• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ سو سال کا ہوگیا جس نے سندھ کو اپنے شعور کا ایک ایک لحظہ دیا ہے، وہ کہ جس پر جنریشن گیپ کی اصطلاح کبھی لاگو نہیں ہو سکتی کہ وہ سدا جوان ذہن ہے۔ اورکئی جوان ہیںجو اپنی سوچ میں بوڑھے بلکہ اپنی سوچ اوررویوں میںبوڑھوں سےزیادہ بوڑھے لگتےہیں۔ شاید ایسے لوگوں کیلئے ہی کنور مہندر سنگھ بیدی جیسے شاعر نے کہا ہوگا:
رندوں پر بڑھاپے میں بڑھاپا نہیں آتا
شاعر پر جوانی میں جوانی نہیں آتی
محمد ابراہیم جویو جسے اس کے ہم عصر اور دوست ’’جویو‘‘ کہتے ہیں اور سندھ اور پاکستان کے لوگ جویو صاحب کہتے ہیں۔ شاید یہ سندھ اور ملک کا وہ بڑا آدمی ہے دنیا کے اس خطے سے چند صحیح طور دانشوروں میں گنوایا جاسکتا ہے۔ میں اسے سندھ کا برٹرنڈرسل کہوں گا۔ سندھی شاعری اور ادب کی زہرا سہگل۔ محمد ابراہیم جویو جس نے سو سے زائد کتابیں اور کتابچے لکھے، ترجمہ اور تالیف کئے اور شیخ ایاز اور رسول بخش پلیجو سمیت کئی انتہائی اہم دماغ اپنی اتالیقی اور دوستی میں سندھ اور ملک میں پیدا کئے۔ اگر ان کے تمام لکھے ہوئے کاموں کو بھلا کر صرف ان کا ایک جگ مشہور کتابچہ ’’ سیو سندھ سیو دی کانٹیننٹ‘‘ کو ہی یاد رکھا جائے تو جویو کو برصغیر میں ناقابل فراموش بنادیتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ برطانوی استعمار کے دنوں میں بزبان انگریزی جویو کا لکھا ہوا یہ کتابچہ آج بھی پاکستان میں زیر بندش ہے۔
سندھ کا ادیب، دانشور اور گزشتہ صدی سے سندھ کی تنہائی میں قافلوں کا ندی کی روانی جیسا ساتھ اور سفر بھرنے والا محمد ابراہیم جویو موجودہ جامشورو ضلع کے گائوں آباد کے قریب ایک بے زمین کسان اور چرواہے کے گھر پیدا ہوا تھا۔ بچپن میں ہی اس کے والدین فوت ہوگئے تو اس کی پرورش اس کے دادا نے کی۔ اس کے داد سندھ کے رہنما جی ایم سید سے انتہائی یاد اللہ رکھنے والے شخص تھے جنہوں نے اپنے پوتے محمد ابراہیم کی تعلیم پر غریب ہوکر بھی انتہائی توجہ دی۔ جویو جب مکتب پڑھ کر اور ابتدائی تعلیم سے فارغ ہو چکے تو ان کے دادا جو کہ خود گائوں کے آخوند یا مذہبی تعلیم دینے والے استاد بھی تھے تو ابراہیم جویو کو مزید تعلیم کیلئے سندہ مدرستہ الاسلام داخل کرانے کو جی ایم سید جو کہ اس قت کراچی ڈسٹرکٹ بورڈ کے چیئرمین تھے کے پاس کراچی لیکر آئے۔ محمد ابراہیم جویو جنہوں نے مجھے بتایا تھا کہ جی ایم سید نے تمام عمر انہیں چھوٹی عمر کے باوجود ہمیشہ محمد ابراہیم کہہ کر بلایا کو آج بھی یاد ہے کہ کس طرح بقول ان کےپہلی بار سائیں جی ایم سید ان کو اپنی موٹر کار میں کراچی شہر کی بتتیاں اور عمارتیں دکھانے لے گئے تھے اور وہ تقسیم سے پہلے والا کراچی روشنیوں کا شہر آج بھی جویو کی آنکھوں کو چکا چوند کرتا رہتا ہے۔
