• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے عہد کے برگزیدہ صاحب سیف وقلم نے بستر مرگ پر دونوں صاحبزادوں کو طلب کیا اور کہا وقت ہوا چاہتا ہے ملک الموت کی آمد آمد ہے چاہتا ہوں آنکھیں موندنے سے پہلے ترکہ آپ کے حوالے کردوں تکیے کے نیچے سے تیغ آبدار نکالی اور چھوٹے کو تھماکر کہا ہمیشہ حق کے لئے لڑنا فرمانبردار بیٹے نے باپ کے ہاتھ کوبوسہ دیا اور اپنا حصہ لیکر پیچھے ہٹ گیا بڑے کی باری آئی تواسی نصحیت کے ساتھ اپنا قلم عطا کیا۔ رقیق القلب نوجوان لڑکھڑایا ۔ کانپتے ہاتھوں سے قلم باپ کے سینے پر جاگرا اور دست بستہ عرض کی قبلہ گاہی ! میں یہ بوجھ نہ اٹھا سکوں گا تیغ آبدار توآپ نے چھوٹے کو دے دی، مجھے اپنی پرانی زنگ آلود عطا کر دیجئے ۔ میں تلوار سے حق کے بول بالے کا وعدہ کرتا ہوں ، مگر خدارا مجھے قلم کی آزمائش میں نہ ڈالیں ۔
ہماری سوسائٹی سے باہمی احترام اٹھتا جارہا ہے مفادات آڑے آرہے ہیں۔ سو حقیقی اور دل سے کیا جانے والا احترام گھٹتا جارہا ہے اور منافقت کی چڑھت ہے ’’ عزت‘‘ اس کی ہے جس کی کچھ نوئے سینس ویلیوNuisence Valueہے جتنا کوئی کسی کو کاٹ سکتا ہے اتنا ہی محترم ہے نہ جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم فرشتے نہیں انسان ہیں۔اور اس ناتے ضرورت کے بندے بھی ، پتھر وہ اٹھائے جو کبھی راستی سے بھٹکا نہ ہو، دعویٰ وہ کرے جو واقعتاً پارسا ہو ۔ مگر انسانوں کی دنیا میں ناممکن ہے۔ ہماری ضرورتیں اور پیمانے بدلتے رہتے ہیں، ایک لمحہ ہم زمین پر ہوتے ہیں اور دوسرے میں آسمان کو چھونے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں۔ ٹیٹری سے کسی نے پوچھا تھا کہ الٹا کیوں لٹکتی ہو؟ جواب ملا دیکھتے نہیں ہو آسمان کو سنبھالے ہوئے ہوں ورنہ زمین پر آگرے کہیں یہ ٹیٹریوں کا ملک ہی تو نہیں؟ جہاں ہر کوئی بزعم خود آسمان تھامے ہوئے ہے ہر کوئی لیڈر ہے ہر کوئی نجات ہندہ ہے، ہر کوئی ریفارمر ہے، کچھ اور نہیں تودانش ورضرور ہے۔ بال کی کھال اتارنے اور اندیشہ ہائے دوردرازسے خلق خدا کا خون خشک کرنے کا ماہر
مگر جیسے انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، سب دانشور بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ذمہ داری کے احساس تلے دبے اور ناموس قلم کے فہیم ایک ایسے ہی دانشور کی داخلی گھٹن جب بہت بڑھ گئی اور سانس کی آمدورفت بھی دشوار ہوگئی تو ایک اللہ والے کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہرچیزگول گول دکھائی دیتی ہے۔ عمومی سی، بے رنگ سی، خدوخال واضح نہیں ہوتے۔ اک عذاب میں مبتلا ہوں۔ خلجان ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، کیا کروں؟ جواب ملا، تعصب ترک کردو، تاکہ تمہاری آنکھیں اور کان کھل جائیں۔ اور خواہ مخواہ کی مرعوبیت سے آزادی نصیب ہو، یہ ہو گیا تو قلب جاری ہو جائے گا اور حقیقی دانش تمہارے آنگن میں بھی اترنے لگے گی۔ موصوف نے اس پر عمل کیا تو واقعی دھند چھٹنی شروع ہو گئی اور جالے صاف ہونے لگے ۔اور عقدہ کھلا کہ صاحبان علم و عرفان فتوے نہیں دیا کرتے۔ یاس کے پرچارک نہیں ہوتے۔ ہمہ وقت مسائل کی جگالی نہیں کرتے۔ ان کا حل ڈھونڈتے ہیں اور سرنگ کے سرے پر روشنی کی رمق تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ یہ عقدہ بھی کھلا کہ یہ کبھی نہ سمجھو کہ دنیا کو لیڈ کررہا ہوں اور وہ میرے پیچھے آرہی ہے۔ تمہارے پیچھے صرف تمہارا سایہ ہوتا ہے۔ اور بقول شخصے جس نے آپ کو آگے آگے لگایا ہوتا ہے۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ دنیا میں تمہارا کردار ایک کباڑیئے کا ہے۔ تم اشیاء کو مختلف انداز میں ترتیب تو دے سکتے ہو۔ ’’تخلیق ہرگز نہیں کرسکتے۔ وہ کسی اور کی ڈومین ہے۔ ہم لکھاری بھی تخلیق کا دعویٰ کر کے جھک ما رہے ہوتے ہیں۔ ہمیشہ سے ایک ہی بات کو بیان کا انداز بدل بدل کر کہے جا رہے ہیں اور تخلیق کے فریب میںمبتلا ہیں۔ لاحول ولاقوۃ۔ یہ راز بھی فاش ہوا کہ جب ارد گرد کے لوگ بونے دکھائے دینے لگیں تو فکر لاحق ہونا چاہئے کیونکہ لوگوں کے قد چھوٹے نہیں ہوئے۔ آپ کے اندر کا بونا انگڑائی لے رہا ہے۔ نیز یہ کہ قدرت نے عقل سب کو دی ہے مگر عقل کل کسی کو نہیں بنایا ۔ ایسا بیہودہ دعویٰ کرنے والا فی الحقیقت اپنی حماقت کا اعلان کر رہا ہوتا ہے۔کام اہل علم کا بھی سخت ہے مگر اصل امتحان میں ڈالے جانے والے اہل حکم ہوتے ہیں۔ بے شک حکمرانی بڑے جگر گردے کا کام ہے اور بقائمی ہوش و حواس اور برضا و رغبت اسے قبول کر لینے والوں کے حوصلے کی داد دینا پڑتی ہے۔ یقیناً انہیں اللہ کے اس برگزیدہ بندے کا احوال یاد نہیں رہتا۔ جس نے حاکم مقرر کئے جانے پر مصاحب کی مبارکباد کے جواب میں بہ چشم نم کہا تھا۔ مبارک کس بات کی ؟
میرے ساتھ ہمدردی کرو اور دعا کرو کہ اس آزمائش سے سرخرو ہو سکوں۔اب تک اپنی نیند سوتا تھا اور من چاہا کرتا تھا۔ آج کے بعد کچھ بھی میرا ذاتی نہیں رہا۔ خلق خدا کی امانت ٹھہرا۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ موصوف نے واقعی اپنا سب کچھ اللہ کی مخلوق پر قربان کردیا اور کچھ عرصے بعد سبکدوش ہو کر سرکاری ٹھکانے سے نکلا، تو سر چھپانے کیلئے کٹیا تک نہ تھی۔ مگر آج کے حکمران سیانے ہو گئے ہیں۔ اب بھی دن ان کے ہیں اور راتیں بھی انکی ہیں اور نیندیں بھی انکی اور خواب بھی ان کے۔ اقتدار کے بعد انہیں سر چھپانے کا اندیشہ نہیں ہوتا ۔ میلوں پر محیط ناقابل تسخیر محلات انکی پیشوائی کیلئے بیقرار ہوتے ہیں۔ باالفرض اگر وطن کی زمین تنگ بھی پڑ جائے تو یہ سب کچھ باہر بھی تو مہیا ہے۔ سونے چاندی کے انبار جمع کرنے والے۔ دنیا بھر میں بیش قیمت محلات، جائیدادوں اور کاروباروں کے مالک بھول جاتے ہیں کہ انجام کار تو محض دو گز زمین ہی نصیب ہونا ہے اور وہ بھی نصیبے سے، اور جن کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہو، انہیں تو دو نسلوں کے بعد آپ کا نام بھی یاد نہیں رہے گا۔ اور جن کے بارے میں کھڑی شریف میں آسودہ میاں محمد بخش ڈیڑھ صدی پہلے فرما گئے تھے۔
جنہاں دی خاطر پاپ کی ویں، کتھے نیں تیرے گھردے
پیر پسار پیا ایں وچ ویہڑے ،کڈھو کڈھو پئے کر دے
یعنی جن کی خاطر ساری زندگی پاپ کماتے رہے، آج وہ تمہارے گھر والے کہاں ہیں؟ ان کا طرز عمل کیا ہے ؟تمہاری میت صحن میں پڑی ہے اور وہ اس کوشش میں ہیں کہ جس قدر جلدی ہو سکے اسے نکال باہر کیا جائے۔ یہ تو خیر آخرت کی بات ہے، دنیا میں بھی جب ان کی پکڑ ہوتی ہے تو خواہشات زمین سے جالگتی ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جیل میں بند ایک بڑے لیڈر کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ کوٹھری کی روشنی کم کردی جائے، کیونکہ انکے حواس کو متاثر کر رہی ہے۔ اور اسی مقام و مرتبے کے ایک دوسرے شخص نے التجا کی تھی کہ سیل کی روشنی کچھ بڑھا دی جائے کیونکہ رات دن کی تمیز بھی نہیں ہو پا رہی ۔
بیاسی ملین کے فراڈ میں گرفتار شخص کی بے بسی ملاحظہ ہو کہ سرکاری اہل کاروں سے بال ڈائی کروانے اور شیو بنوانے کی فرمائش کر رہا تھا،کیونکہ اپنی جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی ۔یقیناً یہ مقام عبرت ہے،مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں عبرت پکڑنے کا کوئی رواج نہیں۔ اسی لئے تو خبریں نکل رہی ہیں کہ ہماری اس نام نہاد اشرافیہ کے دو سو بلین ڈالر دساور کے بنکوں میں جمع ہیں۔ قومی خزانہ سے لوٹی گئی یہ رقم اتنی بڑی ہے کہ آدھی بھی اس مظلوم قوم کو مل جائے، تو سارے دلدر دور جائیں۔
تازہ ترین