• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علی جعفر زیدی سے کہا گیا ’’پاکستان میں مذہبی شدت پسندی نے سیاست اور سماج کے ارتقاء کو واپس لوٹا دیا۔ مایوسی کا بحران سیاہ بادلوں کی صورت اختیار کر چکا ہے، ان کی اوٹ سے مستقبل قریب تو دور کی بات ہے مستقبل بعید میں بھی پاکستان ایک نارمل لبرل ملک کے قالب میں ڈھلتا دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
علی جعفر زیدی نے مجلس میں اٹھائے گئے اس حساس سوال کا جواب دیا۔ ان کا بیانیہ کچھ اس طرح کا تھا ’’آپ پاکستان کو زیادہ تر صرف پاکستان میں بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ وطن کی چار دیواری سے باہر نکلیں، پاکستان کو بھی اپنے خود ساختہ ISOLATEDتصور سے خارج کر کے دیکھنے کی عادت ڈالیں، یہ ملک عالمی نقشے اور عالمی برادری میں قطعی ISOLATIONکی فہرست میں نہیں لایا جا سکتا۔ شاید پوری دنیا میں اسے سب سے زیادہ FOXکیا جا رہا ہے۔ ایران، چین، امریکہ، بھارت اور برطانیہ تو اپنے ساختیاتی منصوبوں اور تقاضوں کے دائرے میں ایک نارمل پاکستان کے بغیر اپنے لئے کسی دوسری راہ کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتے۔ آپ اپنے وطن کو اس تناظر میں رکھنا شروع کریں، ایک ہی نتیجہ آپ کے سامنے آئے گا، پاکستان کا نارمل لبرل ملک ہونا اس کے وجود کے لئے ہی نہیں پورے عالم کی سلامتی کا ناگزیر تقاضا ہے۔ ہمیں اپنے نقطہ نظر اور کینوس کے لئے کلی تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘‘
ذرا رکئے، علی جعفر زیدی کے بارے میں آپ کو یاد دہانی کرا دی جائے۔ یہ ان میں سے ہیں جو ضیاء الحق کی آمد کے بعد اپنے ملک سے ہجرت کے فراق میں مبتلا ہوئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے حامی، ذوالفقار علی بھٹو کے پرستار، دونوں کے قیام اور آمد کے بعد طارق خورشید، علی جعفر زیدی، افضل توصیف، ہمراز احسن، شاید فرخندہ بخاری بھی، ایسے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں تھے، ہجرت کا نوحہ پڑھتے رہے۔ طارق خورشید، افضل توصیف اور فرخندہ بخاری نے، بالآخر اپنی اپنی شب فراق کے اختتام پر اپنے اپنے سیاسی سفر کی داستانیں لکھیں، داستانیں کیا ہیں خوابوں کے چکنا چور ہونے،امیدوں کے ٹوٹنے اور یاس کے سایوں کی داستانیں ہیں۔ پڑھتے جایئے، حسرتوں اور آہوں کا ترازو ہاتھ میں رکھیں، غالباً آنسووئوں کی مقدار کا اندازہ نہ لگ سکے گا۔ طارق خورشید اور افضل توصیف کی کہانیاں مشہور لیبیا سازش کیس کے اردگرد شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہوتی ہیں۔ لیبیا سازش کیس پر طارق خورشید کی سیاسی سوانح کا انتخاب پڑھ کر آج بھی میرے دل کے دروازے غم کے شدید جھکڑوں میں باہم بے طرح ٹکرانے لگتے ہیں!