دوسرے روز جی ایم سید خود انہیں سندھ مدرستہ الاسلام میں داخل کرانے اس وقت کے پرنسپل اور سندھ کے عظیم تعلیم دان علامہ محمد عمر بن دائود پوٹو کے پاس لیکر گئے۔ علامہ محمد عمر بن دائودپوٹو جن کی خود اپنی ذات سندھ کے غریبوں کے بچوں کیلئے ایک مشعل راہ بن کر رہی کہ کس طرح انہوں نے ایک غربت میں چارپائیاں بن کر اپنی تعلیم جاری رکھی اور سندھ کے ایک عظیم تعلیم دان کہلائے۔ محمد ابراہیم جویو سندھ مدرستہ الاسلام کے ایک ہونہار طالب علم نکلے۔ گریجویشن کے بعد یہیں سے وہ ایجوکیشن میں بیچلر کرنے اور مزید تعلیم کیلئے بمبئی گئے۔ یہ وہ بمبئ اور پورا ہندوستان تھا جہاں آزادی کی تحریک اپنے عروج پرتھی اوریہیں جویو مسلم لیگ یا کانگریس سے متاثر ہوئے بغیر اس وقت کے بہت ہی بڑے سوشلسٹ نظریہ دان ایم این رائے سے متاثر ہوئے اور رائے سے متاثر انقلابی نوجوانوں کے حلقوں میں سرگرم رہے۔
جب وہ بمبئی سے انیس سو چالیس کے عشرے میں تعلیم حاصل کر کے سندھ واپس آئے تو سندھ مدرستہ الاسلام میں ایک استاد کی نوکری شروع کی جہاں ان کے اچھے طالب علموں میں رسول بخش پلیجو بھی شامل تھے تو غلام مصطفی جتوئی بھی۔ کراچی میں بھی سندھ مدرسہ کے نوکری کے ساتھ وہ ایم این رائے کے نظریات سے جڑے رہے جن کے کراچی میں اس وقت کے سرگرم مزدرو رہنما خطیب احمد تھے۔ محمد ابراہیم جویو نے سندھ مدرسہ کےاندر بھی اپنے نوجوان طلبہ اور ساتھیوں پر مشتمل ایک میس شروع کی جسے کلب کا نام دیا گیا۔ کلب میں ایم این رائے کی تصنیفات سمیت دیگر انقلابیوں کی تصنیفات کے اسٹڈی سرکل، لیکچر اور ادبی نشستیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ جو یو نے انہی دنوں میں ایم این رائے سے متاثر ہوکر ان کی ایک کتابچے کے عنوان کی طرز پر ’’سیو سندھ سیو دی کانٹیننٹ‘‘ کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں مسلم لیگ یا کانگریس کی سیاست کے برعکس سندھ کی نجات اور ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کی بات کی گئی جس میں سندھ کے ہاری اورعوام الناس دیسی یا بدیسی استحصال سے آزاد، سکھی زندگی گزاریں گے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس طرح کے جویو کے آج تک معرکتہ آلارا بنے اس کتابچے کی اشاعت کے پیسے کسی اور نے نہیں بلکہ ان کے اپنے اسوقت کے شاگرد اور بعد میں سندھ کے سب سے بڑے جاگیردار غلام مصطفی جتوئی کے والد غلام رسول خان جتوئی نے دئیے تھے۔ خیر۔سیو سندھ سیو دی کانٹیننٹ پمفلٹ نوجوان ایم این رائیسٹ انقلابی استاد ابراہیم جویو اس وقت لیکر سندھ اسبملی چلاگیا جب محمود اے ہارون مسلم لیگ کی پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ کر رہے تھے۔ تب پرجوش انقلابی محمد ابراہیم جویو اور ان کے ساتھیوں نے محمود اے ہارون کے سامنے سخت مظاہرہ کیا جس پر جویو بتایا کرتے ہیں کہ محمود اے ہارون نے انہیں دھکے بھی دئیے تھے۔
حیرتناک بات یہ ہے کہ باوجود جویو اور جی ایم سید کے خیالات میں ایک سو اسی کے درجہ کے فرق ہونے کے باوجود جو یو انکے اخری دم تک تمام نظریاتی اختلافات کے سید کے ہمیشہ معتقد ہی رہے۔
’’ سیو سندھ سیو دی کانٹیننٹ: لکھنے ، شائع کرنے اور اسے تقسیم کرنے کی پاداش میں نہ صرف پمفلٹ پر پابندی لگی بلکہ جویو کو سندہ مدرستہ الاسلام کی نوکری سے بھی ہاتھ دھونے پڑ گئے جس کے بعد وہ ہائی ااسکول ٹھٹھہ میں استاد ہوگئے کہ وہ کراچی ضلع لوکل بورڈ کے زیر انتظام ہی تھا۔
ملک پر ون یونٹ کے نظام مسلط ہونے پر محمد ابراہیم جویونےاس کےخلاف سندھی ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو منظم کیا جس کی پاداش میں انہیں سندھ بد ر کر کے کوہاٹ جیسے دوردراز علاقے میں ان کا تبادلہ کردیا گیا جہاں وہ ایک طویل عرصہ تک سندھ بدری میں رہے۔
