• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ارض فلسطین ایک بار پھر لہو لہو ہے، شہادتوں کی تعداد پانچ سو سے بڑھ گئی ہے اور اپنے کم سن بچوں کے لاشے اٹھا اٹھا کر نہتے، مظلوم فلسطینی ماں باپ تھک گئے ہیں۔ صرف اتوار کے روز ایک سو افراد شہید ہوئے جن میں سے اکثر کی لاشیں اٹھانے والا کوئی نہیں، بیشتر کی لاشیں سڑکوں پر بے گور و کفن پڑی ہیں۔
امریکہ حسب عادت اسرائیل کا پشتی بان ہے، یورپ مہربان اور عالم عرب و عالم اسلام گونگا شیطان، مذمتی بیانات بھی محتاط انداز میں دیئے گئے البتہ ترکی کے رجب طیب اردگان کا احتجاج زور دار تھا عملی اقدام مگر اب تک ترکی نے بھی نہیں کیا۔ ایران فلسطینیوں کے حق میں ہمیشہ شمشیر برہنہ رہا اور حزب اللہ بھی۔ مگر ان دنوں اس محاذ پر بھی خاموشی چھائی ہے۔ وجہ کیا ہے؟ شام میں خانہ جنگی، امریکہ و یورپ سے مذاکرات یا حماس سے ناراضگی؟ واللہ اعلم بالصواب۔
برطانیہ اور فرانس نے مل کر فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ بنایا تو پورا عالم اسلام تڑپ اٹھا۔ قائداعظمؒ نے رائٹر سے انٹرویو میں کہا ’’مجھے اب بھی امید ہے کہ فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا ورنہ ایک خوفناک ترین اور بے مثال چپقلش شروع ہونا ناگزیر ہے۔ یہ چپقلش صرف عربوں اور تقسیم کا منصوبہ پیش کرنے والوں کے درمیان نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا اس کے خلاف عملی طور پر بغاوت کرے گی کیونکہ اس فیصلے کی حمائت تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی ہے نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر‘‘
جب تک عالم اسلام اور عالم عرب نے اسرائیل کو امریکہ و یورپ کا ناجائز بچہ اور شرق اوسط کا ناسور سمجھا صہیونی ریاست لرزہ براندام رہی اور وہ مختلف مسلم ممالک کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہش مند تاکہ اس کا وجود برقرار رہے مگر جب عربوں اور فلسطینیوں نے امریکہ کے دبائو اور اپنی کمزوریوں کی بناء پر اسے ایک حقیقت سمجھ کر ذہنی و فکری پسپائی اختیار کی اسرائیل مشرق اوسط کے جنگل کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔
اگر دو درجن عرب اور تین ساڑھے تین درجن مسلم عجم ممالک کے ڈیڑھ ارب عوام مل کر پھونک ماریں تو مشرق وسطیٰ کے نقشے پر موجود کھجور کی گٹھلی کے برابر یہ غاصب صہیونی ریاست ہوا میں تحلیل ہو جائے۔ وہ نہ تو امریکہ ہے جس کی سائنس و ٹیکنالوجی کی ہیبت اور جنگی مشینری کی وسعت سے عرب و عجم مرعوب ہیں نہ چین کہ جس کی افرادی قوت کے سیلاب کے سامنے وہ اپنے آپ کو خس و خاشاک محسوس کریں مگر مسلمان فجر صادق ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ’’دہن‘‘ کا شکار ہیں زندگی سے پیار اور موت سے فرار کی عادت نے انہیں بزدل اور ذرہ بے مایہ بنا دیا ہے اور مخالفین و دشمن اس پر یوں ٹوٹ پڑے ہیں جیسے شہد کے پیالے پر مکھیاں۔
عقابوں سے کھیلنے اور اپنے آبائواجداد کی شجاعت و مردانگی کے قصیدے پڑھنے والے عربوں کی قیادت ممولوں اور میمنوں کے ہاتھ میں ہے جو ممیانے کے لئے بھی امریکہ کی طرف دیکھتے اور اذن کلام طلب کرتے ہیں جبکہ بھیڑیں چرانے والی قوم بنی اسرائیل کو ڈیوڈبن گوریان، گولڈامیئر، اضحاک رابن، ایہود بارک، ایرن شیرون اور بنیا من نیتن یاہو ملے جنہیں امریکی ہاتھی نے بھیڑیا بنا دیا اور ان دنوں یہ بھیڑیا فلسطینی بچوں اور خواتین کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہا ہے۔
