• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اتنا سخت موسم اتنا حبس، تپش ، اوپر سے اللہ ماری بجلی۔ جس پر نہ اعتبار ہے نہ اختیار۔ بجلی کا بل ایک صدمے اور دھماکے سے کم نہیں۔ بجلی اگر ملے تو دکھ نہیں۔ نہ بجلی آئے مگر بل ضرور آئے گا۔ عوام کا یہ نوحہ حکمرانوں کو نظر نہیں آتا۔ بجلی کے چھوٹے وزیر، بڑے عابد اور شیر کی طرح دھاڑتے نظر آتے ہیں۔ ان کی پھرتیاں، آنیاں جانیاں، کسی کے کام کی نہیں، جب بجلی کے معاملہ پر عوام کے مزاج میں تلخی نظر آئی تو بڑے وزیر صاحب کو کہنا پڑا کہ وہ بے بس اور لاچار ہیں۔ اس حبس زدہ سیاسی ماحول میں بارش کی دعا ہی کرسکتے تھے۔ مولا نے ان کی سن لی۔ مینہ بھی خوب برسا۔ مگر زمین اتنی خشک اور تپتی ہوئی ہے کہ لگتا ہے کہ حبس اور تپش اور بڑھ سکتی ہے۔ ہمارے وزیراعظم جناب میاں صاحب نے اس معاملہ پر خصوصی اجلاس بلا بھی لیا۔ چھوٹے وزیر صاحب کی گوشمالی بھی کی۔ مگر اس دھان کے تین پات۔ نتیجہ کچھ بھی نہیں۔ آجکل تمام وزیر ایک ہی راگنی گا رہے ہیں۔ جن کے سرقادری صاحب کو مزید سنگت پر مجبور کر دیتے ہیں اور آتا ہوا انقلاب لفظوں کے جنگل میں کھو جاتا ہے۔ انقلابی دونوں طرف ہیں۔ مگر انقلاب کی منظر کشی ہی عوام کو متاثر نہیں کرسکتی۔ادھر دور درشن ولایت میں ایک اورصاحب ولایت اور مہا گرو ہمارے سابق صدر جناب آصف زرداری گرم موسموں سے دور اپنے شہزادے بلاول زرداری بھٹو کے ساتھ مقیم ہیں۔سرے محل کے معاملات میں حق داروں کی نمائندگی ہوگی تو سرے محل کی فروخت ممکن ہوسکے گی۔ یاد رہے اس سرے محل کے بارے میں ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا کہ کس کی ملکیت ہے۔ مگر فروخت کے بعد اس کی رقم حق داروں کو ضرور مل جائے گی۔ کتنا اچھا قانون ہے ولایت کا۔ جو سرمایہ کو تحفظ دیتا ہے اور سرمایہ دار کو اختیار کہ وہ اپنے اثاثے مقامی ٹیکس ادا کر کے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کے جتنے اثاثے ملک سے باہر ہیں۔ ان کےبارے ہماری سرکار کو سن گن تو ہے مگر ثبوت کوئی نہیں اور جو ادارے اس سلسلہ میں کارروائی کرنے کے مجاز ہیں۔ ان پر ان حالات میں اعتبار کرنا مشکل ہے۔ نیب ایک ایسا ادارہ ہے جو ایسے معاملات پر نظر رکھتا ہے، تفتیش کرتا ہے۔ مگر ابھی تک نیب کے کردار پر بھروسہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔
سابق صدر پاکستان کی بااختیار جماعت جو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد اب حزب اختلاف کی نمائندگی کرتی ہے۔ مسلم لیگ نواز کی اس ہی طرح مدد کررہی ہے جس طرح سے ان کے زمانہ اقتدار میں فرینڈلی اپوزیشن کا رول آج کی حکمران جماعت کررہی تھی۔ یہ ہی اس ہماری دلفریب جمہوریت کا حسن ہے۔ آجکل خورشید شاہ حزب اختلاف کے پردھان ہیں۔ علیحدہ دفتر، اعلیٰ درجہ کا پروٹوکول، مفاہمت کی سیاست، مگر یہ سب کچھ غیر فطری سا لگتا ہے ادھر ولایت میں ہمارے سابق صدر ملکی سیاست کی مکمل نگرانی کررہے ہیں۔ جب بھی خورشید شاہ کچھ ایسا کرتے دکھائی دیتے ہیں جو مفاہمت کی طرف زیادہ ہی نظر آتے ہیں۔ تو جناب زرداری فوراً ایسا بیان داغ دیتے ہیں۔ جس سے جمہوریت کا وقار بلند ہوتا نظر آتا ہے۔ ادھر سر کار چار حلقوں کے بارے اپنے مشیروں اور وزیروں سے بیان دلوا رہی ہے کہ حکومت ایسا کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ ادھر سمندر پار سے جناب زرداری صاحب دھاڑے اور میاں برادران کو باور کرایا۔ چار حلقوں کی گنتی کرا دو۔ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مگر آجکل کے سیاسی دنگل میں یہ وار ہماری سرکار کو قبول نہیں۔ عمران خان کی سیاست اب ریاست کیلئے قابل قبول نہیں۔ کپتان بھی ولایت سےتازہ دم ہو کر آیا ہے۔ وہاں کے فرشتوں نے اس کو حوصلہ اور ہمیت دی ہے۔ وہ سونامی مارچ کو امن مارچ میں بدل رہاہے۔ مگر ملک میں بدامنی ایک امن مارچ سے تو ختم نہیں ہوسکتی۔ امن مارچ سے امن تو کچھ دیر کو ہو جائے گا مگر بعد میں جو مارچ پاسٹ ہوگا وہ کس کو سلامی دے گا اس پر سرکار کی سوئی پھس سی گئی ہے۔ اس پر مدد لینے کے لئے۔ وزیراعظم صاحب بہادر اگلے دن جی ایچ کیو جا پہنچے۔ پاکستان کی جری افواج کے کمانڈر اعلی نے ان کا سواگت کیا۔ وزیراعظم کو حوصلہ اورہمت دلائی مگر گلا ضرور کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف قانونی اور ضابطے کی کارروائی میں سرکار کا کردار کمزور ہے۔ اور ہے بھی۔ اب جبکہ تحفظ پاکستان کا قانون لاگو ہو چکا ہے۔ مگر سرکار کوئی موثر کردار ادا کرتی نظر نہیں آتی۔ دوسری طرف سرکار اگست میں دو ہفتے کی تقریبات کا اعلان کر چکی ہے مگر ان کا کیا طور اور طریقہ ہوگا۔ وہ ابھی تک مخفی ہے ان پر کتنا خرچ ہوگا۔ کیا ان کے لئے میر منشی نے بجٹ میں کوئی رقم رکھی تھی یا حسب سابق خرچ کر کے پھر دکھایا جائے گا کہ کیا کریں اور ان تقریبات میں سیاسی اشرافیہ کا کردار کیا ہوگا اوران تقریبات سے عوام کو کیا ملے گا۔ وہ معلوم کرنا ضروری ہے۔
رمضان میں عبادت عوام کررہی ہے اور سیاست میں ریاست کا الاپ ڈاکٹر قادری کررہے ہیں۔ ان کے انقلابی منصوبے میں مسلم لیگ ق کے چوہدری برادران ہر اول دستہ ہیں۔ ان کے سااتھ اکلوتی سیٹ کے مالک شیخ صاحب فریقین کے لئے مسلسل کام کررہے ہیں مگر انقلاب کا نعرہ ابھی عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کرسکا ہے۔ پنجاب کے خادم اعلیٰ اس رمضان میں دن رات ایک کررہے ہیں۔ مگر امن و امان کے معاملہ پر ان کی پولیس ان کی توقع کے مطابق کام نہیں کررہی۔ انہوں نے پولیس کو اتنی مراعات دیں اس کے باوجود پولیس کا کردار عوام کے لئے پسندیدہ نہیں۔ وہ نوکری کے معاملہ میں شدید تحفظات کا شکار نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف وزیر داخلہ، جو اب دوبارہ پرانی تنخواہ پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا دائرہ اختیار صرف اسلام آباد اور پنڈی تک محدود ہے۔ شمالی وزیرستان کے عوام کی مدد کے لئے ملک کے تمام اداروں نے مدد کی مگر کسی صوبے کی پولیس فورس نے نمائشی طور پربھی کوئی اعلان نہیں کیا۔ اتنی بڑی تعداد کو فقط فوج کے لئے لوگ کتنا عرصہ مدد دیں گے۔ مرکزی سرکار کو ان کے لئے موثر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مرحلہ پر فوج ان گنت معاملات کو دیکھ رہی ہے۔ ایک طرف اندرون ملک دہشت گردی کی جنگ میں فوج حالت جنگ میں ہے۔ دوسری طرف سرکار عوامی انقلاب کے بھوت سے خوف زدہ ہے اور وزیروں کو بے مقصد کی نعرہ بازی پر لگا رکھا ہے۔ میر منشی بڑی خاموشی سے ڈالر کو کنٹرول کررہے ہیں۔ مگر آلو کی قیمت ان کے کنٹرول میں نہیں۔ برا ہو اس سیاست کا جو امیروں کا ڈالر کنٹرول کرلیتا ہے غریبوں کا آلو ان کے اختیار میں نہیں۔
تازہ ترین