• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بین الاقوامی سطح پر دنیا مختلف قسم کی تبدیلیوں کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ایک جانب مشرق وسطیٰ میں سلگتے ہوئے انگارے، بھڑکتی ہوئی آگ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اسرائیل غزہ پر تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلسطینی نوجوانوں کو اغوا کرکے قتل کیا گیا اور جواباً یہودی نوجوان بھی اغوا کیے گئے جس کے بعد اس چنگاری نے شعلہ پکڑ ا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عراق اور شام کی صورتحال بھی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے جو علاقے کے جغرافیہ پر اثر انداز ہوسکتی ہے اور معاشی طور پر بھی اس خطے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ افغانستان کے اندر اشرف غنی نے اقتدار سنبھالا ہے جو جنوبی ایشیاء کے اندر بھی یہ ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ یقینا نظریات کی یہ جنگ یہاں بھی کسی تقسیم پر بھی منتج ہوسکتی ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کی اہمیت بہت زیادہ اہم ہوجاتی ہے کیونکہ پاکستان کے پاس کراچی جیسی بندرگاہ موجود ہے جو مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیاء کے لئے گیٹ وے کا کام دیتی ہے اس کے علاوہ افغانستان کی صورتحال کا پاکستان سے چولی دامن کا معاملہ ہے۔ تو یہ ممکن نہیں کہ اگر کوئی بڑی تبدیلیاں اس خطے میں رونما ہوتی ہیں تو اس کے اثرات پاکستان میں محسوس نہ ہوں۔ پاکستان کے شمال مغربی صوبے میں مسلح افواج حالت جنگ میں ہیں۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طالبان نے علاقہ خالی کردیا ہے اور فوج بچے کھچے طالبان کو ختم کرتے ہوئے اس علاقے کو کلیر کر رہی ہے ۔ یہ صورتحال ایک مشکل مستقبل کا پتہ دے رہی ہے۔
ان حالات پر ایک نظر ڈالتے ہوئے مجھے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا وہ بیان یاد آیا جس میں انہو ں نے کہا کہ یہ سال "Makes & Brakes" کا سال ہے۔ باالفاظِ دیگر یہ کہاجاسکتا ہے کہ دنیا ٹوٹ پھوٹ کے مرحلے سے گزرنے والی ہے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کی تبدیلیوں کے بعد کیا پھر کوئی نئی تبدیلیوں کا طوفان برپا ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ہر انسان کے ذہن میں ہے اور امت مسلمہ کا انتشار اس خوف کو تقویت دے رہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ نقصان زیادہ مسلم ریاستوں کا ہو کیونکہ مسلم ریاستوں میں نسبتاً سیاسی استحکام نظر نہیں آتا۔ پاکستان بھی گو کہ بدستور انتخابی عمل سے گزر رہا ہے لیکن یہاں سیاسی استحکام ناپید ہے۔ ہر طرف انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حکومت بضد ہے کہ وہ ترقی کا انقلاب لائے گی جبکہ حزب مخالف کی جماعتیں مختلف قسم کے مارچ کے ذریعے اسلام آباد میں تبدیلی لا کر قوم کو انقلاب کی نوید سنا رہی ہیں۔ اس جھگڑے میں عوام کے دیرینہ مسائل اب بھی کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں جس میں مہنگائی، امن و امان ،بے روزگاری شامل ہیں جو بنیادی انسانی حقوق میں آتے ہیں لیکن پاکستان کے عوام ان سے محروم ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو بڑے مضبوط نظریات کے حامل انسانوں نے پرکشش نعروں کے ذریعے سیاست میں قدم رنجہ فرمائے اور کسی حد تک کامیاب بھی رہے لیکن وہ نتائج عوام تک پہنچانے میں ناکام رہے۔ 1968ء میں پیپلز پارٹی نے اپنے قیام کے بعد اس منشور کی بنیاد پر جو روٹی ، کپڑا اور مکان کی اساس پر تھا تاریخی کامیابی حاصل کی لیکن آج تک ان کا نعرہ نعرہ ہی رہا اور حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔ مسلم لیگ کا حال تو پوچھئے مت۔ ہر عہد کے آمر نے اپنی مرضی اور پسند کی مسلم لیگ تشکیل دی ۔ جبکہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں مخصوص مذہبی رجحانات کی حامل ہونے کی وجہ سے محدود نظر آتی ہیں۔ وقتی طور پر تبدیلیاں پاکستان میں رونما ہوئیں لیکن نظریات فروغ پانے کے بجائے جمود کا شکار ہو گئے۔ ایسے میں ایک اور سیاسی جماعت جس نے سندھ کے شہری علاقوں سے اپنی سیاست کا آغاز کیا، وہ بھی ایک نظریے کو لے کر سیاست میں داخل ہوئی۔ اس نے اپنی سیاست کی بنیاد اس نکتے کو بنایا کہ معاشر ے میں موجود مسائل کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قیادت عوام میں سے نہ نکلے۔ یہ نعرہ بھی پاکستان کے جمود زدہ معاشرے میں انقلاب سے کم نہ تھا اور اس پھر اس سیاسی جماعت جسے ایم کیو ایم کہتے ہیں، اس نے اپنے حصے کا انقلاب برپا کیا اور عوام سے قیادت نکال کر اسے ایوانوں میں بھیجا جس نے اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں عوام کی خدمت کرکے تبدیلی کا آغاز کیا اور آج پاکستانی سیاست اس فلسفے سے روشناس ہوچکی ہے کہ عوامی نمائندوں کا احتساب ان کے اندازِ حکمرانی کی بنیاد پرنہیں بلکہ ان کی کارکردگی کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ احتساب اس بنیاد پر نہیں ہوگا کہ ان کا تعلق کس سیاسی خانوادے سے ہے بلکہ ان کا احتساب اس بنیاد پر ہوگا کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں۔ اس بنیاد پر وہ انقلاب مخالف قوتیں جو انقلاب کی راہ میں مزاحمت کر تی ہیں، انہوں نے ان کا راستہ روکا اور بہرحال پاکستان کے ایک بڑے حصے میں میڈیا ٹرائل کے ذریعے اس جماعت کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود اس نظرئیے میں کوئی جمود نہیں آیا اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی دی ہوئی سوچ کے فروغ کے لیے ہر سطح پر کوششیں جاری ہیں او ر وہ آج بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک بین الاقوامی جریدے نے جب الطاف حسین سے ایک انٹرویو کیا تو ان سے کیے گئے سوال بھی اسی نوعیت کے تھے کہ آپ کی سوچ اور نظرئیے کے فروغ میں کون سی رکاوٹیں حائل ہیں ،دہشت گردی کے متعلق آپکی پالیسی کیا ہیں ، پنجاب میں ایم کیو ایم کا کرادر آپ کیسا دیکھ رہے ہیں،پاکستان کی سیاست میں تحریک انصاف کا کیا رول ہوسکتا ہے اسکے ساتھ ساتھ نواز حکومت کی کارکردگی سے متعلق ان سے سوالات کئے گئے جنکے انہوں نے تفصیل سے جوابات دیے۔ جوابات کے تناظر میں عالمی جریدہ یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ الطاف حسین کے پاس وہ سوچ اور الفاظ ہیں جن پر پاکستانیوں کو غور کرنا چاہئے اور شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں The Right Man (راست انسان) کے نام سے پکارا گیا۔
یقینا یہ ایک اعزاز کی بات ہے کہ ایک پاکستانی سیاسی رہنما کو بین الاقوامی سطح پر اس طرح تسلیم کیا گیا، سراہا گیا ، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جس سوچ اور نظرئیے کو لے کر انہوں نے سیاست کا آغاز کیا تھا، وہ آج بھی استقامت کے ساتھ اس پر قائم ہیں۔ گو کہ پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے یہ بھی یہ مقام حاصل کیا لیکن یہ کہنے میں عار نہیں کہ بھٹو صاحب کا نظریہ جسے وہ روٹی ، کپڑا اور مکان سے تعبیر کرتے ہیں، آج تک جمود کا شکار ہے۔ نظرئیے کے ماننے والوں کی کوتاہی اس جمود کی وجہ ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ بڑی آلودہ ہے لیکن استقامت کے ساتھ اپنے نظرئیے پر کام کرنے والے سیاسی رہنمائوں کاکال نظر آتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے۔ کہ نظریات کے جمود کو توڑنے کے لیے ، ترقی کی راہ کو تلاش کرنے کے لیے، منفی پروپیگنڈے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں تمام حقائق کا جائزہ لینا ہوگا اور عوام تک پہنچ کر ہمیں اس بات کی کوشش کرنا ہوگی کہ قیادت عوام سے نکلے اور متحد ہو جو وہاں کے مسائل کا ادراک رکھتی ہو اور ان کو حل کرنے میں نیک نیت ہو۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ نظریات کے جمود کو توڑا جائے اور متحرک انداز میں فروغ دے کر امن کی منزل حاصل کی جائے۔
تازہ ترین