• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بات ایسی تو ہرگز نہیں تھی کہ خود بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو وضاحتیں پیش کرنے کیلئے میدان میں آنا پڑتا۔ معاملہ اتنا گمبھیر ‘ پیچیدہ اور حساس بھی نہ تھا کہ اپوزیشن کی جماعتیں ایکا کر لیتیں‘ پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کی جاتی‘ کارروائی روک دی جاتی‘ پاکستان کا دورہ کرنے والے بھارتی صحافی وید پرتاپ ویدک کی گرفتاری کے مطالبے کئے جاتے۔۔ اور اُنکے دوست اور سیاسی رفقاء اُنکے عمل سے لاتعلقی کا اعلان کر دیتے۔ نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط کو چارو ناچار بھارتی میڈیا کے سامنے وہ حقائق پیش کرنے پڑے جنہیں تسلیم کرنے سے بھارتی اپوزیشن اور خاصی حد تک میڈیا پہلے سے ہی انکاری تھا اور پھر جس انداز سے ردعمل سامنے آیا‘ جس لب و لہجے میں وضاحتیں طلب کی گئیں اور جو الزامات لگائے گئے اس سے تو واقعی کبھی کبھی یہ گمان گزرتا ہے کہ:
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
وگرنہ محض اپنی اپنی خواہش‘ مرضی اور خوشدلی سے ملنے والے دو ’’عاقل و بالغ افراد‘‘ کی باہمی ملاقات پر رَسمی انداز سے پسندیدگی نہیں‘ تو پھر ناپسندیدگی کا اظہار تو کیا جا سکتا تھا‘ تحفظات اور خدشات بھی ظاہر کئے جا سکتے تھے لیکن بات گرفتاری کے مطالبے تک آن پہنچے گی۔۔‘ یہ ناقابل فہم ہے۔قصہ کچھ یوں ہے کہ جون کے آخری ہفتے میں بھارتی صحافیوں اور سیاستدانوں کا ایک 12رُکنی وفد پاکستان کے دورے پر لاہور اور اسلام آباد آیا۔ اس دورے کا اہتمام ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ نے کیا تھا جس میں سابق وزیر خارجہ صاحبزادہ خورشید محمود قصوری کا کردار خاصا اہم ہے۔ اس وفد میں بھارتی صحافت اور سیاست کے کئی اہم نام شامل تھے جنہوں نے اپنے منتظمین کے طے کردہ پروگرام جن میں سیمینار‘ مکالمے کی نشستیں کیں اور دونوں ملکوں کے درمیان برسوں پر محیط تنازعات کو حل کرنے کیلئے گفتگو کا ماحول بنانے پر بات چیت ہوئی۔ اس وفد میں بھارت کے معروف صحافی وید پرتاپ ویدک بھی شامل تھے۔ اُن کا شمار مقبول تجزیہ نگار اور دانشوروں میں ہوتا ہے۔ جواہر لال یونیورسٹی سے فارغ التحصیل پرتاپ ویدک متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور اُنکی صحافتی خدمات پر اُنہیں کئی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔ 45سال تک عملی صحافت میں معرکہ آرائی کرنے والے 70سالہ وید پرتاپ ویدک پاکستان آئے تو اُنکے ’’اندر کے صحافی‘‘ نے اُنہیں ایک بار پھر کسی نئے معرکے کیلئے اُکسایا اور اُنہوں نے پاکستانی تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید سے ملاقات کی ٹھانی۔۔ اور اس میں کامیاب بھی ہو گئے۔ لاہور میں 2جولائی کو ہونے والی اس ملاقات کی تصدیق خود وید پرتاپ ویدک نے کی‘ لیکن یہ ملاقات کہاں ہوئی؟؟ کتنی دیر تک جاری رہی؟؟ اور اس میں کن اُمور پر بات چیت ہوئی؟؟ ظاہر ہے کہ دونوں فریقین اس بات چیت کو مخفی رکھنے یا پھر موزوں وقت پر لانے کا استحقاق رکھتے ہیں‘ لیکن یہ بات بڑے یقین اور دعوے سے کی جا سکتی ہے کہ دونوں شخصیات نے اپنے اپنے ملک کیخلاف کوئی بات ہرگز نہیں کی ہو گی اور یہ بھی۔۔ کہ نہ صرف کی نہیں ہو گی بلکہ سنی بھی نہیں ہو گی‘ لیکن جیسے ہی اس ملاقات کی خبر بھارت پہنچی تو گویا جیسے بھونچال آ گیا۔ بھارتی پارلیمنٹ کے جاری اجلاس میں اپوزیشن کے ارکان نے وہ ہاہاکار مچائی کہ اُنہیں خاموش کرانے کیلئے وزیر خارجہ سشما سوراج کو یہ یقین دہانی کرانی پڑی کہ وہ ’’اس سارے معاملے کے بارے میں اسلام آباد میں اپنے ہائی کمیشن سے رپورٹ طلب کریں گی جسے ایوان میں پیش کیا جائیگا‘‘۔ مطالبوں اور احتجاج کا سلسلہ تھما ضرور لیکن ختم نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ بھارتی حکومت جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو بھارت مخالف سرگرمیوں میں اہم کردار سمجھتی ہے اور 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری بھی انہیں پر عائد کرتے ہوئے اُنہیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیتی ہے۔ بھارت میں اپوزیشن کے حلقے بھارتی صحافی کی اُن سے ملاقات کو اسی باعث برہمی سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کی وزارت خارجہ نے اس ملاقات کے حوالے سے قطعی طور پر لاعلمی اور لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور اس ضمن میں اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن نے اپنی وزارت خارجہ کو جو رپورٹ بھیجی ہے اس میں یہ واضح کر دیا ہے کہ ہائی کمیشن اس ملاقات اور ملاقات سے متعلق تمام معاملات سے قطعی طور پر لاعلم ہے اور کسی بھی سطح پر اس ضمن میں ہائی کمیشن کو اعتماد میں نہیں لیاگیا۔
2جولائی کو لاہور میں حافظ سعید اور وید پرتاپ ویدک کے درمیان جو ملاقات ہوئی اس کی ایک تصویر بھی جاری ہوئی ہے جو بعض غیرملکی خبررساں ایجنسیوں نے جاری کی ہے‘ اور سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ تصویر میں بھارتی صحافی وید پرتاپ ویدک کرتا، پائجامہ اور سرخ رنگ کی واسکٹ پہنے خوشگوار موڈ میں حافظ سعید سے محو گفتگو ہیں۔ جبکہ حافظ سعید اپنے مخصوص لباس سفید شلوار قمیض میں ملبوس اور سفید ٹوپی پہنے ہوئے ہیں۔ اس ملاقات کی تصویر کشی اور پھر اسکے منظر عام پر آنے سے ایک بات تو بڑی واضح ہوتی ہے کہ دونوں ہی شخصیات اپنی اس ملاقات کو مخفی نہیں رکھنا چاہتی تھیں اور نہ ہی وہ اس ملاقات کو غیرمناسب سمجھتے تھے۔ وگرنہ نہ تو تصویر بنتی اور نہ ہی منظر عام پر آتی۔ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ مذکورہ بھارتی صحافی نے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے بھی ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن پاکستان کی وزارت خارجہ نے یہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہ غیرسرکاری حیثیت رکھنے والے کسی شہری کی وزیراعظم سے ملاقات کا اہتمام وزارت خارجہ کی ذمہ داریوں کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ وزارت خارجہ صرف سرکاری ملاقاتوں کے حوالے سے کی جانے والی درخواستوں پر ہی غور کرتی ہے۔ اس درخواست پر معذرت کر لی تھی۔ تاہم بعض باخبر ہونے کے دعویدار حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارتی صحافی وید پرتاپ ویدک کی ملاقات وزیراعظم سے ہوئی تھی۔ اس حوالے سے وہ رابطہ کار کے ضمن میں وزیراعظم ہائوس کے ایک ایڈیشنل سیکرٹری کا نام بھی لیتے ہیں جو ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ سے بھی وابستہ ہیں تاہم اس ملاقات کے بارے میں کوئی تصدیق نہیں ہوسکی۔ بھارت میں اپوزیشن کے بعض سیاست دانوں کا ماننا یہ ہے کہ حافظ سعید اور وید پرتاپ ویدک کی ملاقات اچانک نہیں۔۔ بلکہ ایک انتظام و اہتمام کے ساتھ کرائی گئی ہے جس میں دونوں حکومتوں کی رضامندی شامل تھی۔ پھر اس ضمن میں یوگا کے بین الاقوامی شہرت یافتہ بابا رام دیو کا بھی ذکر ہو رہا ہے جس کی وید پرتاپ ویدک سے بھی دوستی ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے بھی پرانی وابستگی۔پاکستان آنے والے 12رُکنی وفد میں شامل ایک اور صحافی آکر پٹیل نے بھی بھارت واپسی پر اپنے ایک انٹرویو اور کالم میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’اگر مجھےاس بات کی تصدیق نہ ہوتی کہ وید پرتاپ کی پاکستانی پردھان منتری شری نواز شریف سے ملاقات ہوئی ہے تو پھر میں بھی بعض دوسرے لوگوں کی طرح یہی سمجھتا کہ ویدپرتاپ ویدک نے اپنے عمر کے اس حصے میں محض لوگوں کی توجہ اور پبلسٹی حاصل کرنے کیلئے حافظ سعید سے ملاقات کی‘ لیکن اب میرے خیالات اُن لوگوں سے ملتے جلتے ہیں جو اس ملاقات کو ایک انتظام کے تحت ہونے والا رابطہ قرار دے رہے ہیں‘‘۔
مفروضے کی بنیاد پر اگر تھوڑی دیر کیلئے اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وید پرتاپ ویدک اور حافظ سعید کی ملاقات ایک طے شدہ انتظام کے تحت ہوئی تھی اور یہ بیک چینل‘ ٹریک ٹو یا بیک ڈور ڈپلومیسی کا ایک حصہ تھی۔۔ اور اس بات پر بھی یقین کر لیا جائے کہ بھارتی صحافی نے پاکستانی وزیراعظم سے بھی ملاقات کی تھی تو اس میں طوفان آنے والی کون سی بات ہے؟ دونوں ملکوں میں نئی حکومتوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ تعلقات کو معمول پر لا کر ایسے اقدامات کرینگے کہ دیرینہ تنازعات پر اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے اُنہیں حل کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھی جائیں گی۔۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ تجارت اور دونوں طرف کے عوام کو آسانیاں‘ سہولتیں اور مراعات فراہم کرنے کیلئے بھی فوری نوعیت کے اقدامات کئے جائیں گے۔ اگر بھارت میں حافظ سعید کو ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ اور بھارت کا دشمن نمبر ون سمجھا جاتا ہے اور بھارت کا ایک معتبر صحافی اُن سے ملاقات میں اپنی حکومت اور قوم کا نکتہ نظر پیش کرتا ہے تو اس اقدام کی تو توصیف کرنی چاہئے۔ اگر وہ اُنہیں اپنے ملک اور حکومت کے بارے میں جارحانہ طرز عمل کو دھیما کرنے کیلئے دلیل پیش کرتا ہے اور قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے (اور یقیناً ایسا ہی ہوا ہو گا) تو پھر تو بھارتی سیاست دانوں کو خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اُنکے اس اقدام کی ستائش کرنی چاہئے‘ نہ کہ ایسا سلوک جس سے یہ محسوس ہو کہ بھارتی صحافی۔۔ حافظ سعید کے ساتھ مل کر اُنکے ہم خیال ہو رہے ہیں۔
تازہ ترین