• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ ہیلو ! میرا نام میثم (Mayssam )ہے ۔ میں فلسطینی ہوں اور غزہ میں رہتی ہوں ۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں ابھی تک زندہ ہوں ۔ میں دہشت گرد نہیں ہوں ۔ مجھے قتل نہ کیا جائے ۔ مجھے موقع دیا جائے کہ میں زندہ رہوں ۔ بائے۔ ‘‘ یہ ایک آٹھ نو سالہ فلسطینی بچی کا ’’ ویڈیو میسج ‘‘ ہے ، جو فیس بک پر چل رہا ہے ۔ اس ویڈیو کو تادم تحریر 105,390 افراد نے ’’ شیئر ‘‘ کیا ہے ۔ 83,347 افراد نے اسے ’’ لائیک ‘‘ کیا ہے جبکہ 4801 افراد نے اس پر تبصرہ کیا ہے ۔ ان میں سے بعض تبصرے ایسے ہیں ، جنہیں پڑھ کر آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہنے لگتے ہیں اور بعض تبصرے ایسے ہیں ، جو ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ فیس بک پر لاکھوں افراد نے معصوم میثم کا ساتھ دیا ہے اور اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ میثم کو زندہ رہنے کا موقع ملنا چاہیے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب لوگ میثم کو قتل ہونے سے بچا سکیں گے کیونکہ فلسطین میں میثم جیسے کئی معصوم بچے روزانہ اسرائیلی طیاروں کی وحشیانہ بمباری کا شکار ہو رہے ہیں ۔ وہ بھی میثم کی طرح دہشت گرد نہیں تھے اور نہیں ہیں ۔ انہیں قتل ہونے سے کوئی بھی نہیں بچا پا رہا ہے ۔
میثم نے اپنے زندہ رہنے کی اپیل اس وقت کی ہے ، جب عالمی سامراج نے نام نہاد ’’ تہذیبوں کے تصادم ‘‘ والا نیو ورلڈ آرڈر دنیا پر نافذ کردیا ہے ، جسے صرف ہر لمحہ خون پلا کر برقرار رکھا جا سکتا ہے ۔ یہ تاریخ انسانی کا شاید پہلا عہد ہے ، جس میں خونریزی کا کوئی جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس عہد کی یہ خصوصیت ہے کہ میثم کو فیس بک پر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کی ہمدردی حاصل ہو گی لیکن میثم پھر بھی تنہا رہے گی ۔ میثم کے زندہ رہنے کی اپیل پر ہمدردی کے ہزاروں تبصروں ( کمنٹس ) میں سے چند تبصرے یہودی باشندوں کے بھی ہیں ۔ انہوں نے تقریباً ایک جیسی بات کی ہے کہ ’’ اسرائیل کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے فلسطینی اپنے بچوں کو استعمال کر رہے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسرائیل کی بمباری سے بچے مر رہے ہیں لیکن شام ، عراق اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی تو بچوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، جہاں اسرائیل کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ غزہ کے شہریوں سمیت مسلم دنیا کے لوگوں کو ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کھڑا ہوجانا چاہیے ، جو اس طرح کی سفاکانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔ ‘‘ ان یہودیوں کی دلیل بھی عجیب ہے ۔ مسلم ممالک میں انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے کیے جانے والے قتل عام کی بنیاد پر کیا اسرائیل کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کا قتل عام کرے ؟ فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم اس وقت سے ہو رہے ہیں ، جب ان تنظیموں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن ان یہودی باشندوں کے تبصروں سے یہ حقیقت بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ میثم تنہا ہے کیونکہ جس اسلامی دنیا سے اسے حمایت ملنے کا امکان ہو سکتا تھا ، وہ دنیا خود تقسیم ہے اور بد ترین خونریزی کے عذاب میں مبتلا ہے ۔ غیر اسلامی دنیا سے میثم کو مدد ملنے کا امکان اس لیے کم ہو گیا ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کے نظریہ نے مظلوم مسلمانوں پر رحم کرنے والوں کوبھی ’’ غیر مہذب ‘‘ قرار دے دیا ہے ۔ میثم معصوم بچی ہے ، اسے یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی ۔ بچے زندگی سے بہت پیار کرتے ہیں۔رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے اسلامی تعاون کی تنظیم ( او آئی سی ) نے بھی اسلامی ممالک میں سرگرم انتہا پسند اور جہادی تنظیموں سے اپیل کی تھی کہ وہ اس مقدس مہینے کے احترام میں جنگ بندی کر لیں اور کوئی کارروائیاں نہ کریں ۔ اس اپیل کے جواب میں ’’دولت اسلامی عراق و شام ‘‘ ( داعش ) اور ’’ بوکو حرام ‘‘ کے رہنماؤں کے بیانات جاری ہوئے ، جن میں کہا گیا کہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ کفر و الحاد کے خلاف جہاد کو تیز کیا جائے ۔ اس معصوم بچی کو علم نہیں ہے کہ یہ پہلا رمضان المبارک ہے ، جس میں اسلامی ممالک کے اندر تاریخ کی بدترین خونریزی ہوئی ہے ۔ انڈونیشیا سے نائجیریا تک اسلامی دنیا کی سرحدوں کی لکیریں خون کے دریاؤں میں تبدیل ہو گئی ہیں اور یہ خون کے دریا اسلامی اور غیر اسلامی دنیا کو تقسیم کرتے ہیں ۔ پاکستان ، افغانستان ، عراق ، شام ، مصر ، لبنان ، یمن ، بحرین ، لیبیا ، انڈونیشیا ، سوڈان ، نائجیریا سمیت بیشتر اسلامی ممالک میں اس مرتبہ رمضان المبارک میں بھی معصوم لوگوں کا قتل عام جاری رہا ہے اور عید کی خوشیاں خون میں ملا دی گئی ہیں ۔ میثم کے لیے یہ بات زیادہ مایوس کن ہے کہ اسلامی ممالک میں جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ نہ تو سامراجیت مخالف ہے اور نہ ہی صہیونیت دشمن ہے ۔ میثم جیسے کئی بچے اور ان کے والدین اس دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ میثم شاید اس وقت دو تین سال کی ہو گی ، جب تہذیبوں کے تصادم کے قابل نفرت نظریہ کا خالق امریکی پروفیسر سیموئل فلپس ہنٹنگٹن 2008ء میں مرا تھا ۔ یہ شاید 1996ء تھا ، جب میں نے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کراچی میں اس کا لیکچر سنا تھا اور اس کی کوریج کی تھی ۔ میں نے ہی اس سے تحریری سوال کیا تھا کہ کیا مغربی سامراجیت اور استعماریت اسلامی ممالک پر ایک اور قہر نافذ کرنا چاہتی ہے ؟ اس پر ان کا جواب میرے سوال کو غلط ثابت کرنے کے لیے تھا ۔ آج میثم کی زندہ رہنے کی اپیل سے مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میرا سوال غلط نہیں تھا ۔ آج ہمیں اسرائیل کے یہودی باشندوں سے یہ بات سننا پڑ رہی ہے کہ صرف فلسطین میں اسرائیلی بمباری سے ہی بچے نہیں مر رہے بلکہ دیگر اسلامی ممالک میں بھی بچوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، جہاں اسرائیل کا عمل دخل نہیں ہے ۔ گویا عالم اسلام پر انتہا پسندوں کو مسلط کرکے اسرائیل اور اس کی سرپرست سامراجی قوتوں کو دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے بلاوجہ کی جنگ مسلط کرنے اور بے گناہوں کا خون بہانے کا جواز پیدا کردیا گیا ہے ۔ اسرائیل کے مظالم پر عالم اسلام کا کمزور ردعمل اس بات کا ثبوت ہے کہ سرد جنگ کے بعد تہذیبوں کے تصادم والے نیو ورلڈ آرڈر نے کیا رنگ دکھا
دیا ہے ۔ عرب اسرائیل تنازع بہت پرانا ہے۔ 1882 ء میں ایک نو آباد کار یہودی کے ہاتھوں پہلے فلسطینی کا قتل ہوا تھا لیکن تاریخ میں فلسطینیوں کے مبنی بر حق موقف کی حمایت اس قدر کمزور نہیں تھی ، جس قدر آج ہے ۔ خاص طور پر مسلم معاشروں میں انتہا پسندی نے سامراج اور استعمار مخالف جوہر کو تقریباً ختم کرکے رکھ دیا ہے ۔ اللہ کرے میثم زندہ رہے اور ہمارے بچے بھی سلامت رہیں۔ آیئے فیس بک پر ہی دوسرے ویڈیو کلپس پر چلتے ہیں ۔ فلسطینی بچوں کے جنازے جا رہے ہیں ۔ جنازے کے جلوس پربھی اسرائیلی طیارے بمباری کرتے ہیں ۔ بمباری کے بعد کا منظر آگ ہے۔شعلے ہیں، دھواں ہے، تباہی ہے، بربادی ہے، آہیں ہیں، چیخیں، دھاڑیں ہیں، سسکیاں ہیں، مگر یہ کون بتائے گا، ارض فلسطین کب تک لہو لہو رہے گی اور باقی اسلامی دنیا کب تک شدت پسندوں، انتہا پسندوں اور دہشت پسندوں کے ستم سہتی رہے گی؟
تازہ ترین