عربی اور عجمی مسلمان ہمیشہ سے ایسے بے حس، خود غرض، سنگدل اور بے حمیت تھے نہ ان کے حکمران۔ قیام پاکستان سے قبل اور بعد نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر فکری، روحانی اور سیاسی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے اور مولانا ظفر علی خان کے اس شعر کی مانند ؎
اخوات اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو دہلی کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
مگر پھر افریقہ، مشرق بعید اور مشرقی یورپ میں جبر و استبداد کا مقابلہ کرنے والے گوریلوں، عسکریت پسندوں اور کامریڈیوں کی جرأت و دیوی کے قصیدے پڑھنے والوں نے اچانک یہ راگ الاپنا شروع کیا کہ ؎
اند خراب حال کہ زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کو بھی عقیدے، نظریئے، اصول، ضابطے اور انسانیت کے اعلیٰ و ارفع جذبوں کو پس پشت ڈال کر ہر معاملے کو دوسروں کا داخلی معاملہ قرار دینے اور خود لاتعلق ہو کر بیٹھ جانے کی عادت پڑ گئی کشمیر بھارت کا چیچنیا روس کا، رونگہیا برما کا، پاکستان کے وفادار سرفروش بنگلہ دیش کا اخوان مصر کا اور فلسطین اسرائیل کا داخلی معاملہ قرار پائے اس بنا پر اسرائیل کے نازیوں سے بڑھ کر مظالم پر عرب لیگ، او آئی سی اور دیگر مسلم تنظیمیں مہر بلب ہیں اور حکمران، دانشور گونگے شیطان بنے بیٹھے ہیں۔
حیرت شام، عراق، یمن اور دیگر مسلم ممالک میں احیائے خلافت کی علمبردارجذبہ جہاد سے سرشار تنظیموں پر ہے کہ وہ بھی ابوبکر البغدادی کی قیادت میں بشار الاسد، نوری المالکی اور دیگر ظالم، عافیت اور غیروں کی آلہ کار قیادت کے خلاف تو سینہ سپر ہیں مگر غزہ میں وحشیانہ بمباری پر ان کا دل پسیجا ہے نہ انہوں نے اپنے سرفروشوں کو اسرائیل کے خلاف جہاد کا حکم دیا ہے البتہ مزارات و مقابر پر مشق ستم جاری ہے اور اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کی سرکوبی تقاضائے ایمان۔
اقبالؒ نے ’’فلسطینی عرب سے‘‘ کہا تھا ؎
زمانہ اب نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
موذی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
مگر اسرائیل کی اس سرکشی، دیدہ دلیری، وحشت و درندگی کے علاوہ امریکہ رپورٹ عالم عرب و عجم کی بے حسی و خود غرضی نوجوانوں کو کسی اور طرف مائل کر رہی ہے، ہر طرف میں مایوسی، بے چینی اور بدلہ لینے کی امنگ ہی مسلم نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی طرف دھکیلتی اور اپنے جسموں سے بم باندھ کر اسرائیل کی گلیوں بازاروں میں، اپنی بہنوں، بیٹیوں اور بھائیوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ترغیب دیتی ہے اور امریکہ و یورپ تو شائد یہی چاہتے ہوں کہ مسلم نوجوان جنرل عبدالفتاح السیسی اور دیگر آلہ کار جرنیلوں کے ہاتھوں تختہ دار پر چڑھیں یا بم باندھ کر موت کو لبیک کہیں دونوں صورتوں میں امہ کی رگیں نئے خون سے خالی ہوں گی مگر کیا ہم اور ہمارے حکمرانوں کی خواہش بھی یہی ہے؟ ورنہ عالم اسلام میں قبرستان کی خاموشی اور سنگدلانہ خود غرضی کا راج نہ ہوتا۔ مگر مایوسی کی کوئی بات نہیں فلسطین، کشمیر، عراق، افغانستان، چیچنیا اور مصر جذبہ مزاحمت برقرار ہے اور جوش جہاد فزوں تر ؎
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
تازہ ترین