طارق خورشید نے اپنے سیاسی سفر کے دورانیئے میں لیبیا سازش کیس کے کتابی نام ’’سوئے دار....کیا میں دہشت گرد تھا؟‘‘ رکھا جس کا انتساب یہ ہے ’’اپنی تین نسلوں یعنی اپنے والد خورشید احمد ملک، بیوی ثمرینہ طارق، بیٹے عمر طارق کے نام جن میں سے ایک کا بڑھاپا، دوسرے کی جوانی اور تیسرے کا بچپن میرے نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا۔‘‘ جب بھی کسی فکری ضرورت کے لئے ان کی کتاب اٹھاتا اور یہ انتساب دیکھتا ہوں، پھانسی کا رسہ مجھ سے اپنے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے، آواز ابھرتی ہے ’’جب تک میری بے گور و کفن لاش کو انصاف کی چادر میں لپیٹ کر تاریخ کی تہمت سے خارج نہیں کرائو گے تم سب میرے مقروض ہو‘‘، اب کیا کریں، ایک طارق خورشید کی تین نسلیں نہیں بیسیوں تین نسلیں آزادی افکار و عمل کے قیام اور نمود کے جہان نو پر قربان ہو گئیں، ایسے بیسیوں نوحہ گروں کے مرثیے میرے قلم کی طاقت سے باہر ہیں، آپ کو یاد دہانی یہی کرانی ہے، علی جعفر زیدی بھی ضیاء الحق کی آمد کے بعد اسی لیبیا کیس کے ایسے ہی مہاجروں میں سے ہیں جنہیں ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار کو سرفراز کرنے کے بعد اپنے دیس سے ترک سکونت کرنا پڑی، یہ بھی غالباً اس دور میں اپنے دیس کی فضائوں کو مہاجر پرندے کے طور پر خیر باد کہہ گئے، اور جا لندن ٹھکانہ کیا۔ طارق نے اپنی کتاب میں، اپنے دور ابتلاء کے دوران میں ساتھ دینے والے بہت سے دوستوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ضیاء کھوکھر، حسن نثار، ارشاد حقانی، صفدر ہمدانی سمیت متعدد نام شامل ہیں۔ علی جعفر زیدی حالانکہ خود ’’مہاجر‘‘ بن چکے تھے، عجب بات ہے اس کے باوجود وہ اپنے اس اسیر دوست کے شکریئے کی فہرست دلداراں میں بدرجہ اتم شامل ہیں۔ مثلاً ایک جگہ طارق لکھتے ہیں:
’’انہوں (مراد مختلف وکلاء اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سے ہے) نے ہماری رہائی کے لئے جو کوششیں کیں اور ان کو متحرک کرنے میں میرے چچا ارشاد احمد ملک، دوستوں میں صفدر ہمدانی، سردار مظہر، علی جعفر زیدی نے جو کردار ادا کیا اس کے لئے ان کا مشکور ہوں۔‘‘ ایک اور جگہ بھی انہوں نے علی جعفر زیدی کو یاد کرتے ہوئے لکھا ’’جیل میں کتابوں کا سہارا قید تنہائی کی شدت میں کمی کر دیتا ہے، اس لئے جب بھی کسی دوست کی طرف سے کوئی چیز بھیجنے کی دعوت ملتی ہم اسے کتابیں بھجوانے کو کہتے۔ لندن میں میرے مرحوم چچا ارشاد احمد ملک اور دوست صفدر ہمدانی، جاوید اقبال، آصف زیدی، علی جعفر زیدی، قیوم بٹ اور سرور باری موجود تھے اور کیس کے ساتھی سردار مظہر، فرخندہ بخاری، کنیز یوسف اور عثمان خالد بھی وہیں تھے۔ یہ بھی ایک وجہ تھی لندن سے مضبوط رابطے کی۔ ان میں سے بھی جب کوئی کچھ بھجوانے کا ذکر کرتا تو میں کتابیں بھیجنے کو کہتا۔‘‘
بات علی جعفر زیدی سے اِدھر اُدھر ہو رہی ہے۔ یہ ’’اِدھر اُدھر‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ ہے جسے پاکستان میں عظیم ترین سیاسی تہذیب (تمام تر خامیوں کے باوجود) کا عنوان دیا جا سکتا ہے، یہ تہذیب آج بھی پاکستان کی بقاء کے میدان کارزار میں جدوجہد کا واحد مرکزی استعارہ ہے، تو علی جعفر زیدی بھی برسوں سے ضیاء الحق کی آمد کے بعد، مہاجر بنے، بن کے لندن جا بسے،