سندھ میں ریڈیو پاکستان کی موجودہ عمارت، سندھ یونیورسٹی اور سندھی ادبی بورڈ کا قیام اور بھٹ شاہ پر شاہ لطیف کا سالانہ میلہ اور ادبی مجلسں جی ایم سید کی خدمات میں شمارہوں گے، سندھی ادبی بورڈ کا سیکرٹری محمد ابراہیم جویو کو مقرر کیا گیا اور جن کی زیرادارت ادبی سہ ماہی جریدے ’’مہران‘‘ کا اجراء ہوا جس میں شیخ ایاز سمیت جویو نےکئی جدید سندھی شاعروں کی شاعری متعارف کرائی۔ جویو کے زیر ادارت سہ ماہی مہران سندھی ادب کا سنہرا او رتاریخی دورکہلائے گا۔ جویو محکمہ تعلیم میں انسپکٹرآف اسکولز کے عہدے پر فائز رہے۔ جناح صاحب کی طرح یہ بھی جویو نے سکھایا کہ آدمی جیل جائے بغیر بھی کسی بھی بڑے مقصد کے حصول کیلئے جدوجہد کرسکتا ہے اگرچہ وقت کی حکومتوں نے جویو کو کبھی جیل میں نہیں ڈالا لیکن جویو کا تعاقب خفیہ ادارے والے ان کی زندگی کے بعد بھی ایک خطرناک سندھ پرست کے طور پرکرتے رہیں گے۔ اسی طرح کا یگانہ روزگار کردار ہمیں پنجابی کے عظیم شاعر نجم حسین سید کا بھی ملتا ہے۔ جویو نے محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد سندھ کے حقوق کی جدوجہد اور سندھی ادب کی خدمات جاری رکھیں۔ بلکہ دنیائےادب وسیاست کے کئ شہ پارے جویو نے سندھی میں ترجمے بھی کئے۔ سندھی نوجوانوں نے روسو اور والٹیئر کا نام درسی کتابوں سے زیادہ جویو کے تراجم کے ذریعے جانا۔ شیخ ایاز کی کتابوں کے اگر مقدمات جویو نہ بھی لکھتے تب بھی شیخ ایاز عظیم شاعر مانے جاتے لیکن جویو نے ایاز کی شاعری کا نئی جدت اور زاوئیے سے گہرا مطالعہ ضرور پیش کیا ہے۔ بلکہ شیخ ایاز کے جویو کے نام خطوط جو’’ کاک ککوریا کاپڑی‘‘ کے نام سے شا ئع ہوئے سندھی نثر کا لازوال شاہکار ہیں جس کے ذریعے کئی سندھی لکھاریوں یا پڑھنے والوں نے لکھنا پڑھنا سیکھا۔ ضیاءآمریت کےدنوں میں انہوں نے حیدرآباد سندھ سے ایک ہفت روزہ’’ ہدایت‘‘ بھی جاری کیا جس پر چھاپے بھی لگے۔ جویو کی قائم کردہ سندھی ادیبن جی کوآپریٹو سوسائٹی کی طرف سے مارشل لا کے دنوں میں نہایت ہی اعلیٰ فکری ادبی کتابیں شائع کی گئيں جن میں تراجم میں اسٹفین زویگ کی فکر کی آزادی، والٹیئر کا کینڈڈ، بریخت کا ڈرامہ گلییلو گلیلی کے علاوہ بچوں کا مسیح، عورت زاد، اصل تصنیفات میں جی ایم سید کے خطوط، سندھی شاعری کی سہ مورتی شاہ سچل اور سامی سمیت کئی کتابیں شامل ہیں۔ انہوں نے سید غلام مصطفی شاہ کے ساتھ انجمن خدام سندھ یا سرونٹس آف سندھ سوسائٹی ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے برپا کئے رکھی جس کے تحت انگریزی میں باقاعدہ ایک سہ ماہی سندھ کوارٹرلی بھی شائع ہوا کرتا تھا۔ آج جب سندھ کی سیاست میں بہتر فرقے ہیں لیکن جویو کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ایک انتہائی غیر متنازعہ دانشور اور ادیب کی حیثیت سے کتابوں اور کتابچوں و اپنی دیگر تحریروں کے ذریعے ایک صدی تک سندھ میں شعور کی شمع جلا رکھی ہے۔ کاش ان کی یہ شمع سندھ میں نسلی لسانی تفرقات اورعورت کے خلاف تشدد ختم کرسکتی۔
تازہ ترین