سانحہ کوئٹہ کے بعد دہشت گردی کے حوالے سے قومی سلامتی اور امن و امان کو لاحق سنگین خطرات کے حوالے سے جو پریشان کن سوالات عوام کے ذہنوں میں پیدا ہوئے ان میں سب سے اہم قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی کے بارے میںہیں۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ جو کام مسلح افواج کے ذمے تھا وہ تو انہوں نے کردیا لیکن حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا نہیں کر سکی۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے علاوہ اتحادی پارٹیوں نے بھی اس مسئلے پر حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس پس منظر میںجمعرات کو وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت معاملے کے تمام پہلوئوں پر غور کیلئے سیاسی و عسکری قیادت کا اہم ترین اجلاس ہوا جو چھ گھنٹے جاری رہا۔ اس میں داخلی و علاقائی سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور ملک میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور عوام کے امن و سکون کو یقینی بنانے کیلئے کئی اہم فیصلے کئے گئے۔ اجلاس میں آرمی چیف کے علاوہ وزیر خزانہ، وزیر داخلہ اور سول و ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ بھی شریک ہوئے۔اجلاس کا سب سے اہم فیصلہ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں پیش رفت کی نگرانی کیلئے اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس قائم کرنے کے بارے میں ہے جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام محکموں اور ایجنسیوں کے سینئر نمائندے شامل ہوں گے۔ اس امر کی نشاندہی کی گئی کہ ملک بھر میں دہشت گردی کو روکنے کیلئے تمام سیاسی پارٹیوں کے اتفاق رائے سے جو 20نکاتی ایکشن پلان منظور ہوا تھا اس کے 8نکات کو عملی جامہ پہنانے میں سستی سے کام لیا گیا طے پایا کہ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو تمام ضروری وسائل اور معاونت فراہم کی جائے اور سول و ملٹری انٹیلی جنس اداروں کے میکنزم کو مربوط کیا جائے۔ وفاق اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کو فنڈز مہیا کرے گا۔ فوجی عدالتوں میںتوسیع، وزرائے اعلیٰ کو مشاورتی عمل میں شریک کرنے، دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے، مدارس میں اصلاحات لانے اور اس سلسلے میں علمائے کرام سے ملاقات اور مشاورت کا بھی فیصلہ کیا گیا وزیراعظم نے ہدایت کی کہ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کو موثر مکمل نتیجہ خیز اور ٹائم فریم کے اندر یقینی بنانے کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ اس سلسلے میں وزرائے اعلیٰ کا الگ اجلاس بھی بلایا جائے گا اور انہیں سیاسی و عسکری قیادت کے اگلے اجلاس میں بھی شریک کیا جائے گا اعلیٰ سطحی اجلاس کے فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سانحہ کوئٹہ کے پس منظر میں ملک کی سیاسی وعسکری قیادت دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے کتنی سنجیدگی اور عملیت پسندی سے کام لے رہی ہے قومی ایکشن پلان کے 20 نکات پر اتنی ہی مستعدی سے عملدرآمد کرایا جاتا جتنے خلوص نیت سے انہیں مرتب اور منظور کیا گیا تھا تو آج ملک میں امن و امان کی صورت حال مختلف ہوتی قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی رفتار کی نگرانی اور مانٹیرنگ کے لئے بااختیار ٹاسک فورس کا قیام ایک مستحسن اقدام اور وقت کی ناگزیر ضرورت ہے جب تک اس منصوبے کی موثر مانٹیرنگ نہیں ہو گی اس کے اصل مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے دہشت گردی کی تمام صورتوں کا خاتمہ ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ہمیں نہ صرف قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے بلکہ اس میں وقت کےساتھ جو خامیاں اور کمزوریاں نظر آئیں انہیں بھی دور کرنا ہے ہمارا دشمن سفاک ہی نہیں انتہائی چالاک بھی ہے اس سے پہلے کہ خدانخواستہ سانحہ کوئٹہ جیسا کوئی اور واقعہ ہو جائے اس کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے اس سلسلے میں ایک قومی بیانیے، ایک موثر لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تعلیم اور صحت سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں تعمیر و ترقی کی رفتار تیز کریں اور انتہا پسندوں کو تخریب کاری سے روک کر انہیں مثبت اور پیداواری عمل میں شریک کریں، توقع ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت کے فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا تاکہ ماضی میں ہونے والی کوتاہیوں کا ازالہ اور انکے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی اصلاح ہو سکے۔
.