اور پھر وہاں پر ہی ’’صدیاں‘‘ بیت گئیں، برطانوی پارلیمنٹ کے گزشتہ انتخاب میں "Stop The War Coallition"کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا۔ پاکستان اور مسلمانوں کے معروف حامی جارج گیلوے ان کی انتخابی مہم کے دوسرے امیدوار تھے تاہم کامیاب نہ ہو سکے۔ علی جعفر زیدی سے ملاقات میں میں نے جدائی کے ان سارے ماہ و سال کا حساب چکا دیا۔ ضیاء الحق، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، اب آصف علی زرداری اور بلاول زرداری بھٹو، ہر باب، اصولی احتصار کے ساتھ زیر بحث آیا، وہ عالمی نقشے میں ’’پاکستان کے سب سے اہم‘‘ کے نظریئے پر تو ایمان کی حد تک قائم ہیں، ایک نئی عوامی سیاسی پارٹی کی تشکیل بھی اب اس نظریئے کا لازمی جزو ہے، آپ جلد لندن سے اس کا اعلان سن سکتے ہیں، سوالات کی یلغار تھی میں نے گریز سے کام لیا۔
پاکستان اور پاکستانی پیپلز پارٹی کے ساتھ جو بیت گیا وہ آتش بداماں ہی ٹھنڈی ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔ علی جعفر زیدی سے کہنا چاہتا تھا، 1977کے بعد آج 2014 میں ہمارے پاس تو بطور ’’پاکستان‘‘ ’’ایم پی اے رانا شعیب‘‘ حاصل ضرب ہے، اس لئے جو آپ کہتے ہو اس پر ہم کیا کہہ سکتے ہیں!
یکم سے 14اگست کے مابین متوقع سیاسی طوفان کے آثار کا سامنا کرنے کے لئے، گزشتہ دنوں سابق ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کے بارے میں کہا ’’وہ وزیراعظم بنیں، قوم نے بادشاہ منتخب نہیں کیا تھا کہ وہ چاروں صوبوں کے معاملات میں دخل اندازی کرتے پھریں۔ وہ خوف زدہ کیوں ہیں، شکایات ہوں تو 4کیا 40حلقوں میں بھی دوبارہ گنتی کرائی جانی چاہئے چاہے وہ حلقے پنجاب میں ہوں یا سندھ میں‘‘ میں علی جعفر زیدی کو سابق ’’صدر‘‘ کے اس بیان سے آگاہ نہ کر سکا، غالباً مقصد تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پاکستان اور پاکستانی عوام کے تحفظ کی خاطر ’’عوامی انقلاب‘‘ کی آئیڈیل سیاست کے بجائے ’’عملی سیاست‘‘ کا راستہ بھی اپنا لیا لیکن آج بھی پیپلز پارٹی کے مشورے، رہنمائی یا وارننگ کے سلسلے میں دائیں بازو کے سرمایہ دار اور رجعت پسند نمائندوں کو، اسٹیبلشمنٹ سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کی حب الوطنی کا پیمانہ ماپنے کی توفیق نہیں ہو سکی! علی جعفر زیدی سمیت دنیا بھر کے ملکوں میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی کے حامیوں اور ہر نوعیت کے ترقی پسندوں کے اخلاص اور جدوجہد سے انکار کم ظرفی یا جہالت کا آخری ستارہ ہی ہو سکتا ہے، پھر بھی زیدی سمیت یہ سب، چاہے ہزاروں کی تعداد میں ہیں، نہ بھولیں پاکستان پیپلز پارٹی ہی ایک غیر فرقہ وارانہ نظام ریاست، لبرل زندگی اور اس خطے میں پُر امن بقائے باہم کا سمندر ہے، اس کا حصہ بنے بغیر شاید آپ خود کو ہمیشہ ادھورا محسوس کریں کہ آپ کے سیاسی اور فکری جینز نے اسی سمندر سے جنم لیا تھا۔ کیا علی جعفر زیدی ہفت روزہ نصرت کی نظریاتی یادوں، البیان اور حنیف رائے سے ذہناً خود کو کبھی آزاد کراسکتے ہیں؟
تازہ ترین