظم کے چہرے پر مجھے تھوک لگانا ہوگا۔ پیچھے کھڑے ہوئے شخص نے کہا ۔ ’کیا ہوا‘ ۔ میں نے کہا کہ قائد اعظم کے چہرے پر تھوک نہیں لگاؤں گا۔ یہ سن کر وہ زور سے ہنسا اور دیر تک پشتو میں کچھ کہتا رہا۔ بس اتنا سمجھ میں آیا کہ پوری قوم کہاں کہاں تھوک لگا رہی ہے۔ اتنی دیر میں وہی سپاہی قریب سے گزرا۔ میں نے اس کے کان میں کہا کہ چارنوٹوںپر قائداعظم کے خلاف لکھا ہے۔ کیا تم وہ نوٹ لے لو گے؟ وہ بڑے بڑے دانت نکال کر ہنسا اور بولا ۔’’بس؟ صرف قائداعظم کے خلاف لکھا ہے ۔ میں نے تو ایسے ایسے نوٹ چلائے ہیں جن پر گالیاں لکھی تھیں۔ ہاں مگر ہزار کے نوٹ کے پانچ سو روپے ہوں گے۔ منظور ہو تو تمہاری باری پندرہ بندوں سے آگے کر دوں گا۔‘‘کوئی میری بے بسی دیکھتا، پوری رقم میں اچانک دو ہزار کم ہو گئے۔ وہ بھی غنیمت تھا۔ اس سے بڑھ کر غضب یہ ہوا کہ میری ٹانگیں شل ہونے لگیں۔ قطار میں لگے دس گھنٹے ہو رہے تھے اور جو لوگ رجسٹریشن کی میز تک پہنچ گئے تھے ان کا ایک گھنٹے سے جھگڑا چل رہا تھا کہ ان کے شناختی کارڈ پر لکھے ہوئے پتے غلط ہیں۔ قطار کا حال نہ پوچھو۔ وہ آگے تو کیا بڑھتی، مجھ سے آگے کھڑے ہوئے لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی ۔میںنے اپنے پیچھے کھڑے ہوئے شخص سے کہا کہ ان کے نوٹوں پر پاکستان زندہ باد لکھا ہوگا۔ ہر چند کہ اس کے ہونٹ میر ے ہونٹوں سے کہیں زیادہ خشک تھے اور ان پر پپڑیاں جم رہی تھیں پھر بھی وہ زور سے ہنسا اور بولا۔’’ بھارتی نوٹ ہیں بھارتی نوٹ۔ پانچ سو کا نوٹ ایک ہزار میں چل رہا ہے۔‘‘میرے حوصلے اور زیادہ پست ہونے کو تھے کہ قدرت نے دھیان بھٹکانے کا سامان بھیج دیا۔ راشن کا تھیلا نہیں، لاہور سے اسلام آباد کے راستے آنے والی لیموزین کار۔ اچانک لوگ ادھر اُدھر دوڑنے لگے۔ یہ سب اخبار اور ٹی وی والے تھے جو کسی کی تصویریں اتار رہے تھے۔ نوٹوں کا سودا کرنے والے کانسٹیبل نے جلدی سے اپنی ٹوپی سیدھی کی اور خود بھی سیدھا ہو گیا ۔چمکتی دمکتی سیاہ کار سے کھڑکھڑاتی شلواریں پہنے جو لوگ اترے انہوں نے قطا ر والوں سے ہا تھ ملانے شروع کئے۔ عجیب لوگ تھے۔ ہاتھ ہم لوگوں سے ملاتے تھے اور دیکھتے کیمروں کی طرف تھے۔ انہوں نے اگلی صف میں کھڑے ہوئے کچھ لوگوں کو راشن کے تھیلے دئیے اور فوٹو اتروائے۔ اسی دوران کچھ چھوٹے بچّے لائے گئے۔ ان لوگوں نے بچوں کو پیار کئے اور فوٹو اتروائے، پھر انہیں گود میں اٹھایا اور فوٹو اتر وائے اور آخر میں جیب سے نکال کر ایک ایک نوٹ ہر بچّے کو دیا اور فوٹو اترواکر دوبارہ کار میں بیٹھ گئے۔ کار کچھ آگے جاکر مڑی ہی تھی کہ بچوں سے وہ نوٹ اور اگلی صف والوں سے راشن کے وہ تھیلے واپس لے لئے گئے۔ کسی نے کہا کہ مہمان جلدی ہی چلے گئے۔ کسی اور نے کہا کہ واپس اسلام آباد جانا ہوگا، اس پر کسی نے کہا کہ سبزہ زار کے ریسٹ ہاؤس میں پک نک کا انتظام کیا گیا ہے، خواتین کے ساتھ سب وہیں گئے ہیں ۔ دن ڈھلنے لگا۔ قطار کے رینگنے کی رفتا ر سست کی سست رہی۔مغرب کا وقت قریب آنے لگا۔پتہ چلا کہ دور ایک شامیانے میں دسترخوان لگ رہا ہے۔ لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کراور پنجوں پر اونچے ہو ہو کرافطاری کی تیاری دیکھتے جاتے اور آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے جاتے۔
’ اب کھجوریں آرہی ہیں، سوکھی ہوئی ہیں۔ ایک آدمی سموسے لایا ہے ، مرجھائے ہوئے ہیںاور نمک پارے ایک روز پہلے کے تلے ہوئے ہیں۔ارے واہ۔ کاغذ کے گلاسوں میں پانی بھرا جا رہا ہے۔برف ورف نہیں ہے، بس پانی ہے۔ اور کچھ نہیں ہے‘ ‘۔ آنکھوں دیکھا حال یہیں تک پہنچا تھا کہ اذان ہو گئی۔ یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی قطار میں کھڑ ے ہوئے بھوکے پیاسے روزہ داروں نے کسی اعلان کا انتظار بھی نہیں کیا اور افطار والے شامیانے کی طرف دوڑ لگا دی۔لوگ دوڑتے جاتے تھے اور دوسروں کو کہنی مار مار کر یا ٹانگ اڑا کر پیچھے کرتے جاتے تھے۔ ہر طرف گرد اڑ رہی تھی اور ایک شور بپا تھا۔ اس بھگدڑ میں دیکھا کہ میری چھوٹی بھتیجی مجھے ڈھونڈ رہی ہے۔ میں سب کچھ بھول بھال کر اس کی طرف لپکا اور اسے گود میں اٹھا کر پوچھا کہ تم یہاں کیوں آئی ہو۔ اس نے کہا۔’’ امّی نے بھیجا ہے اور کہلوایا ہے کہ ہم لوگوں کو جو کھانے پینے کا سامان ملا تھا وہ دوسری عورتوں نے چھین لیا ہے۔ کہیں سے چار پانچ کھجوریں بھیج دیجئے‘‘۔ پھر چلتے چلتے چیخ کر بولی۔’’ چچا جان، پانی بھی۔‘‘چچاجان کی یہ صدا میری روح کو چیرتی چلی گئی۔میرے ذہن نے بنّوں کے میدان سے اڑان بھری اور خدا جانے کس دریا کی ترائی میں اتر گیا۔میں حیرا ن تھا یہ مجھے کیا ہوا۔ میرے دونوں بازو کبھی اتنے شل نہیں ہوئے تھے جتنے اُس روز ہوئے۔میں دریا سے پانی بھی نہ نکال سکا۔
