• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج سے چند سال پہلے کی بات ہے کہ گھروں میں، ہوٹلوں اور سفارت خانوں میں افطار پارٹیاں ہوتی تھیں۔ ان میں اسقدر لوازمات ہوتے تھے کہ کھانے والوں کی نیت اور پیٹ دونوں بھر جاتے تھے ۔ خوب سیر ہوکر کھاتے تھے اور گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔ اب دنیا بھر میں رواج ہی بدل گیا ہے افطاری کے سارے لوازمات بھی ہوتے ہیں۔ اس پر مستزاد، کھانا بھی مختلف اقسام کا موجود ہوتا ہے گھروں میں تو بچا ہواکھانا، کبھی ہمسائیوں اور کبھی غریبوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔ اب گھروں میں بھی یہ بدعت راج کررہی ہے۔ ایک طرف سموسے تلے جارہے ہیں۔ ادھر جلیبیاں نکل رہی ہیں سامنے کی انگیٹھی پر کباب اور تکے بن رہے ہیں۔ دوسری طرف تنورپر نان لگ رہے ہیں۔ چند لوگوں کو یاد ہوتا ہے کہ مغرب کی نماز بھی پڑھنی ہے۔ ہوٹلوں میں تو ایک دن کے بچے ، نئے ملا کر دہی بڑے یا پھر چاٹ چنا اور کھانا بھی یونہی نیا پرانا ملا کر آپ کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے ۔ لوگوں میں یہ فیشن ہوگیا ہے کہ گھر میں کم اور ہوٹلوں میں افطار پارٹی کی جاتی ہے ۔ مینو وہی ہوتا ہے جو میں نے بتایا ہے بات وہی سچ نکلتی ہے کہ ایک دیگ والے نے لکھا ہوا تھا کہ ہمارے قورمے کی روایت مغلوں کے زمانے سے چلی آتی ہے ، کسی نے پوچھا توکہا کہ ہم صدیوں سے بچا ہوا سالن، اگلے دن کے سالن میں ملا دیتے ہیں۔ یہ ہمارا دور، مغلوں کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ نتیجہ کیا ہوتا ہے اسلام آباد کے پمز اسپتال میں گزشتہ ایک ہفتے میں900مریض داخل کیے گئے۔ اس طرح کئی خلیجی ملکوں میں لاکھوں کی مالیت کا کھانا ضائع ہوجاتا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ منظر نہیں ہے ۔ ہمارے یہاں دوچار ڈبہ گاڑیاں، مختلف ہوٹلوں سے بچا ہوا کھانا، اکھٹا کرکے ، غریب بستیوں میں تقسیم کر آئیں تو بہت سے بچے بھوک سے روتے روتے بلک بلک کر نہیں سوجائیں گے۔ ہمارے ہوٹل والوں میں بھی خدا خوفی قسم کی کوئی چیز نہیں ہے۔ البتہ امریکہ میں چند پاکستانیوں نے پک اپ لیکر بچا ہو اکھانا اٹھا کر تقسیم کرنے کی روایت قائم کی ہے۔ جس کے باعث ، بہت سے دیگر ہوٹل بھی اپنا نام بھی بتاکے اور کھانا اٹھا لینے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ لکھتے ہوئے مجھے یاد آیا، ایک دفعہ میں جہاز میں ایک امریکی بزرگ خاتون کے ساتھ بیٹھی تھی کھانا آیا تو میں نے طبیعت کی خرابی کے باعث لینے سے انکار کردیا تھا۔بزرگ خاتون نے مجھے کہا کہ کھانا بے شک مت کھاؤ مگر لے لو، اپنے ڈرائیور،نوکر یا مائی کو دے دینا۔ یہ لوگ توڈسٹ بن میں پھینک دینگے۔ ایسا کبھی مت کیا کرو اب جب جہاز سے اتر کر میں ڈرائیور کو پیکٹ دیتی ہوں تو وہ بے پناہ خوش ہوتا ہے اس طرح ہوٹل سے بچا ہوا کھانا لاکر اپنے نوکر کودیتی ہوں تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی ہے ہم جیسے غریب ملکوں کو کھانا ضائع کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔خلیجی ملکوں میں جو لاکھوں کا کھانا ضائع ہوتا ہے اگر وہی کھانا پیک کرکے ڈبوں میں ہم جیسے ملکوں کے لوگوں کے لئے سستے داموں بیچ دیا جائے توبہت لوگوں کا بھلا ہو ۔ بزنس مین جب ڈبوں کا کھانا فروخت ہوتا دیکھیں گے تو وہ خود بھی اس بزنس میں حصہ لینا پسند کرینگے ۔ جیسے پورے رمضان بنے ہوئے پراٹھے بہت بڑی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں۔ جیسے سارے افغانی بازار کے بنے ہوئے نان کھاتے ہیں، بالکل اس طرح بنے بنائے کھانے ملنے لگیں تو زبیدہ آپا کا چولھا ٹھنڈا ہوجائیگا۔یوں توتمام مساجد اور اسپتالوں میںبہت سے سخی لوگ دستر خوان لگاتے ہیں، اسپتالوں میں مریضوں کے مددگار اور دوسرے بے سہارا لوگوں کو خوراک مل جاتی ہے اور وہ لوگ کھانا بچ جائے توسحری کے لئے محفوظ کرلیتے ہیں۔ بہت سے بڑے گھروںکے کچھ لوگ مل کر روزانہ چاول پکا کر تقسیم کردیتے ہیں۔بھوکوں کا پیٹ بھرجاتا ہے یہی رویہ شادیوں پر بھی اختیار کرنا چاہئے اب آخر کو دبئی میں روازنہ ایک لاکھ افراد کی روزہ کشائی کا اہتمام کیا جاتا ہے میں کئی جگہوں کدال اورٹوکری لئے بہت سے غریبوں کوشام تک بیٹھے دیکھتی ہوں۔ ایسے لوگوں کی مدد کرنے کے لئے سخی لوگوں کا آگے بڑھنا اس لئے ضروری ہے کہ یہ غیرت مند لوگ مانگتے نہیں ہیں ایسے لوگوں کی مدد کرنا توعین ثواب ہے۔صرف اسلام آباد ہی میں 9لاکھ لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ ان کے بچے سارا دن کاغذ چنتے ہیں شام کو وہ بیچ کر جیسی بھی دال روٹی بن سکے وہ لوگ کھا لیتے ہیں۔ ہر چند ڈاکٹر امجد ثاقب کے بقول غربت سے زیادہ مایوسی انسان کو شکست خوردہ بنادیتی ہے ڈاکٹر امجد ثاقب نے اخوت کے نام سے ایک ادارہ بنایا ہو اہے جو کہ بناسود، غریبوں کو قرض دیتا ہے۔ کسی کو ریڑھی خرید کر پھل بیچنے یادال چاول بیچنے یاچھوٹی سی دوکان ڈال کر، اس کو وسیع کرنے کی کوشش۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے امریکہ جاکر ، دوستوں کے ذریعہ اپنا طریق کار بتایا اور نتیجہ کیا نکلا، لوگ جیبوں میں ہاتھ ڈالتے تھے چیک بک ہاتھ آئے توچیک لکھ کر ، نہیں توجتنے ڈالر بھی جیب میں ہوں وہ انہیں خوشی خوشی دیدیا کرتے تھے ۔ وہ مہمان لوگوں سے اور اپنے آپ سے سوال کیا کرتے تھے کہ کیا غربت ہی ہمارے پسماندگی کا سبب ہے امن، انصاف، خوشمالی جب تک یہ تکون نہیں بنےگی اور اس کو چلانا ہمیں ایمانداری سے نہیں آئیگا ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے سارے دفتروں میں چٹائیاں اور موڑھے ملیں گے۔ امجد ثاقب تونیک منصوبوں کے لئے سارے جہان میں جھولی پھیلا کر پیسے اکھٹے کرکے لاتے ہیں ہاں میرے سامنے بعض وہ لوگ بھی ہیںجو مذہب کے نام پر اپنی دوکانداری بڑھاتےاور سیاست کرتے ہیں کیا اس طرح بھی ثواب ملتا ہے یہاں مجھے رابعہ بصری یاد آگئیں وہ لوٹے میں پانی لئےتھیں کسی نے پوچھا کہاں جارہی ہیں آپ بولیں دوزخ کی آگ بجھانے اور جنت میں آگ لگانے کہ لوگ جنت دوزخ میں خود کو تولنے سے باز آجائیں نیکی کریں توکسی بدلے کے لئے نہیں کریں میں توافطار کی محفلوں سے شروع ہوئی تھی اور اب کہاں آگئی ہوں اکھٹے مل بیٹھنا بھی تواچھا لگتا ہے اور تب یاد آتے ہیں آئی ۔ڈی ۔ پیز کہ جنہیں پانی روزہ کھولنے کے لئے مشکل سے دستیاب ہوتا ہے تصویریں اتروانے والے بہت ہیں ۔ میرے عزیز فوجی بچوں کی مشکل آسان ہو یہ دعا کرنے والے کم ہیں۔
تازہ ترین