• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ملک میں ایک مستقل روایت بن چکی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ضروری اور خصوصاً اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، مہنگائی ، گراں فروشی اور ناجائز منافع خوری کا یہ سلسلہ پورے مہینے چلتا ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں عیدالفطر کی آمد کی وجہ سے یہ نقطہ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ مسلم معاشروں یا مسلم آبادی والے ملکوں میں ہجری سال کے دو مہینے ایسے ہوتے ہیں جہاں گردش زر کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ پہلا ہفتہ ذو الحجہ کا ہے جس میں قربانی کا فریضہ ادا کیا جاتا ہے اور دوسرا رمضان المبارک کا۔ زر کی مقدار اور رفتار بڑھنے سے آبادی کے کم آمدنی والے طبقے زیادہ مستفید ہوتے ہیں، ان کیلئے روزگار کے نئے عارضی مواقع فراہم ہو جاتے ہیں، البتہ روزانہ کی اجرت پرکام کرنے والے جیسے راج، مزدور ، گل کار ، ترکھان اور کم آمدنی والے سفید پوش مشکلات میں پھنس جاتے ہیں۔رمضان میں اخباروں ، بازاروں، سڑکوں پر ہر جگہ دو طرح اشتہارات نظر آتے ہیں ایک اپنی زکوٰۃ ، عطیات ، صدقات ، خیرات کینسر ، تھیلیسیمیا ،گردوں ، آنکھوں ، تپ دق وغیرہ کا علاج معالجہ کرنے والے اسپتالوں اور اداروں کو دو جو ان امراض کے مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں یا جو یتیموں ، بیوائوں ، ضعیفوں کی کفالت کرتے ہیں، زخمیوں اور بیماروں کو اسپتال پہنچاتے ہیں، کچرا کنڈیوں پر پڑے ہوئے نومولودوں کی پرورش کرتے ہیں، ضرورت مندوں کو خون کی بوتلیں چڑ ھاتے ہیں اور لاوارثوں کے کفن دفن کا انتظام کرتے ہیں۔ ایسے ٹرسٹ اور فائونڈیشنیں بھی امداد کی مستحق ہیں جو ناداروں کے بچوں کی تعلیم کا انتظام کرتے ہیں۔ ملک میں ہزاروں ادارے فلاحی کاموں میں مصروف ہیں۔ ان کے اشتہارات بڑے دل فگار ہوتے ہیں، جیسے ایک بچی جو کہہ رہی ہے کہ آپ کی زکوٰۃ میری زندگی ہے۔ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والا سالہ سات بچہ کہتا ہے کہ ’’کیا تعلیم میرا حق نہیں‘‘۔ ایسے تمام اداروں کی تشکیل و کارگزاری میں زکوٰۃ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارے برادر محترم ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی جن کی نظر اسلامی معیشت پر بڑی گہری ہے نے تخمینہ لگایا ہے کہ شرعاً واجب الادا زکواۃ 100 ارب کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اگر اس میں فطرے اور فدیہ کی رقم جمع کردی جائے تو 615ارب کا مزید اضافہ ہوسکتا ہے، لیکن سرکاری اور نجی طور پر اس کا عشر عشیر نہ جمع ہوتا ہے اور نہ تقسیم ہوتا ہے۔
رمضان عبادت کا مہینہ ہے، ہم نے اسے ایک طرف حلاوت اور ذائقے کے مہینے میں تبدیل کردیا ہے اور دوسری طرف اسراف کے لئے قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسرفین کو پسند نہیں کرتا اور ہم جی کھول کر اسراف کرتے ہیں۔ لوگوں نے بڑی افطار اور ڈنر پارٹیوں کو سنت موکدہ کا درجہ دے دیا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں ایک یا دو افطار پارٹیاں کرتی ہیں۔ جملہ سیاسی لیڈر ایسی پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں اونچی سطح کے رہنمائے کرام اور صحافی شرکت کرتے ہیں ، کارکنوں کو تو پاس بھی پھٹکنے نہیں دیا جاتا ۔ وزراء ، مشیر اور اعلیٰ عہدہ دار سرکاری خرچ پر پارٹیاں دیتے ہیں (اس مرتبہ موجودہ وزیراعظم نے ان کی ممانعت کی تاکید کی ہے)۔