یہ ہے ایک کرب اور ایک بلا کی کہانی۔ بے گھر ہونے والوں کی اذیّت کیا ہوتی ہے، ہم کیا جانیں۔اپنے گھروندوں میں روکھی سوکھی جیسی بھی سہی، چین کی زندگی بسر کرنے والوں سے کہا جائے کہ راتوں رات نکل جاؤ اور یہ جانے بغیر چلتے جاؤ کہ کہاں جانا ہے، تو ان کےدل اور دماغ پر کیا گزرتی ہے، ہماری چشم تصوّر کور ہو جائے مگر وہ منظر نہ بنا سکے۔ اپنے ہی وطن کے سیدھے سادے لوگ یک لخت بے وطن ہوجائیں، صرف اتنا ہی نہیں۔پھر انہیں قیامت کی گرمی اور لمبے دنوں کے طویل روزے کی حالت میں اور تپتی ہوئی دھوپ میں سانپوں جیسی بل کھاتی قطاروں میں کھڑا کر دیا جائے ،یہا ں تک کہ ان کی ٹانگیں کمزور پڑ جائیں اور سب کے سب زمین پر اکڑوں بیٹھ کر قطار کے ساتھ آگے کھسکتے جائیں۔ یہ سب عذاب ہے عذاب اور عذاب بھی ایسا جو بے گناہوں پر اترا ہو۔ایک جانب یہ قیامت ٹوٹ رہی ہو اور دوسری جانب قوم راتوں کو جاگ جاگ کر فٹ بال کے مقابلے دیکھ رہی ہو اور اس بحث میں الجھی ہو کہ فلاں کھلاڑی یہودی ہے یا نہیں۔
یہ تھی وہ گھڑی جب لوگ اٹھ کھڑے ہوتے۔ سارے کام دھندے چھوڑ کر ان بے خانماں ہم وطنوں کا ہاتھ بٹانے کے لئے نکل کھڑے ہوتے۔ ان کے دکھ دور کرتے، اس تباہی کے منظر کو حیرت سے دیکھنے والے سہمے ہوئے بچوں کو بہلاتے، نو عمر بچّیوں کی سہیلیاں بن کر ان کا جی بہلاتے ، پردہ دار خواتین، وہ خواتین جنہیں مرجانا منظور ہے لیکن مرد ڈاکٹر کو زبان دکھانا گوا را نہیں، ان کا آسرا بننے کے لئے لیڈی ڈاکٹرز نکل کھڑی ہوتیں۔ بڑھاپے سے جن کی آنکھوں کی پتلیاں سفید ہوئی جا رہی ہیں ، لوگ بڑھ کر ان کا ہاتھ تھامتے۔ وہ شمالی وزیرستان سے آیا ہو ا قبائلی گلو کار جو ایک کونے میں بیٹھا گا رہا ہے ’ اے وطن پیار ے وطن پاک وطن‘ ہم اس کی لے میں لے ملاکر ایسے ہی نغمے الاپتے اور اپنی سرزمین کی محبت سے سرشار نو جوانوں کی دل جوئی کرتے تاکہ یہ محبت ہمیشہ کے لئے ان کے وجود کا حصہ بن جاتی۔ ہم وہ سب کچھ کرتے کہ واپس جاتے ہوئے لوگ یہ کہتے ہوئے جاتے کہ اتنی محبت کا قرض ہم کیسے اتاریں گے۔ مگر اس کے آثار کم ہیں۔ مجھے خبر ہے کہ کچھ نوجوان سیدھے ان تباہ حال لوگوں کے پاس جا پہنچے ہیں، کچھ خواتین نے جاکر دہشت زدہ عورتوں کے ہاتھ تھام لئے ہیں، کچھ نے سہمے ہوئے بچّوں کی دیکھ بھال اپنے ذمے لے لی ہے اور کتنے ہی ڈاکٹر اپنی مفت خدمات پیش کر رہے ہیں۔ یہ سب ہونا ہے ۔ ہو کر رہنا ہے۔ یہ نہ ہوا تو کیا ہوگا، دل سوچتے ہوئے بھی ڈرتا ہے۔ ورنہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ یہ کہتے ہوئے واپس جائیں گے کہ ہم تو چلے، اب سنبھالو اپنا وطن۔
تازہ ترین