ان پارٹیوں کی اتنی کثرت ہوتی ہے کہ گزشتہ سال ایک نیم سیاسی سینیٹر نے مجھے بتایا کہ رمضان میں مشکل ہی سے ایسے چند روز آتے ہیں جب اہل خاندان کے ساتھ روزہ افطار کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اب یہ رواج بڑھ رہا ہے کہ خوشحال لوگ اپنے اہل خاندان اور دوست احباب کے ساتھ اونچے ہوٹلوں ، کلبوں وغیرہ میں روزہ افطار کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں، یہاں ہزار بارہ سو فی کس چارج کئے جاتے ہیں۔ یہاں کثیر مقدار میں کھانا ضائع ہوتا ہے۔ بعض متوسط قسم کے ہوٹل افطار سے سحر تک کھلے رہتے ہیں۔ ملک میں ایسے ایسے ویلفیئر ادارے بھی ہیں جن کے دسترخوانوں کا خرچ 20کروڑ روپے ماہانہ ہے اور جن سے ایک لاکھ افراد مستفید ہوتے ہیں۔ بہت سے متوسط لوگ چھوٹے ہوٹلوں اور طعام خانوں کو فی کس کےحساب سے رقم دے دیتے ہیں۔یہاں افطاروں میں مرد، عورتیں اور بچے افطار کا انتظار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر مسجد میں محلے سے افطاری آتی ہے جس میں مسافر بالخصوص بیرونی اداروں سفرا اور غریب نمازی شریک ہوتے ہیں۔ یوں غریب پردہ نشین خواتین کے سوا شاید ہی کوئی محروم رہتا ہو۔
دوسری طرف عام فروخت کا کاروبار ہے تمام دکان دار نہ صرف اپنی اشیاء کی نمائش کرتے ہیں بلکہ ترغیب کے لئے 20، 30، 50بلکہ 70فی صدی کی رعایت کا اعلان کرتے ہیں یا دو قمیص وغیرہ خریدنے پر ایک قمیص دیتے ہیں۔ کھلے پلاٹوں ، میدانوں ، پارکنگ کے علاقوں میں قانونی اور غیرقانونی بازار سج جاتے ہیں۔ جہاں سلے سلائے مردانہ زنانہ ، بچکانہ کپڑوں ، جوتوں ، موزے ، بنیائن چپلوں کے ڈھیروں اسٹال نظر آتے ہیں۔ خواتین میں چوڑیوں اور مہندی کے اسٹال بڑے مقبول ہوتے ہیں۔ ٹھیلے اور پتھارے والے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے، موسمی پھلوں کے علاوہ چکن قیمے اور آلو کے بھرتے کے سموسے، بیسن اور پالک کے پکوڑے، کچوری ، چاٹ، مرغ چھولے، آلو کے چپس ، سیخ اور شامی کباب اور اس طرح کی دوسری اشیاء جو بطور افطاری استعمال ہوتی ہیں اور کھانے میں استعمال ہونے والی بریانی،حلیم (جو پیکٹوں میں دیا جاتا ہے) طرح طرح کے آئس کریم،قلفیاں،لسی،طرح طرح کے شربت فروخت ہوتے نظر آتے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں نوجوان گھروں سے میزیں اور تخت لاکر سڑکوں اور گلیوں میں سستے جوتوں ، چپلوں ، موزے ، بنیان، روزمرہ کے استعمال کی اشیاء ، تیل ، پوڈر، نیل پالش (کچھ اصلی اور کچھ نقلی) کی دکانیں لگاتے ہیں اور اچھی خاصی کمائی کرلیتے ہیں۔ گو عید کارڈوں کا وہ رواج نہیں رہا جو پہلے تھا پھر بھی ان اسٹالوں پر نوجوان خصوصاً لڑکیوں کا جمگھٹا نظر آتا ہے۔ بازاروں میں گداگروں کے بھی غول کے غول نظر آتے ہیں ان میں جیب کترے بھی شامل ہوتے ہیں۔ لوگ ان کی مدد بھی کرتے ہیں حالانکہ اس وقت شمالی وزیرستان کے آئی پی ڈیز سب سے زیادہ امداد کے مستحق ہیں۔ گو فوج اور بعض سیاسی جماعتیں ان کی مدد کررہی ہیں مگر وہ عوامی سطح پر امداد کے مستحق ہیں۔ رمضان میں بیرونی ملکوں میں مقیم پاکستاٰنی اپنے اعزا کیلئے غیر معمولی رقمیں بھیجتے ہیں۔ بینکوں میں زر کی قلت کو دور کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو 146 ارب کی رقم کا قرضہ دیا ہے۔ ان سب وجوہ سے کاروبار کا دائرہ وسیع ہوا، اور گردش زر کی تیزی سے لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئے۔ اور گرانی کے اثرات کم محسوس ہوئے اس کو رمضان کی برکت بھی کہا جاسکتا ہے۔
تازہ ترین